سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
The Book of Fasting
41. بَابُ : صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ
41. باب: یوم عاشوراء کا روزہ۔
Chapter: Fasting the day of `Ashura’
حدیث نمبر: 1737
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح ، انبانا الليث بن سعد ، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، انه ذكر عند رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان يوما يصومه اهل الجاهلية، فمن احب منكم ان يصومه فليصمه، ومن كرهه فليدعه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَوْمًا يَصُومُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ كَرِهَهُ فَلْيَدَعْهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عاشوراء (محرم کی دسویں تاریخ) کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں دور جاہلیت کے لوگ روزہ رکھتے تھے، لہٰذا تم میں سے جو روزہ رکھنا چاہے تو رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصوم 20 (1126)، (تحفة الأشراف: 8285)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم 69 (2002)، سنن ابی داود/الصوم 64 (2443)، مسند احمد (2/57)، سنن الدارمی/الصوم 46 (1803) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from ‘Abdullah bin ‘Umar that the Day of ‘Ashura’ was mentioned in the presence of the Messenger of Allah (ﷺ). The Messenger of Allah (ﷺ) said: “That was a day when the people of the Ignorance used to fast. So whoever among you wants to fast may do so, and whoever does not want to may leave it.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح البخاري4501عبد الله بن عمرمن شاء صامه ومن شاء لم يصمه
   صحيح البخاري1892عبد الله بن عمرصام النبي عاشوراء وأمر بصيامه لما فرض رمضان ترك
   صحيح البخاري2000عبد الله بن عمريوم عاشوراء إن شاء صام
   صحيح مسلم2647عبد الله بن عمرمن شاء صامه ومن شاء تركه
   صحيح مسلم2645عبد الله بن عمرمن أحب أن يصومه فليصمه من أحب أن يتركه فليتركه
   صحيح مسلم2644عبد الله بن عمرمن أحب منكم أن يصومه فليصمه من كره فليدعه
   صحيح مسلم2642عبد الله بن عمرعاشوراء يوم من أيام الله من شاء صامه ومن شاء تركه
   سنن أبي داود2443عبد الله بن عمرمن شاء صامه ومن شاء تركه
   سنن ابن ماجه1737عبد الله بن عمرمن أحب منكم أن يصومه فليصمه من كرهه فليدعه

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1737 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1737  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ یہ روزہ فر ض نہیں البتہ ثواب کا کا م ضرور ہے
(2)
جاہلیت کے جس کام کی تائید قرآن وحدیث سے ہو جائے وہ ہماری شریعت کا حکم بن جاتا ہے پھر اسے جاہلیت کا کام سمجھ کر نہیں بلکہ اسلام کا حکم سمجھ کر ادا کیا جاتا ہے اور جس کام سے منع کر دیا جائے وہ با لکل حرام ہوتا ہے جس کام کے بارے میں حکم یا ممانعت کی دلیل نہ ملے اس سے اجتنا ب کرنا چاہیے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے بہت سے کاموں میں یہود و نصاری کی مخالفت کی ہے حتی کے صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھ لیا کہ کفار کی مخالفت اسلام کا ایک اصول ہے یہی وجہ ہے کہ جب نماز کے وقت کا اعلان کرنے کے لئے مشوره ہوا تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ناقوس بجانے اور آگ جلانے کی تجویز رد کر دی كہ یہ غیر مسلمو ں کا طر یقہ ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھیے: (سنن ابن ماجة، الأذان، باب بدء الأذان، حدیث: 707)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1737   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2443  
´یوم عاشورہ (دسویں محرم) کے روزہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ہم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب رمضان کے روزوں فرضیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ (یوم عاشوراء) اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے لہٰذا جو روزہ رکھنا چاہے رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2443]
فوائد ومسائل:
دن تو سارے ہی اللہ کے ہیں، مگر جن ایام میں کوئی خاص واقعہ پیش آیا ہو اور دینی و شرعی اعتبار سے ان کی اہمیت ہو، تو انہیں (أَيَّامَ ٱللَّهِ) کہا گیا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2443   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2642  
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل جاہلیت عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان بھی رمضان کی فرضیت سے پہلے اس کا روزہ رکھتے تھے۔ جب رمضان فرض کر دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عاشورہ ایام اللہ میں سے ایک دن ہے تو جو چاہے اس کا روزہ رکھے اور جو چاہے اسے چھوڑ دے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2642]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایام اللہسے مراد وہ ایام ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء اور ان کی امتوں پر احسان و انعام فرمایا اس لیے سورہ ابراہیم میں فرمایا:
﴿وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ﴾ اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات و انعامات سے تذکیرو نصیحت کیجئے۔
اور ان کے دشمنوں کو تباہ و برباد کیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2642   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1892  
1892. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی یہ روزہ رکھنے کاحکم دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کا روزہ ترک کردیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ یہ روزہ نہیں رکھتے تھے۔ البتہ اگر ان کے روزوں کے موافق ہوجاتا تو رکھ لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1892]
حدیث حاشیہ:
یعنی جس دن ان کو روزہ رکھنے کی عادت ہوتی مثلاً پیر یا جمعرات اور اس دن عاشورہ کا دن بھی آپڑتا تو روزہ رکھ لیتے تھے، یوم عاشور محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو کہا جاتا ہے، یہ قدیم زمانے سے ایک تاریخی دن چلا آرہا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1892   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4501  
4501. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اہل جاہلیت عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ جب رمضان کی فرضیت نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4501]
حدیث حاشیہ:
عاشوراء کا روزہ پہلے فرض تھا۔
رمضان کی فرضیت کے بعد عاشوراء کی فرضیت منسوخ ہوگئی، البتہ استحباب اب بھی باقی ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے، آپ نے فرمایا:
قریش دورجاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے خود بھی مکہ میں رہتے ہوئے عاشوراء کا روزہ رکھا اور اپنے اصحاب کو بھی اس روزے کا پابند کیا۔
جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
" (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1893)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4501   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.