ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا، جہالت کی باتیں کرنا، اور ان پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ روزہ صرف اسی کو مت سمجھو کہ کھانا پانی چھوڑ دیا تو روزہ ادا ہوگیا، بلکہ روزہ کی غرض و غایت اور مقصد یہ ہے کہ خواہشات نفس کو قابو میں رکھے، ہر طرح کے چھوٹے بڑے گناہوں سے بچے، اور جھوٹ، غیبت،برے کام اور گالی گلوچ سے دور رہے، ورنہ خطرہ ہے کہ روزہ قبول نہ ہو اور یہ سب محنت بے کار ہو جائے، اگر چہ یہ سب باتیں یوں بھی منع ہیں خواہ روزہ ہو یا نہ ہو لیکن روزہ میں اور زیادہ سخت گناہ ہے۔
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
‘Whoever does not give up evil and ignorant speech, and acting in accordance with that, Allah has no need of his giving up his food and drink.”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1689
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ کا حصول ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾(البقرة: 183: 2) ”اے ایمان والو!تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیاگیا تھا تاکہ تم مقتی بن جاؤ“ (2) تقویٰ کے حصول کے لئے صرف کھانے پینے سے پرہیز کافی نہیں بلکہ ہر قسم کےگناہوں سے بچنے کی شعوری کوشش مطلوب ہے۔ روزہ رکھ کر ہم اللہ کی حلال کردہ چیزوں سے بھی اللہ کے حکم کےمطابق پرہیز کرتے ہیں۔ تو جو کام پہلے بھی ممنوع ہیں۔ ان سے بچنا زیادہ ضروری ہے تاکہ مومن ان سے پرہیز کا عادی ہوجائے۔
(3) شریعت اسلامیہ میں روزے کے دوران میں بات چیت کرنا جائز ہے۔ بلکہ چپ کا روزہ شرعاً منع ہے دیکھئے: (صحیح البخاري، الایمان والنذور، باب النذر فیما لا یملك وفی معصیة، حدیث: 6704)
(4) عبادات انسان کے روحانی اور جسمانی فائدے کے لئے مقرر کی گئی ہیں۔ یہ اللہ کی ر حمت ہے کہ وہ ان پراعمال پر آخرت میں بھی عظیم انعامات عطا فرماتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1689
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 538
´(روزے کے متعلق احادیث)` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا اور حماقت و بیوقوفی کو ترک نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانے پینے کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔“(بخاری و ابوداؤد) اور الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 538]
لغوی تشریح 538: لَم یَدَع نہ چھوڑا، ترک نہ کیا۔ یَدَع، وَدَع سے ماخوذ ہے۔ أَلزُّور ”زا“ پر ضمہ اور ”واؤ“ ساکن ہے، یعنی جھوٹ اور بے ہودہ بولنا۔ أَلجَھلَ حماقت و بیوقوفی اور سختی۔ ٘ فَلَیسَ لِلّٰہ حَاجَہٌ تواللہ کو اس کی طرف التفات و توجہ کی حاجت و ضرورت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ہاں اس کا یہ عمل قابلِ قبول نہیں۔
فوائد و مسائل 538: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کی حالت میں جھوٹ، غلط بیانی اور جہالت و نادانی کے کام ترک کر دینے چاہییں۔ جھوٹ بولنے اور غلط بیانی سے روزے کی روح متأثر ہوے بغیر نہیں رہ سکتی، اس لیے روزے کی حالت میں روزے دار کا ان کاموں سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ ➋ روزے دار کی جسمانی تربیت کیساتھ روحانی تربیت بھی ہوتی ہے۔ گویا روزے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی طبیعت پر کنٹرول کرنا سیکھ جائے۔ جھوٹ، دغا، فریب اور نادانی کے کاموں سے اجتناب کرے۔ اگر یہ مقصود حاصل نہ ہوا تو پھر روزہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 538
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2362
´روزے میں غیبت کی برائی کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (روزے کی حالت میں) جھوٹ بولنا، اور برے عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔“[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2362]
فوائد ومسائل: اللہ تعالیٰ کو بنی آدم کے کسی عمل کی کوئی حاجت نہیں۔ اس کی اپنی احتیاج کے تحت ہی اسے شرعی امور کا پابند کیا گیا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان اپنی تمام تر گفتگو اور تمام کاموں میں اپنے آپ کو تمام محرکات سے دور رکھے۔ غیبت نہ کرے، جھوٹ نہ بولے، چغلی نہ کھائے، حرام چیزوں کو فروخت نہ کرے، جب پورا مہینہ آدمی ان چیزوں سے دور رہے تو امید ہے کہ اس کا نفس سال کے بقیہ مہینوں میں بھی ان چیزوں سے اللہ کے فضل و کرم سے محفوظ رہے گا۔ لیکن انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ بہت سارے روزہ دار، رمضان اور غیر رمضان میں کوئی فرق نہیں کرتے، وہی جھوٹ، بے ہودہ گفتگو، دھوکہ وغیرہ اپنی عادت کے مطابق جارہ رہتا ہے۔ ان کے اوپر رمضان المبارک کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بلاشبہ حدیث میں مذکورہ اعمال روزے کو نہیں توڑتے مگر اس کے اجروثواب میں کمی ضرور آجاتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب کثرت سے ان اعمال کی پروا نہ کی جائے تو روزے کا اجر ہی ضائع ہو جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2362
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 707
´روزہ دار کے غیبت کرنے کی شناعت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ( «صائم») جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 707]
اردو حاشہ: 1؎: اس تنبیہ سے مقصود یہ ہے کہ روزہ دار روزے کی حالت میں اپنے آپ کو ہر قسم کی معصیت سے بچائے رکھے تاکہ وہ روزے کے ثواب کا مستحق ہو سکے، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ رمضان میں کھانا پینا شروع کر دے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 707
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1903
1903. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص جھوٹ اور فریب کاری ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ (روزے کے نام سے) اپنا کھانا پیناچھوڑ دے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1903]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں جھوٹ اور دغا بازی نہ چھوڑنے والا انسان روزہ کی توہین کرتا ہے اس لیے اللہ کے یہاں اس کے روزے کا کوئی وزن نہیں قال البیضاوي لیس المقصود من شرعیة الصوم نفس الجوع و العطش بل ما یتبعه من کسر الشهوات و تطریح النفس الأمارة للنفس المطمئنة فإذا لم یحصل ذلك لا ینظر اللہ إلیه نظر القبول۔ (فتح) یعنی روزہ سے محض بھوک و پیاس مراد نہیں ہے بلکہ مراد یہ بھی ہے کہ شہوات نفسانی کو ترک کیا جائے، نفس امارہ کو اطاعت پر آمادہ کیا جائے تاکہ وہ نفس مطمئنہ کے پیچھے لگ سکے۔ اگر یہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے تو اللہ پاک اس روزہ پر نظر قبول نہیں فرمائے گا۔ روزہ دار کے منہ کی بدبو خدا کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اس پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ عبادت کے پسندیدہ ہونے سے اس کا اثر بھی پسندیدہ ہوجاتا ہے اور عالم مثال میں بجائے عبادت کے وہ اثر متمثل ہوجاتا ہے، ا سی لیے آپ ﷺ نے اس کے سبب سے ملائکہ کو خوشی پیدا ہونے اور اللہ پاک کی رضا مندی کو ایک پلہ میں اور بنی آدم کو مشک کے سونگھنے پر جو سرور ہوحاصل ہوتا ہے اس کو ایک پلہ میں رکھا تاکہ یہ رمز غیبی ان کے لیے ظاہر ہو جائے۔ (حجة اللہ البالغة)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1903
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6057
6057. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص جھوٹ بولنا، اس کے مطابق عمل کرنا اور جہالت کی باتیں ترک نہ کرے تو اللہ تعالٰی کو (اس کے روزے) کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا ترک کرے۔“ احمد بن یونس نے کہا: مجھے اس حدیث کی سند ایک شخص نے سمجھائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6057]
حدیث حاشیہ: یعنی جب جھوٹ فریب بری باتیں نہ چھوڑیں تو روزہ محض فاقہ ہوگا، اللہ کو ہماری فاقہ کشی کی ضرورت نہیں ہے وہ تو یہ جانتا ہے کہ ہم روزہ رکھ کر بری باتوں اور بری عادتوں سے پر ہیز کریں اور نفسانی خواہشوں کو عقل سلیم اور شرح مستقیم کے تابع کر دیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6057
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1903
1903. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص جھوٹ اور فریب کاری ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ (روزے کے نام سے) اپنا کھانا پیناچھوڑ دے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1903]
حدیث حاشیہ: (1) روزے کا مقصد یہ ہے کہ انسان پرہیزگار اور تقویٰ شعار بن جائے۔ اگر یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو روزہ نہیں بلکہ فاقہ کشی ہے جس کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کیونکہ روزہ دار جھوٹ اور دغا بازی کے ذریعے سے روزے کی توہین کرتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ قاضی بیضاوی ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ روزہ رکھنے کا مقصد صرف بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں بلکہ اس کا مقصد شہوت نفسانی کو ختم کرنا اور نفس امارہ کو نفس مطمئنہ کے تابع کرنا ہے۔ جب روزے دار کو یہ چیزیں حاصل نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا اور نہ اس قسم کے روزے کو اپنے ہاں شرف قبولیت ہی سے نوازے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جھوٹ بولنے والے کو روزہ ترک کرنے کا حکم دیا جائے بلکہ اس کا مقصد روزے دار کو اس قسم کی بری حرکت سے باز رکھنا ہے۔ (فتح الباري: 151/4) واللہ أعلم۔ (2) قول الزور سے مراد جھوٹ ہے، تہمت اور باطل پر عمل بھی اس میں شامل ہے، نیز جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے باز نہ رہنا جھوٹ پر عمل کرنا ہے۔ (3) امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان میں جواب شرط کو ذکر نہیں کیا کیونکہ حدیث میں اس کی وضاحت موجود تھی، نیز اگر اسے ذکر کیا جاتا تو عنوان کافی طویل ہو جاتا، اس لیے امام بخاری نے حسب عادت اسے حذف کر دیا ہے۔ (عمدةالقاري: 33/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1903
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6057
6057. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص جھوٹ بولنا، اس کے مطابق عمل کرنا اور جہالت کی باتیں ترک نہ کرے تو اللہ تعالٰی کو (اس کے روزے) کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا ترک کرے۔“ احمد بن یونس نے کہا: مجھے اس حدیث کی سند ایک شخص نے سمجھائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6057]
حدیث حاشیہ: (1) روزہ رکھنے کے بعد جھوٹی باتوں اور بری عادتوں سے پرہیز کرنا چاہیے، اس کے علاوہ نفسانی خواہشات کو بھی شریعت اسلامیہ کے تابع کر دینا چاہیے، جو شخص روزہ رکھنے کے بعد جھوٹ، فریب اور بری باتوں کو ترک نہیں کرتا، اس کا کوئی روزہ نہیں بلکہ وہ خوامخواہ بھوک برداشت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس قسم کی فاقہ کشی کی کوئی ضرورت نہیں۔ (2) بہرحال روزہ رکھنے کے بعد اس کے حقوق وآداب کو پورا کرنا چاہیے بصورت دیگر اس طرح کا روزہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرف قبولیت سے محروم رہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ غیبت کرنا کبیرہ گناہ ہے اور اس کے ارتکاب پر ملنے والے گناہ سے روزے کے ثواب میں بہت کمی واقع ہو جاتی ہے، بلکہ بعض اوقات کچھ بھی باقی نہیں رہتا، گویا وہ روزہ افطار کرنے کے حکم میں ہے۔ (فتح الباري: 582/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6057