236. گذشتہ مجمل روایت کی مفسر روایت کا بیان اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمان ہے: ”ابتداء میں نماز دورکعت فرض کی گئی تھی“
والدليل على ان قولها: إن الصلاة اول ما افترضت ركعتان ارادت بعض الصلاة دون جميعها «ارادت الصلوات الاربعة دون المغرب، وكذلك ارادت، ثم زيد في صلاة الحضر ثلاث صلوات خلا الفجر والمغرب، والدليل على ان قول ابن عباس فرض الله الصلاة على لسان نبيكم في الحضر اربعا، إنما اراد خلا الفجر والمغرب، وكذلك ارادوا في السفر ركعتين خلا المغرب، وهذا من الجنس الذي نقول في كتبنا من الفاظ العام التي يراد بها الخاص» وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ قَوْلَهَا: إِنَّ الصَّلَاةَ أَوَّلُ مَا افْتُرِضَتْ رَكْعَتَانِ أَرَادَتْ بَعْضَ الصَّلَاةِ دُونَ جَمِيعِهَا «أَرَادَتِ الصَّلَوَاتِ الْأَرْبَعَةِ دُونَ الْمَغْرِبِ، وَكَذَلِكَ أَرَادَتْ، ثُمَّ زِيدَ فِي صَلَاةِ الْحَضَرِ ثَلَاثَ صَلَوَاتٍ خَلَا الْفَجْرِ وَالْمَغْرِبِ، وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ قَوْلَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَرَضَ اللَّهُ الصَّلَاةَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّكُمْ فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا، إِنَّمَا أَرَادَ خَلَا الْفَجْرِ وَالْمَغْرِبِ، وَكَذَلِكَ أَرَادُوا فِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ خَلَا الْمَغْرِبِ، وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ فِي كُتُبِنَا مَنْ أَلْفَاظِ الْعَامِّ الَّتِي يُرَادُ بِهَا الْخَاصُّ»
اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کچھ نمازیں ہیں، سب نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد نماز مغرب کے علاوہ چار نمازیں ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ”پھر حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا“ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد نماز فجر اور مغرب کے علاوہ دیگر تین نمازیں ہیں۔ اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فرمان کہ اللہ تعالی نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حضور میں چار رکعت نماز فرض کی ہے تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مغرب اور فجر کے علاوہ دیگر نمازیں ہیں۔ اس طرح سفر میں دو رکعت ہیں، سے ان کی مراد مغرب کے علاوہ نمازیں ہیں۔ یہ اسی جنس سے ہے جسے ہم اپنی کتابوں میں کہتے ہیں کہ یہ الفاظ عام ہیں ان کی مراد خاص ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ (ابتدائے اسلام میں) سفر اور حضر کی نماز دو دو رکعتیں فرض ہوئی تھیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منوّرہ میں مقیم ہو گئے تو حضر کی نماز میں دو دو رکعت زیادہ کر دی گئیں اور نماز فجر کی لمبی قراءت کی وجہ سے (پہلی حالت پر) اور نماز مغرب کو دن کے وتر ہونے کی وجہ سے (پہلی حالت ہی) پر چھوڑ دیا گیا۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔ میرے علم کے مطابق اسے محبوب بن حسن کے سوا کسی راوی نے مسند بیان نہیں کیا۔ اس روایت کو داؤد کے شاگردوں نے بیان کرتے ہوئے «عن الشعبي عن عائشه» کہا ہے (یعنی اٗنہوں نے شعبی کے استاد مسروق کو ذکر نہیں کیا) جبکہ محبوب بن حسن نے (مسروق کا نام لیکر) سند کو متصل بیان کیا ہے۔