إذ النبي صلى الله عليه وسلم المولى ببيان ما انزل الله عليه من الوحي إليه، قد اعلم ان الضبع صيد، والله- عز وجل- في محكم تنزيله قد نهى المحرم عن قتل الصيد فقال: لا تقتلوا الصيد وانتم حرم (المائدة: 95) إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُوَلَّى بِبَيَانِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ مِنَ الْوَحْيِ إِلَيْهِ، قَدْ أَعْلَمَ أَنَّ الضَّبُعَ صَيْدٌ، وَاللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ- فِي مُحْكَمِ تَنْزِيلِهِ قَدْ نَهَى الْمُحْرِمَ عَنْ قَتْلِ الصَّيْدِ فَقَالَ: لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ (الْمَائِدَةِ: 95)
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر نازل ہونے والی وحی کے بیان کے ذمے دار ہیں، انہوں نے بتادیا ہے کہ بجو شکار ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں محرم کو شکار کرنے سے منع کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے: «لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ» ”جب تم حالت احرام میں ہوتو تم شکار مت مارو۔“[ سورة المائدة: 95 ]
جناب عبد الرحمن بن عبد الله بن ابی عمار بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کو ملا تو میں نے اُن سے پوچھا، کیا ہم بجّو کھا سکتے ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ہاں میں نے پوچھا تو کیا وہ شکار کا جانور ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ میں نے پھر عرض کیا تو کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں۔