(مرفوع) حدثنا يحيى بن معين، حدثنا وكيع، عن زكريا بن ابي زائدة، عن مصعب بن شيبة، عن طلق بن حبيب، عن ابن الزبير، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك، والاستنشاق بالماء، وقص الاظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء يعني الاستنجاء بالماء"، قال زكريا: قال مصعب: ونسيت العاشرة، إلا ان تكون المضمضة. (مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ ابْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَالِاسْتِنْشَاقُ بِالْمَاءِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ يَعْنِي الِاسْتِنْجَاءَ بِالْمَاءِ"، قَالَ زَكَرِيَّا: قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس چیزیں دین فطرت ہیں ۱؎: ۱- مونچھیں کاٹنا، ۲- داڑھی بڑھانا، ۳- مسواک کرنا، ۴- ناک میں پانی ڈالنا، ۵- ناخن کاٹنا، ۶- انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، ۷- بغل کے بال اکھیڑنا، ۸- ناف کے نیچے کے بال مونڈنا ۲؎، ۹ - پانی سے استنجاء کرنا“۔ زکریا کہتے ہیں: مصعب نے کہا: میں دسویں چیز بھول گیا، شاید کلی کرنا ہو۔
وضاحت: ۱؎: اکثر علماء نے فطرت کی تفسیر سنت سے کی ہے، گویا یہ خصلتیں انبیاء کی سنت ہیں جن کی اقتداء اور پیروی کا حکم اللہ تعالی نے ہمیں اپنے قول: «فبهداهم اقتده» میں دیا ہے۔ ۲؎: مسلم کی ایک روایت کے مطابق چالیس دن سے زیادہ کی تاخیر اس میں درست نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطھارة 16 (261)، سنن الترمذی/الأدب 14 (2757)، سنن النسائی/الزینة 1 (5043)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 8 (293)، (تحفة الأشراف: 16188)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/137) (صحیح)»
Narrated Aishah, Ummul Muminin: The Messenger of Allah ﷺ said: Ten are the acts according to fitrah (nature): clipping the moustache, letting the beard grow, using the tooth-stick, cutting the nails, washing the finger joints, plucking the hair under the arm-pits, shaving the pubes, and cleansing one's private parts (after easing or urinating) with water. The narrator said: I have forgotten the tenth, but it may have been rinsing the mouth.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 52
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 53
فوائد و مسائل: مذکورہ بالا امور انسان کے پیدائشی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے انہیں ”سنن فطرت“ کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ سنتیں جو جسم انسانی کے خط و خال سے تعلق رکھتی ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آیت کریمہ «وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ»[2-البقرة:124]”میں (اللہ تعالیٰ) نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دس باتوں کاحکم دیا۔“ جب وہ ان پر عمل پیرا ہوئے تو فرمایا: «إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ»[2-البقرة:124]”میں تجھے لوگوں کا امام و مقتدا بناؤں گا۔“ تاکہ تیری اقتداء کی جائے اور لوگ تیرے نقش قدم پر چلیں۔ چنانچہ یہ امت محمدیہ خصوصی اعتبار سے ان کی پیروی کی پابند ہے، جس کا آیت «ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا»[16-النحل:123] میں ذکر ہے۔” پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ دین ابراہیم کی پیروی کریں جو کہ دیگر تمام دینوں سے منہ پھیرے ہوئے تھے۔“
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 53
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث293
´امور فطرت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس چیزیں فطرت میں سے ہیں: مونچھوں کے بال تراشنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، بغل کے بال اکھیڑنا، موئے زیر ناف صاف کرنا، اور پانی سے استنجاء کرنا۔“ زکریا نے کہا کہ مصعب کہتے ہیں: میں دسویں چیز بھول گیا، ہو سکتا ہے وہ کلی کرنا ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 293]
اردو حاشہ: (1) داڑھی بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے کاٹا نہ جائے جس طرح مونچھوں کے بال کاٹ لیے جاتے ہیں۔ داڑھی منڈوانا حرام ہے اور منڈوانے والا فاسق ہےکیونکہ وہ ان احادیث کی مخالفت کرتا ہے جن میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (خَالِفُوا الْمُشْرِكِيْنَ وَوَفِّرُوْا اللِّحٰي وَاحْفُوا الشَّوَارِبَ)(صحيح البخاري، اللباس، باب تقليم الاظفار، حديث: 5892، وصحيح مسلم، الطهارة، باب خصال الفطرة، حديث: 259) ”مشرکوں کی مخالفت کرو ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کترواؤ۔“ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَارْخُوا اللِّحٰي وَخَالِفُوا الْمَجُوسَ) صحيح مسلم، الطهاره، باب خصال الفطرة، حديث: 260) ”مونچھوں کو کترواؤ ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔“ داڑھی منڈوانے پر اصرار کرنا کبیرہ گناہ ہے جو شخص مندوائے اسے نصیحت کرنا اور ڈاڑھی منڈوانے سے منع کرنا واجب ہے اگر ایسا کوئی شخص قیادت یا کسی دینی مرکز میں ہوتو اسے اور بھی زیادہ تاکید کے ساتھ سمجھانا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں احادیث میں مونچھوں کی کانٹ تراش کے لیے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں ایک ہے ”احفاء“ جس کے معنی خوب اچھی طرح مونڈنا ہیں اور دوسرا ہے ”قص“ جس کے معنی قینچی وغیرہ سے کاٹنے کے ہیں لہٰذا اس مسئلہ میں شرعاً دونوں طرح اختیار ہے، لہذا ہماری رائے میں یہ کہنا جائز نہیں کہ مونچھوں کو خوب اچھی مونڈنا مثلہ یا بدعت ہےکیونکہ ایسا کہنا مذکورہ نص کے خلاف ہےاور رسول اللہ ﷺکی سنت صحیحہ کی موجودگی میں کسی کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
(2) انگلیوں کے جوڑوں میں میل کچیل جمع ہوجاتا ہے اس لیے وضو اور غسل کے موقع پر ان مقامات کو زیادہ توجہ سے صاف کرنا چاہیے اسی طرح جسم کے وہ حصے جہاں میل کچیل جمع ہوجانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے غسل کے دوران میں ان کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے ویسے بھی اگر ان مقامات کی طرف توجہ نہ دی جائے تو بعض اوقات وہاں پانی نہیں پہنچ پاتا اور غسل نہیں ہوتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 293
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2757
´ناخن کاٹنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس ۱؎ چیزیں فطرت سے ہیں (۱) مونچھیں کترنا (۲) ڈاڑھی بڑھانا (۳) مسواک کرنا (۴) ناک میں پانی ڈالنا (۵) ناخن کاٹنا (۶) انگلیوں کے جوڑوں کی پشت دھونا (۶) بغل کے بال اکھیڑنا (۸) ناف سے نیچے کے بال مونڈنا (۹) پانی سے استنجاء کرنا، زکریا (راوی) کہتے ہیں کہ مصعب نے کہا: دسویں چیز میں بھول گیا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کلی کرنا ہو“، «انتقاص الماء» سے مراد پانی سے استنجاء کرنا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2757]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: پچھلی حدیث میں پانچ کا ذکر ہے، اوراس میں دس کا، دونوں میں کوئی تضاد نہیں، پانچ دس میں داخل ہیں، یا پہلے آپﷺ کو پانچ کے بارے میں بتایا گیا، بعد میں دس کے بارے میں بتایا گیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2757