(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد بن موسى، اخبرنا جرير، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يجزي ولد والدا إلا ان يجده مملوكا فيشتريه فيعتقه"، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح لا نعرفه إلا من حديث سهيل بن ابي صالح، وقد روى سفيان الثوري، وغير واحد عن سهيل بن ابي صالح هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَجْزِي وَلَدٌ وَالِدًا إِلَّا أَنْ يَجِدَهُ مَمْلُوكًا فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ"، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ هَذَا الْحَدِيثَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی لڑکا اپنے باپ کا احسان نہیں چکا سکتا ہے سوائے اس کے کہ اسے (یعنی باپ کو) غلام پائے اور خرید کر آزاد کر دے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ہم اسے صرف سہیل بن ابی صالح کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- سفیان ثوری اور کئی لوگوں نے بھی یہ حدیث سہیل بن ابی صالح سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/العتق 6 (1510)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 11 (3659) (تحفة الأشراف: 12595)، و مسند احمد (2/230، 263، 276، 445) (صحیح)»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1906
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ باپ کے احسان کا بدلہ اس لیے ہے کہ غلامی کی زندگی سے کسی کو آزاد کرانا اس سے زیادہ بہترکوئی چیز نہیں ہے، جس کے ذریعہ کوئی کسی دوسرے پر احسان کرے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1906
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5137
´ماں باپ کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹا اپنے والد کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا سوائے اس کے کہ وہ اسے غلام پائے پھر اسے خرید کر آزاد کر دے۔“[سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5137]
فوائد ومسائل: آذا د کرنے کے یہ معنی نہیں کے بیٹا باپ کو خریدے۔ تو اب عملاً آزاد کرنے کا اعلان کرے۔ بلکہ علمائے امت کا اجماع ہے۔ کہ باپ بیٹے کی یا بیٹا باپ کی ملکیت میں آتے ہی فوراً از خود آذاد ہو جائے گا۔ آزاد کرنے کا بیان خریدنے کی نسبت سے آیا ہے۔ اور اس عمل کو بیتے کی طرف سے باپ کے حقوق کی ادایئگی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5137
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3659
´ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بھی اولاد اپنے باپ کا حق ادا نہیں کر سکتی مگر اسی صورت میں کہ وہ اپنے باپ کو غلامی کی حالت میں پائے پھر اسے خرید کر آزاد کر دے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3659]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) والدین کی خدمت زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔
(2) غلام یا لونڈی کو آزاد کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔
(3) آزاد مرد کو اپنی لونڈی سے جو اولاد حاصل ہوتی ہے وہ آزاد ہوتی ہے جب کہ اس کی ماں لونڈی ہی رہتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ماں باپ اور اولاد سب مملوک ہوں۔ پھر آقا بیٹے کو آزاد کر دے اور اس کے ماں باپ غلام ہی رہیں۔ اس طرح کی کسی صورت میں اولاد والدین کو خرید سکتی ہے اور اولاد کی ملکیت میں آتے ہی والدین کو قانوناً آزاد قرار دے دیا جائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3659