جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعلانیہ زبردستی کسی کا مال لے کر بھاگ جانے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۱؎، اور جو اعلانیہ کسی کا مال لوٹ لے وہ ہم میں سے نہیں“۔
وضاحت: ۱؎: زبردستی کسی کا مال چھیننا اگرچہ چرانے سے زیادہ قبیح فعل ہے، لیکن اس پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، کیونکہ اس پر سرقہ (چرانے) کاا طلاق نہیں ہوتا۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے چور کا ہاتھ کاٹنا فرض کیا ہے، لیکن چھیننے جھپٹنے، اور غصب وغیرہ پر یہ حکم نہیں دیا اس لئے کہ چوری کے مقابلہ میں یہ چیزیں کم واقع ہوتی ہیں، اور ذمہ داروں سے شکایت کر کے اس طرح کی چیزوں کو لوٹایا جا سکتا ہے، اور ان کے خلاف دلائل دینا چوری کے برعکس آسان ہے، اس وجہ سے چوری کا معاملہ بڑا ہے، اور اس کی سزا سخت ہے، تاکہ اس سے باز آ جانے میں یہ زیادہ موثر ہو۔ (ملاحظہ ہو: عون المعبود ۱۲؍۳۹)
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحدود 18 (1448)، سنن النسائی/قطع السارق 10 (4975)، سنن ابن ماجہ/الحدود 26 (2591)، (تحفة الأشراف: 2800)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/380)، سنن الدارمی/الحدود 8 (2356) (صحیح)»
Narrated Jabir ibn Abdullah: The Prophet ﷺ said: Cutting of hand is not to be inflicted on one who plunders, but he who plunders conspicuously does not belong to us.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4378
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (3596) ابن جريج صرح بالسماع عند الدارمي (2/175 ح2315) وتابعه المغيرة بن مسلم، وأبو الزبير تابعه عمرو بن دينار