(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن ابن عجلان، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده عبد الله بن عمرو بن العاص، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه سئل عن الثمر المعلق، فقال:" من اصاب بفيه من ذي حاجة غير متخذ خبنة فلا شيء عليه ومن خرج بشيء منه فعليه غرامة مثليه والعقوبة ومن سرق منه شيئا بعد ان يؤيه الجرين فبلغ ثمن المجن فعليه القطع ومن سرق دون ذلك فعليه غرامة مثليه والعقوبة"، قال ابو داود: الجرين الجوخان. (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ، فَقَالَ:" مَنْ أَصَابَ بِفِيهِ مِنْ ذِي حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ وَمَنْ خَرَجَ بِشَيْءٍ مِنْهُ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ وَمَنْ سَرَقَ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدَ أَنْ يُؤْيَهُ الْجَرِينُ فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ وَمَنْ سَرَقَ دُونَ ذَلِكَ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْجَرِينُ الْجُوخَانُ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لٹکے ہوئے پھلوں کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”جس ضرورت مند نے اسے کھا لیا، اور جمع کر کے نہیں رکھا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اور جو اس میں سے کچھ لے جائے تو اس پر اس کا دوگنا تاوان اور سزا ہو گی اور جو اسے کھلیان میں جمع کئے جانے کے بعد چرائے اور وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ رہا ہو تو پھر اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 54 (1289)، سنن النسائی/قطع السارق 9 (4961)، سنن ابن ماجہ/الحدود 28 (2596)، (تحفة الأشراف: 8798)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/186) (حسن)»
Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-As: The Messenger of Allah ﷺ was asked about fruit which was bung up and said: If a needy person takes some with his mouth and does not take a supply away in his garment, there is nothing on him, but he who carries any of it is to be fined twice the value and punished, and he who steals any of it after it has been put in the place where dates are dried to have his hand cut off if their value reaches the value of a shield. If he steals a thing less in value than it, he is to be find twice the value and punished. Abu Dawud said: Jarin means the place where dates are dried.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4377
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن ان جريج تابعه عمرو بن الحارث وهشام بن سعد عند ابن الجارود (728 وسنده حسن) والنسائي (4962 مختصرًا، وسنده حسن)
من أصاب بفيه من ذي حاجة غير متخذ خبنة فلا شيء عليه من خرج بشيء منه فعليه غرامة مثليه والعقوبة من سرق منه شيئا بعد أن يؤيه الجرين فبلغ ثمن المجن فعليه القطع من سرق دون ذلك فعليه غرامة مثليه والعقوبة
ما أصاب من ذي حاجة غير متخذ خبنة فلا شيء عليه من خرج بشيء منه فعليه غرامة مثليه والعقوبة من سرق شيئا منه بعد أن يؤويه الجرين فبلغ ثمن المجن فعليه القطع من سرق دون ذلك فعليه غرامة مثليه والعقوبة
من أصاب بفيه من ذي حاجة غير متخذ خبنة فلا شيء عليه ومن خرج بشيء منه فعليه الغرامة والعقوبة ومن خرج بشيء منه بعد أن يؤويه الجرين فبلغ ثمن المجن فعليه القطع
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4390
فوائد ومسائل: 1) درختوں پر کھا لینے کی اجازت صرف اس کو ہےجو فی الواقع حاجت مند اور بھوکا ہو جیسےکہ کوئی مسافر ہو۔ علاقے کے مجرم ذہنیت کے لوگوں کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ 2) ایک چوتھائی دینار سےکم قیمت مال کی چوری میں قاضی کوئی مناسب سزا دے سکتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4390
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1061
´چوری کی حد کا بیان` سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت پر لٹکی ہوئی کھجور کے متعلق دریافت کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص بھوکا ہو وہ کھانے کے لیے توڑ لے مگر کپڑے میں نہ بھرے تو اس پر کوئی سزا نہیں اور جو شخص کپڑے میں ڈال کر نکل جائے تو اس پر تاوان بھی ہے اور سزا بھی اور جو شخص ایسی صورتحال میں کھجوریں لے جائے کہ مالک نے توڑ کے محفوظ جگہ میں ڈھیر کر لیا ہو اور ان کی قیمت ایک ڈھال کی قیمت کے مساوی ہو تو اس پر قطع ید کی سزا نافذ ہو گی۔ “ اسے ابوداؤد اور نسائی نے تخریج کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1061»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الحدود، باب ما لا قطع فيه، حديث:4390، والنسائي، قطع السارق، حديث:4961، والحاكم.»
تشریح: 1. اس حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کی مختلف صورتیں ممکن ہیں‘ مثلاً: پھل درخت کے اوپر ہی ہیں، ابھی تک توڑنے کی نوبت نہیں آئی‘ ایک بھوکا مسافر پھل توڑ کر کھا کر اپنی بھوک مٹا لیتا ہے تو اس پر بالاتفاق کوئی جرمانہ اور تاوان عائد ہوگا نہ اسے چوری کی سزا کا مستوجب قرار دیا جائے گا، لیکن اگر پھلوں کو پہلے درختوں سے اتارے‘ پھر شکم سیر بھی ہو جائے، مزید برآں گٹھڑی باندھ کر ساتھ لے جانے کی بھی تیاری کرے تو ایسی صورت میں اس پر جرمانہ اور تاوان بھی عائد ہوگا اور سزا بھی دی جائے گی۔ اور اگر مالک نے پھل درختوں سے اتار کر ڈھیر کر لیے ہوں اور اس ڈھیر کی نوعیت محفوظ سامان کی ہو، پھر اس میں سے چوری کی صورت میں قطع ید کی سزا ہوگی بشرطیکہ مسروقہ پھل یا اناج کی قیمت قطع ید کے نصاب کے مساوی ہو۔ 2.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مالی جرمانہ بھی جائز ہے۔ 3. جمہور اہل علم نے سزائے قطع ید میں مال کے محفوظ ہونے کی جو شرط لگائی ہے ان کا استدلال بھی اسی حدیث سے ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1061
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4961
´کھلیان سے پھل کی چوری کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت پر لٹکے ہوئے پھلوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”جس ضرورت مند نے اسے کھا لیا اور جمع کر کے نہیں رکھا تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو اس میں سے کچھ لے جائے تو اس پر اس کا دوگنا تاوان اور سزا ہے، اور جو اسے کھلیان میں جمع کیے جانے کے بعد چرائے اور وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ رہا ہو تو پھر اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔“[سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4961]
اردو حاشہ: (1)”حاجت مند“ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ ہو۔ اتنی رقم بھی نہ ہو کہ کچھ خرید سکے۔ بھوک بھی شدید ہو۔ اس کے لیے پھل توڑ کر کھانا جائز ہے کیونکہ جان بچانا ضروری ہے۔ البتہ اگر مالک پاس ہو تو اس سے اجازت حاصل کرے۔ وہ اجازت نہ دے تو ایسا لاچار شخص بلا اجازت بھی پھل توڑ کر کھا سکتا ہے۔ لیکن وہ صرف بھوک دور کرنے پر اکتفا کرے۔ ساتھ نہ لے کر جائے، نہ کپڑے میں ڈال کر نہ ہاتھ میں پکڑ کر۔ خبنہ میں یہ دونوں صورتیں داخل ہیں۔ (2)”دگنی قیمت“ اصل قیمت تو خریدنے والے کو بھی دینا پڑتی ہے۔ اگر اس کو بھی اصل قیمت ہی ڈالیں تو پھر دونوں میں فرق کیا ہوا؟ (3)”سزا بھی“ یعنی جسمانی سزا اور جرمانہ دونوں عائد کیے جائیں گے، اس لیے کہ بعض لوگ جسمانی سزا سے بہت بچتے ہیں، جرمانے کی پروا نہیں کرتے اور بعض لوگ کنجوس۔ ”دمڑی نہ جائے‘ چاہے چمڑی جائے“ کا مصداق ہوتے ہیں، اس لیے دونوں قسم کی سزا جاری فرمائی گئی تاکہ ہر قسم کے لوگ عبرت حاصل کریں۔ کھلیان سے پھل اٹھانا ضرورت کے لیے بھی جائز نہیں کیونکہ وہ حقیقتاً چوری ہے۔ اگر وہ مقرر حد تک پہنچ گیا تو ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ کم ہو گا تو دگنی قیمت اور سزا دونوں بھگتنی پڑیں گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4961