عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب جہینہ کی سر زمین میں ہمیں پڑھ کر سنایا گیا اس وقت میں نوجوان تھا، اس میں تھا: ”مرے ہوئے جانور سے نفع نہ اٹھاؤ، نہ اس کی کھال سے، اور نہ پٹھوں سے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/اللباس 7 (1729)، سنن النسائی/الفرع والعتیرة 4 (4254)، سنن ابن ماجہ/اللباس 26 (3613)، (تحفة الأشراف: 6642)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/310، 311) (صحیح)»
Narrated Abdullah ibn Ukaym: The letter of the Messenger of Allah ﷺ was read out to us in the territory of Juhaynah when I was a young boy: Do not make use of the skin or sinew of an animal which died a natural death.
USC-MSA web (English) Reference: Book 33 , Number 4115
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (508) أخرجه ابن ماجه (3613 وسنده حسن) والنسائي (4254 وسنده حسن) من حديث شعبة عن الحكم به والحكم صرح بالسماع عند أحمد (4/311 وسنده حسن)
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4254
´مردار کی کھال کو دباغت دینے والی چیزوں کا بیان۔` عبداللہ بن عکیم جہنی کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب گرامی پڑھ کر سنایا گیا (اس وقت میں ایک نوخیز لڑکا تھا) کہ تم لوگ مردے کی بغیر دباغت کی ہوئی کھال یا پٹھے سے فائدہ مت اٹھاؤ“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الفرع والعتيرة/حدیث: 4254]
اردو حاشہ: (1) حضرت عبد اﷲ عکیم صحابی نہیں لیکن آپ کے دور میں موجود تھے اور مسلمان تھے مگر آپ کی زیارت نصیب نہ ہوسکی۔ ایسے شخص کو محد ثین کی اصطلاح میں کہتے ہیں۔ مخضرم کے معنیٰ ہیں: ”صحابہ سے الگ کیا گیا باوجود اس زمانے میں ہونے کے۔“ (2) یہ روایت سابقہ روایات کے خلاف ہے مگر وہ اس سے صحیح تر ہیں، نیز تطبیق بھی ممکن ہے کہ دباغت کے بغیر چمڑے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔ دباغت کے بعد فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ یہ اشارہ احادیث میں موجود ہے، لہٰذا جن حضرات نے اس حدیث متاخر ہے کیونکہ یہ آپ کی وفات سے صرف ایک ماہ قبل کی ہے۔“ مگر نسخ تو آخری حربہ ہے۔ اگر تطبیق ممکن ہے تو نسخ کی کیا ضرورت ہے؟ جمہور تطبیق ہی کے قائل ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4254
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4255
´مردار کی کھال کو دباغت دینے والی چیزوں کا بیان۔` عبداللہ بن عُکیم جہنی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں لکھ بھیجا: ”تم لوگ مردار کی غیر مدبوغ کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔“[سنن نسائي/كتاب الفرع والعتيرة/حدیث: 4255]
اردو حاشہ: ”لکھ کر“ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے خود یہ تحریر لکھی لیکن صحیح نہیں۔ آپ لکھنا یا لکھا ہوا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ یہ بات قطعی دلائل سے ثابت ہے، لہٰذا اس حدیث مجاز ہے، یعنی تحریر لکھوائی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4255
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4256
´مردار کی کھال کو دباغت دینے والی چیزوں کا بیان۔` عبداللہ بن عُکیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ جہینہ کے لوگوں کو لکھا: ”مردار کی غیر مدبوغ کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔“ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں: اس باب میں ”مردار کی کھال جبکہ اسے دباغت دی گئی ہو“ سب سے صحیح حدیث زہری کی حدیث ہے جسے عبیداللہ بن عبداللہ، ابن عباس سے اور وہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں (نمبر ۴۲۳۹)، واللہ اعلم۔ [سنن نسائي/كتاب الفرع والعتيرة/حدیث: 4256]
اردو حاشہ: گویا امام صاحب اس روایت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ دونوں روایات میں تطبیق پیچھے گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4256
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3613
´مردار کی کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھانے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔` عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب آیا کہ مردار کی کھال اور پٹھوں سے فائدہ نہ اٹھاؤ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3613]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل: مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں اس سے مراد چمڑا ہے جس کو دباغت کے ذریعے سے پاک نہ کر لیا گیا ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3613
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1729
´دباغت کے بعد مردار جانوروں کی کھال کے استعمال کا بیان۔` عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط آیا کہ تم لوگ مردہ جانوروں کے چمڑے ۱؎ اور پٹھوں سے فائدے نہ حاصل کرو۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1729]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: دباغت سے پہلے کی حالت پرمحمول ہے، گویا حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دباغت سے قبل مردہ جانوروں کے چمڑے سے فائدہ اٹھانا صحیح نہیں ہے۔