عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب آیا کہ مردار کی کھال اور پٹھوں سے فائدہ نہ اٹھاؤ ۱؎۔
وضاحت: ۱ ؎: حدیث میں «إِهَاب» کا لفظ آیا ہے، اور نضر بن شمیل کہتے ہیں کہ «إِهَاب» اسی کھال کو کہا جاتا جس کی دباغت نہ ہوئی ہو، اور جس کی دباغت ہو جائے اسے «إِهَاب» نہیں کہتے، بلکہ اسے «شن» یا «قربہ» کہا جاتا ہے، لہذا اس حدیث میں «إِهَاب» یعنی بغیر دباغت والے چمڑے کا ذکر ہے، اس «إِهَاب» یعنی کچے چمڑے سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں،لیکن دوسری صحیح حدیثوں میں مشروط طریقے سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، وہ یہ کہ حلال مردہ جانوروں کے چمڑے کو پہلے دباغت دے دیں، پھر اس سے فائدہ اٹھائیں لفظ «إِهَاب» کی وضاحت کے بعد حدیث میں کسی طرح کا نہ کوئی تعارض ہے اور نہ ہی اشکال۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4254
´مردار کی کھال کو دباغت دینے والی چیزوں کا بیان۔` عبداللہ بن عکیم جہنی کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب گرامی پڑھ کر سنایا گیا (اس وقت میں ایک نوخیز لڑکا تھا) کہ تم لوگ مردے کی بغیر دباغت کی ہوئی کھال یا پٹھے سے فائدہ مت اٹھاؤ“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الفرع والعتيرة/حدیث: 4254]
اردو حاشہ: (1) حضرت عبد اﷲ عکیم صحابی نہیں لیکن آپ کے دور میں موجود تھے اور مسلمان تھے مگر آپ کی زیارت نصیب نہ ہوسکی۔ ایسے شخص کو محد ثین کی اصطلاح میں کہتے ہیں۔ مخضرم کے معنیٰ ہیں: ”صحابہ سے الگ کیا گیا باوجود اس زمانے میں ہونے کے۔“ (2) یہ روایت سابقہ روایات کے خلاف ہے مگر وہ اس سے صحیح تر ہیں، نیز تطبیق بھی ممکن ہے کہ دباغت کے بغیر چمڑے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔ دباغت کے بعد فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ یہ اشارہ احادیث میں موجود ہے، لہٰذا جن حضرات نے اس حدیث متاخر ہے کیونکہ یہ آپ کی وفات سے صرف ایک ماہ قبل کی ہے۔“ مگر نسخ تو آخری حربہ ہے۔ اگر تطبیق ممکن ہے تو نسخ کی کیا ضرورت ہے؟ جمہور تطبیق ہی کے قائل ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4254
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4255
´مردار کی کھال کو دباغت دینے والی چیزوں کا بیان۔` عبداللہ بن عُکیم جہنی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں لکھ بھیجا: ”تم لوگ مردار کی غیر مدبوغ کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔“[سنن نسائي/كتاب الفرع والعتيرة/حدیث: 4255]
اردو حاشہ: ”لکھ کر“ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے خود یہ تحریر لکھی لیکن صحیح نہیں۔ آپ لکھنا یا لکھا ہوا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ یہ بات قطعی دلائل سے ثابت ہے، لہٰذا اس حدیث مجاز ہے، یعنی تحریر لکھوائی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4255
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4256
´مردار کی کھال کو دباغت دینے والی چیزوں کا بیان۔` عبداللہ بن عُکیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ جہینہ کے لوگوں کو لکھا: ”مردار کی غیر مدبوغ کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔“ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں: اس باب میں ”مردار کی کھال جبکہ اسے دباغت دی گئی ہو“ سب سے صحیح حدیث زہری کی حدیث ہے جسے عبیداللہ بن عبداللہ، ابن عباس سے اور وہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں (نمبر ۴۲۳۹)، واللہ اعلم۔ [سنن نسائي/كتاب الفرع والعتيرة/حدیث: 4256]
اردو حاشہ: گویا امام صاحب اس روایت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ دونوں روایات میں تطبیق پیچھے گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4256
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4127
´مردار کی کھال کا استعمال ممنوع ہے اس کے قائلین کی دلیل۔` عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب جہینہ کی سر زمین میں ہمیں پڑھ کر سنایا گیا اس وقت میں نوجوان تھا، اس میں تھا: ”مرے ہوئے جانور سے نفع نہ اٹھاؤ، نہ اس کی کھال سے، اور نہ پٹھوں سے۔“[سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4127]
فوائد ومسائل: ظاہر ہے کہ رنگے بغیر مردار کا چمرہ استعمال کرنا جائز نہیں۔ علاوہ ازیں اجزا کا حکم مردارہی کا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4127
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1729
´دباغت کے بعد مردار جانوروں کی کھال کے استعمال کا بیان۔` عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط آیا کہ تم لوگ مردہ جانوروں کے چمڑے ۱؎ اور پٹھوں سے فائدے نہ حاصل کرو۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1729]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: دباغت سے پہلے کی حالت پرمحمول ہے، گویا حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دباغت سے قبل مردہ جانوروں کے چمڑے سے فائدہ اٹھانا صحیح نہیں ہے۔