ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنے جوتے سے نجاست روندے تو (اس کے بعد کی) مٹی اس کو پاک کر دے گی ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: جوتوں میں گندگی لگ جانے کی صورت میں اس کو زمین پر رگڑ دینے سے وہ پاک ہو جاتے ہیں، ان کو پہن کر نماز ادا کرنا صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 14329) (صحیح)»
Abu Hurairah reported: The Messenger of Allah ﷺ said: When any one of you treads with his sandal upon an unclean place, the earth will render it purified.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 385
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف السند منقطع وللحديث شواھد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 27
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود385
«والنجاسات هي غائط الإنسان وبوله» ”اور نجاستیں یہ ہیں: مطلق طور پر انسان کا پیشاب اور پاخانہ۔“
➊ اس پر امت کا اجماع ہے۔ [بداية المجتهد 73/1]۳؎
➋ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا وَطِئَ أَحَدُكُمْ بِنَعْلِهِ الْأَذَى، فَإِنَّ التُّرَابَ لَهُ طَهُورٌ» ”جب تم میں سے کوئی (چلتے ہوئے) اپنی جوتی کو گندگی لگا دے تو مٹی سے پاک کر دیتی ہے۔“[أبو داود 385]
ایک روایت میں یہ الفاظ مرفوعا مروی ہیں: «إِذَا وَطِئَ الْأَذَى بِخُفَّيْهِ، فَطَهُورُهُمَا التُّرَابُ» ” جب کوئی اپنے موزوں کو گندگی لگا دے تو انہیں پاک کرنے والی مٹی ہے۔ [أبو داود 386]۴؎
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پیشاب کرنے والے دیہاتی کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دینے کا حکم دیا۔ [بخاري 221]۵؎
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انسان کا پیشاب نجس ہے اور یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ [نيل الأوطار 88/1]
------------------ ۳؎[بداية المجتهد 73/1، المغني 52/1، فتح القدير 135/1، كشاف القناع 213/1، مغني المحتاج 77/1، اللباب 55/1، الشرح الصغير 49/1] ۴؎[صحيح: صحيح أبو داود 372، 371 كتاب الطهارة: باب فى الأذي يصيب النعل، بيهقي 430/2، ابن حبان ص85ء الموارد، حاكم 166/1، ابن خزيمة 148/1، شرح معاني الآثار 511/1، أبو داود 385، 382] ۵؎[بخاري 221، كتاب الوضوء: باب صب الماء على البول فى المسجد، مسلم 284، ترمذي 148، نسائي 175/1، ابن ماجة 528، شرح معاني الآثار13/1، ابوعوانة 213/1، عبدالرزاق 1660، بيهقي 327/2، أحمد 110/3، دارمي 189/1]
* * * * * * * * * * * * * *