تشریح: علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ یہ معاملہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا جب کہ مسجد کے کواڑ وغیرہ بھی نہ تھے، اس کے بعد جب مساجد کے بارے میں احترام و اہتمام کا حکم نازل ہوا تو اس طرح کی سب باتوں سے منع کر دیا گیا، جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا کہ لوگو! مسجد میں بےہودہ بات کرنے سے پرہیز کیا کرو، سو جب لغو باتوں سے روک دیا گیا، تو دوسرے امور کا حال بھی بدرجہ اولیٰ معلوم ہو گیا۔ اسی لیے اس سے پہلے حدیث میں کتے کے جھوٹے برتن کو سات مرتبہ دھونے کا حکم آیا۔ اب وہی حکم باقی ہے۔ جس کی تائید اور بہت سی احادیث سے ہوتی ہے۔ بلکہ بعض روایات میں کتے کے جھوٹے برتن کے بارے میں اتنی تاکید آئی ہے کہ اسے پانی کے علاوہ آٹھویں بار مٹی سے صاف کرنے کا بھی حکم ہے۔ مٹی سے اول مرتبہ دھونا چاہئیے پھر سات دفعہ پانی سے دھونا چاہئیے۔
اس مسئلہ میں احناف اور اہل حدیث کا اختلاف: کتے کے جھوٹے برتن کو سات بار پانی سے دھونا اور ایک بار صرف مٹی سے مانجھنا واجب ہے۔ یہ اہل حدیث کا مذہب ہے اور صرف تین بار پانی سے دھونا یہ حنفیہ کا مذہب ہے۔
سرتاج علمائے اہل حدیث حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں:
«قال الشوكاني فى النيل يدل على وجوب الغسلات السبع فى ولوغ الكلب واليه ذهب ابن عباس و عروة بن الزبير و محمد بن سيرين و طاووس و عمروبن دينار والاوزاعي ومالك و الشافعي واحمد بن حنبل واسحاق و ابوثور و ابوعبيدة و داود انتهي . وقال النووي وجوب غسل نجاسة ولوغ الكلب سبع مرات وهذا مذهبنا و مذهب مالك و الجماهير . وقال ابوحنيفة يكفي غسله ثلاث مرات انتهي . وقال الحافظ فى الفتح واما الحنفية فلم يقولوا بوجوب السبع ولا التترتيب .» [تحفة الاحوذي، ج1، ص: 93] خلاصہ اس عبارت کا یہی ہے کہ ان احادیث کی بنا پر جمہور علمائے اسلام، صحابہ کرام و تابعین وائمہ ثلاثہ و دیگر محدثین کا مذہب یہی ہے کہ سات مرتبہ دھویا جائے۔ برخلاف اس کے حنفیہ صرف تین ہی دفعہ دھونے کے قائل ہیں۔
اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جسے طبرانی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہارے کسی برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے تین بار یا پانچ بار یا سات بار دھو ڈالو۔
جواب اس کا یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس لیے کہ شیخ ابن ہمام حنفی نے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ حسب وضاحت امام دارقطنی اس کی سند میں ایک راوی عبدالوہاب نامی متروک ہے، جس نے اسماعیل نامی اپنے استاد سے اس حدیث کو اس طرح بیان کیا۔ حالانکہ ان ہی اسماعیل سے دوسرے راوی اسی حدیث کو روایت کرتے ہیں۔ جنہوں نے سات بار دھونا نقل کیا ہے۔ دوسرا جواب یہ کہ یہ حدیث دارقطنی میں ہے جو طبقہ ثالثہ کی کتاب ہے اور سنن ابن ماجہ میں یہ روایت ہے۔
«اخرج ابن ماجة عن ابي رزين قال رايت اباهريرة يضرب جبهته بيده ويقول يا اهل العراق انتم تزعمون اني اكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم ليكون لكم الهنا وعلي الاثم اشهد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم يقول اذا ولغ الكلب فى اناءاحدكم فليغسله سبع مرات .» [تحفة الاحوذي، ج1، ص: 94] یعنی ابورزین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ اظہار افسوس کرتے ہوئے اپنی پیشانی پر ہاتھ مار رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ اے عراقیو! تم ایسا خیال رکھتے ہو کہ میں تمہاری آسانی کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں اور گنہگار بنوں۔ یاد رکھو میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کتا تمہارے برتن میں منہ ڈالے تو اسے سات مرتبہ دھو ڈالو۔ معلوم ہوا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے تین بار دھونے کی روایت ناقابل اعتبار ہے۔ علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے دلائل خلافیہ پر منصفانہ روشنی ڈالی ہے۔
[ديكهو سعايه، ص: 451] بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کتا اور کتے کا جھوٹا پاک ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ بعض علماء مالکیہ وغیرہ کہتے ہیں کہ ان حادیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض کتے کی اور اس کے جھوٹے کی پاکی ثابت کرنا ہے اور بعض علماء کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ غرض نہیں ہے۔ بلکہ آپ نے صرف لوگوں کے مذہب بیان کئے ہیں۔ وہ خود اس کے قائل نہیں ہیں، اس لیے کہ ترجمہ میں آپ نے صرف کتے کے جھوٹے کا نام لیا۔ یوں نہیں کہا کہ کتے کا جھوٹا پاک ہے۔
حدیث بخاری کے ذیل میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں:
«وفي الحديث دليل على نجاسة فم الكلب من حيث الامر بالغسل لما ولغ فيه والا راقة للماء .» [مرعاة، ج 1، ص: 324] یعنی اس حدیث مذکورہ سے بخاری میں دلیل ہے کہ کتے کا منہ ناپاک ہے اسی لیے جس برتن میں وہ منہ ڈال دے اسے دھونے اور اس پانی کے بہا دینے کا حکم ہوا۔ اگر اس کا منہ پاک ہوتا تو پانی کو اس طور پر ضائع کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔ منہ کے ناپاک ہونے کا مطلب اس کے تمام جسم کا ناپاک ہونا ہے۔
عبداللہ بن معقل کی حدیث جسے مسلم و دیگر محدثین نے نقل کیا ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ سات بار پانی سے دھونا چاہئیے اور آٹھویں بار مٹی سے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت شیخ الحدیث مبارک پوری مدظلہ العالی فرماتے ہیں:
«وظاهره يدل على ايجاب ثمان غسلات وان غسله التتريب غيرالغسلات السبع وان التتريب خارج عنها والحديث قداجمعوا على صحة اسناده وهى زيادة ثقة فتعين المصير اليها .» [مرعاة، ج1، ص: 324] یعنی اس سے آٹھ دفعہ دھونے کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور یہ کہ مٹی سے دھونے کا معاملہ سات دفعہ پانی سے دھونے کے علاوہ ہے۔ یہ حدیث بالاتفاق صحیح ہے اور پہلی مرتبہ مٹی سے دھونا بھی صحیح ہے۔ جو پہلے ہی ہونا چاہئیے بعد میں سات دفعہ پانی سے دھویا جائے۔
باقی احناف کے دیگر دلائل کے مفصل جوابات شیخ العلام حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز کتاب ابکار المنن،
[ص: 29-32] میں مفصل ذکر فرمائے ہیں، ان کا بیان یہاں کرنا طوالت کا باعث ہو گا۔
مناسب ہو گا کہ کتے کے لعاب کے بارے میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک سے متعلق حضرت العلام مولانا انور شاہ صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی نقل کر دیا جائے جو صاحب انوار الباری کی روایت سے یہ ہے۔
”امام بخاری سے یہ بات مستبعد ہے کہ وہ لعاب کلب کی طہارت کے قائل ہوں۔ جب کہ اس باب میں قطعیات سے نجاست کا ثبوت ہو چکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام بخاری نے دونوں طرف کی احادیث ذکر کر دی ہیں۔ ناظرین خود یہ فیصلہ کر لیں۔ کیونکہ یہ بھی ان کی ایک عادت ہے۔ جب وہ کسی باب میں دونوں جانب قوت دیکھتے ہیں تو دونوں طرف کی احادیث ذکر کر دیا کرتے ہیں۔ جس سے یہ اشارہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی کسی ایک جانب کا یقین نہیں فرماتے واللہ اعلم۔
[انوارالباري، ج5، ص: 107] کلب معلم کی حدیث ذیل لانے سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت امام عمومی طور پر لعاب کلب کی طہارت کے قائل نہیں ہیں۔
کلب معلم وہ کتا جس میں اطاعت شعاری کا مادہ بدرجہ اتم ہو اور جب بھی وہ شکار کرے کبھی اس میں سے خود کچھ نہ کھائے۔
[كرماني]