الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3662
فوائد ومسائل: فائدہ: یعنی ایسے مسائل جن کا (قرآن وحدیث سے) صدق ثابت ہو تو اسے بالجزم بیان کیا جائے۔ یا کوئی تاریخی نوعیت کی بات ہو کہ اس میں صدق وکذب کا احتمال ہو تو اسے بیان کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اعتماد سے تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ اور جن امور کا کذب قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔ ان کی تکذیب کی جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3662
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1199
1199- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”تم لوگ بنی اسرائیل کے حوالے سے روایات نقل کردو! اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور تم لوگ میرے حوالے سے بھی باتیں بیان کرو، تاہم میری طرف جھوٹی بات منسوب نہ کرنا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1199]
فائدہ: اس حدیث میں بنو اسرائیل کے واقعات کو بیان کرنے کے جواز کا ذکر ہے، یاد رہے بنو اسرائیل کی روایات تین طرح کی ہیں: ① ایسی روایات جو قرآن وحدیث کے موافق ہوں۔ ② ایسی روایات جن کے بارے میں ہماری شریعت خاموش ہے۔ ان دونوں قسموں کی روایات کو بیان کرنا درست ہے، کوئی حرج نہیں ہے۔ ③ تیسری قسم کی وہ روایات ہیں جو قرآن و حدیث کے مخالف ہیں، یا قرآن و حدیث نے ان کی نفی کر دی ہے یا ان کو منسوخ کر دیا ہے، ان کو بیان کرنا درست نہیں ہے۔ نیز اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا حرام قرار دیا گیا ہے، اس حدیث سے ان علماء کی زبردست مذمت ثابت ہوتی ہے جو لوگوں میں جھوٹی اور من گھڑت روایات بیان کرتے ہیں، دین قرآن مجید اور صحیح احادیث کا نام ہے، جھوٹی اور ضعیف روایات کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1197