(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، ومحمد بن عيسى، قالا: حدثنا حماد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي المهلب، عن عمران بن حصين، قال: كانت العضباء لرجل من بني عقيل، وكانت من سوابق الحاج، قال: فاسر، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم وهو في وثاق، والنبي صلى الله عليه وسلم على حمار عليه قطيفة، فقال: يا محمد، علام تاخذني وتاخذ سابقة الحاج؟، قال: ناخذك بجريرة حلفائك ثقيف، قال: وكان ثقيف قد اسروا رجلين من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: وقد قال فيما قال: وانا مسلم، او قال: وقد اسلمت، فلما مضى النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابو داود: فهمت هذا من محمد بن عيسى، ناداه: يا محمد، يا محمد، قال: وكان النبي صلى الله عليه وسلم رحيما، رفيقا، فرجع إليه، فقال: ما شانك؟ قال: إني مسلم، قال: لو قلتها وانت تملك امرك، افلحت كل الفلاح، قال ابو داود: ثم رجعت إلى حديث سليمان، قال: يا محمد، إني جائع فاطعمني، إني ظمآن فاسقني، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هذه حاجتك، او قال: هذه حاجته، قال: ففودي الرجل بعد بالرجلين، قال: وحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم العضباء لرحله، قال: فاغار المشركون على سرح المدينة، فذهبوا بالعضباء، قال: فلما ذهبوا بها، واسروا امراة من المسلمين، قال: فكانوا إذا كان الليل يريحون إبلهم في افنيتهم، قال: فنوموا ليلة، وقامت المراة، فجعلت لا تضع يدها على بعير إلا رغا، حتى اتت على العضباء، قال: فاتت على ناقة ذلول مجرسة، قال: فركبتها، ثم جعلت لله عليها إن نجاها الله لتنحرنها، قال: فلما قدمت المدينة عرفت الناقة ناقة النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك، فارسل إليها، فجيء بها، واخبر بنذرها، فقال: بئس ما جزيتيها او جزتها، إن الله انجاها عليها لتنحرنها، لا وفاء لنذر في معصية الله، ولا فيما لا يملك ابن آدم"، قال ابو داود: والمراة هذه امراة ابي ذر. (مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كَانَتِ الْعَضْبَاءُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ، وَكَانَتْ مِنْ سَوَابِقِ الْحَاجِّ، قَالَ: فَأُسِرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي وَثَاقٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، عَلَامَ تَأْخُذُنِي وَتَأْخُذُ سَابِقَةَ الْحَاجِّ؟، قَالَ: نَأْخُذُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ، قَالَ: وَكَانَ ثَقِيفُ قَدْ أَسَرُوا رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَقَدْ قَالَ فِيمَا قَالَ: وَأَنَا مُسْلِمٌ، أَوْ قَالَ: وَقَدْ أَسْلَمْتُ، فَلَمَّا مَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: فَهِمْتُ هَذَا مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى، نَادَاهُ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا، رَفِيقًا، فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ، قَالَ: لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ، أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى حَدِيثِ سُلَيْمَانَ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، إِنِّي ظَمْآنٌ فَاسْقِنِي، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذِهِ حَاجَتُكَ، أَوْ قَالَ: هَذِهِ حَاجَتُهُ، قَالَ: فَفُودِيَ الرَّجُلُ بَعْدُ بِالرَّجُلَيْنِ، قَالَ: وَحَبَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَضْبَاءَ لِرَحْلِهِ، قَالَ: فَأَغَارَ الْمُشْرِكُونَ عَلَى سَرْحِ الْمَدِينَةِ، فَذَهَبُوا بِالْعَضْبَاءِ، قَالَ: فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهَا، وَأَسَرُوا امْرَأَةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: فَكَانُوا إِذَا كَانَ اللَّيْلُ يُرِيحُونَ إِبِلَهُمْ فِي أَفْنِيَتِهِمْ، قَالَ: فَنُوِّمُوا لَيْلَةً، وَقَامَتِ الْمَرْأَةُ، فَجَعَلَتْ لَا تَضَعُ يَدَهَا عَلَى بَعِيرٍ إِلَّا رَغَا، حَتَّى أَتَتْ عَلَى الْعَضْبَاءِ، قَالَ: فَأَتَتْ عَلَى نَاقَةٍ ذَلُولٍ مُجَرَّسَةٍ، قَالَ: فَرَكِبَتْهَا، ثُمَّ جَعَلَتْ لِلَّهِ عَلَيْهَا إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ لَتَنْحَرَنَّهَا، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَتِ الْمَدِينَةَ عُرِفَتِ النَّاقَةُ نَاقَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا، فَجِيءَ بِهَا، وَأُخْبِرَ بِنَذْرِهَا، فَقَالَ: بِئْسَ مَا جَزَيْتِيهَا أَوْ جَزَتْهَا، إِنِ اللَّهُ أَنْجَاهَا عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَالْمَرْأَةُ هَذِهِ امْرَأَةُ أَبِي ذَرٍّ.
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عضباء ۱؎ بنو عقیل کے ایک شخص کی تھی، حاجیوں کی سواریوں میں آگے چلنے والی تھی، وہ شخص گرفتار کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بندھا ہوا لایا گیا، اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور آپ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے، اس نے کہا: محمد! آپ نے مجھے اور حاجیوں کی سواریوں میں آگے جانے والی میری اونٹنی (عضباء) کو کس بنا پر پکڑ رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نے تمہارے حلیف ثقیف کے گناہ کے جرم میں پکڑ رکھا ہے“۔ راوی کہتے ہیں: ثقیف نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو شخصوں کو قید کر لیا تھا۔ اس نے جو بات کہی اس میں یہ بات بھی کہی کہ میں مسلمان ہوں، یا یہ کہا کہ میں اسلام لے آیا ہوں، تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے (آپ نے کوئی جواب نہیں دیا) تو اس نے پکارا: اے محمد! اے محمد! عمران کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رحم دل اور نرم مزاج تھے، اس کے پاس لوٹ آئے، اور پوچھا: ”کیا بات ہے؟“ اس نے کہا: میں مسلمان ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم یہ پہلے کہتے جب تم اپنے معاملے کے مختار تھے تو تم بالکل بچ جاتے“ اس نے کہا: اے محمد! میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلاؤ، میں پیاسا ہوں مجھے پانی پلاؤ۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ”یہی تمہارا مقصد ہے“ یا: ”یہی اس کا مقصد ہے“۔ راوی کہتے ہیں: پھر وہ دو آدمیوں کے بدلے فدیہ میں دے دیا گیا ۲؎ اور عضباء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کے لیے روک لیا (یعنی واپس نہیں کیا)۔ پھر مشرکین نے مدینہ کے جانوروں پر حملہ کیا اور عضباء کو پکڑ لے گئے، تو جب اسے لے گئے اور ایک مسلمان عورت کو بھی پکڑ لے گئے، جب رات ہوتی تو وہ لوگ اپنے اونٹوں کو اپنے کھلے میدانوں میں سستانے کے لیے چھوڑ دیتے، ایک رات وہ سب سو گئے، تو عورت (نکل بھاگنے کے ارادہ) سے اٹھی تو وہ جس اونٹ پر بھی ہاتھ رکھتی وہ بلبلانے لگتا یہاں تک کہ وہ عضباء کے پاس آئی، وہ ایک سیدھی سادی سواری میں مشاق اونٹنی کے پاس آئی اور اس پر سوار ہو گئی اس نے نذر مان لی کہ اگر اللہ نے اسے بچا دیا تو وہ اسے ضرور قربان کر دے گی۔ جب وہ مدینہ پہنچی تو اونٹنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی حیثیت سے پہچان لی گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی، آپ نے اسے بلوایا، چنانچہ اسے بلا کر لایا گیا، اس نے اپنی نذر کے متعلق بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کتنا برا ہے جو تم نے اسے بدلہ دینا چاہا، اللہ نے اسے اس کی وجہ سے نجات دی ہے تو وہ اسے نحر کر دے، اللہ کی معصیت میں نذر کا پورا کرنا نہیں اور نہ ہی نذر اس مال میں ہے جس کا آدمی مالک نہ ہو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ عورت ابوذر کی بیوی تھیں۔
وضاحت: ۱؎: ایک اونٹنی کا نام ہے۔ ۲؎: یعنی ثقیف نے اسے لے لیا اور اس کے بدلہ میں ان دونوں مسلمانوں کو چھوڑ دیا جنہیں انہوں نے پکڑ رکھا تھا۔
Imran bin Husain said: Adba belonged to a man of Banu Aqil. It used to go ahead of pligrims. The man was then captivated. He was brought in chains to the Prophet ﷺ. The Prophet ﷺ was riding on a donkey with a blanket on him. He said: Muhammad, why do you arrest me and capture the one (i. e. the she-camel) which goes ahead of the pilgrims. He replied: We are arresting you on account of the crime committed by your allies Thaqid. Thaqif captivated two persons from among the Companions of the Prophet ﷺ. He said (whatever he said) I am a Muslim, or he said: I have embraced Islam. When the Prophet ﷺ went ahead, he called him: O Muhammed, O Muhammed. Abu Dawud said: I learnt it from the version of the narrator Muhammad bin 'Isa. The Prophet ﷺ was compassionate and kind hearted. So he returned to him, and asked: What is the matter with you ? He replied: I am a Muslim. He said: Had you said it when the matter was in your hand, you would have succeeded completely. Abu Dawud said: I then returned to the version of the narrator Sulaiman (b. Harb). He said: Muhammad, I am hungry, so feed me. I am thirsty, so give me water. The Prophet ﷺ said: This is your need, or he said: This is his need (the narrator is doubtful). Later on the man was taken back (by Thaqif) as a ransom for the two men (of the Companions of the Prophet). The Prophet ﷺ retained Adba for his journey. The narrator said: The polytheists raided the pasturing animals of Madina and they took away Adba. When they took away Adba, they also captivated a Muslim woman. They used to leave their camels in the fields for rest at night. One night they slept and the (Muslim) woman stood up. Any camel on which she put her hand brayed until she came to Adba. She came to a she-camel which was docile and experienced. She then rode on her and vowed to Allah that if He saved her, she would sacrifice it. When she came to Madina, the people recognized the she-camel of the Prophet ﷺ. The Prophet ﷺ was then informed about it and he sent for her. She was brought to him and she informed him about her vow. He said: It is a bad return that you have given it. Allah has not saved you, on its (back) that you now sacrifice it. A vow to do an act of disobedience must not be fulfilled, or to do something over which one has no control. Abu Dawud said: This woman was the wife of Abu Dharr.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3310
أخذتك بجريرة حلفائك ثقيف ثم انصرف عنه فناداه فقال يا محمد يا محمد وكان رسول الله رحيما رقيقا فرجع إليه فقال ما شأنك قال إني مسلم قال لو قلتها وأنت تملك أمرك أفلحت كل ا
بجريرة حلفائك ثقيف قال وكان ثقيف قد أسروا رجلين من أصحاب النبي قال وقد قال فيما قال وأنا مسلم أو قال وقد أسلمت فلما مضى النبي ناداه يا محمد قال وكان النبي رحيما رفيقا فرجع إليه فقال ما شأنك قال إني مسلم قال لو قلتها وأنت تملك أمرك أفلحت كل الفلاح قال يا م
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3316
فوائد ومسائل: اس واقعہ میں چونکہ یہ خاتون اس اونٹنی کی مالک نہ تھی۔ اس لئے اس کی نذر لغو قرار دی گئی۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اضطراری صورت میں عورت اکیلے سفر کر سکتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3316
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1105
´(جہاد کے متعلق احادیث)` سیدنا عمران حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے ایک قیدی مرد کے بدلہ میں دو مسلمان مردوں کو چھڑوایا۔ اس کی تخریج ترمذی نے کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1105»
تخریج: «أخرجه الترمذي، السير، باب ما جاء في قتل الأساري والفداء، حديث:1568، ومسلم، النذر، حديث:1641.»
تشریح: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اسیران جنگ کا تبادلہ درست ہے۔ جمہور علماء کی رائے بھی یہی ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک تبادلہ درست نہیں۔ ان کی رائے میں قیدی کو مار ڈالنا یا غلام بنا لینا چاہیے حالانکہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے بنو عقیل کے ایک آدمی کو گرفتار کیا تو بنو ثقیف نے دو صحابہ رضی اللہ عنہما کو گرفتار کر لیا۔ بنو ثقیف‘ بنو عقیل کے حلیف تھے۔ مشرکین نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو رہا کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشرک کو چھوڑ دیا۔ یہ جمہور کی واضح دلیل ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1105
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1568
´قیدیوں کے قتل کرنے اور فدیہ لے کر انہیں چھوڑنے کا بیان۔` عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے ایک قیدی مرد کے بدلہ میں دو مسلمان مردوں کو چھڑوایا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1568]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جنگی قیدیوں کا تبادلہ درست ہے، جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1568
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:851
851- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: بنو عقیل زمانہ جاہلیت میں ثقیف قبیلے کے حلیف تھے۔ ثقیف قبیلے کے لوگوں نے دو مسلمانوں کو قیدی بنالیا پھر اس کے بعد مسلمانوں نے عقیل کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو پکڑلیا جس کے ساتھ اس کی اونٹنی بھی تھی اس شخص کی اونٹنی زمانہ جاہلیت میں حاجیوں سے آگے نکل جایا کرتی تھی اور وہ کئی مرتبہ یہ عمل کرچکی تھی۔ زمانہ جاہلیت کا یہ رواج تھا کہ جب کوئی اونٹنی حاجیوں سے آگے نکل جاتی تھی، تو پھر اسے کسی بھی جگہ پر چرنے سے نہیں روکا جاتا تھا۔ کسی بھی حوض پر آکر پانی پینے سے نہیں روکا جاتا تھا۔ (راوی بیان کرتے ہیں) اس شخص کو نبی اکرم صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:851]
فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ کافر قیدیوں کے بدلے مسلمانوں کو آزاد کروانا درست ہے۔ نیز اس حدیث میں ایک صحابیہ کی جرٱت کا بھی ذکر ہے کہ صحابیات کس قدر جرٱت مند تھیں۔ گناہ کی نذر اور اس چیز کی نذر جس کا انسان مالک نہ ہوا سے پورا نہیں کیا جائے گا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 850
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4245
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو ثقیف، بنو عقیل کے حلیف (دوست) تھے، اور بنو ثقیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ساتھیوں کو قیدی بنا لیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے ایک بنو عقیل کے آدمی کو قید کر لیا، اور اس کے ساتھ عضباء نامی اونٹنی بھی پکڑ لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس اس حال میں پہنچے کہ وہ بندھا ہوا تھا، اس نے کہا، اے محمد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب ہو گئے،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4245]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) وثاق: قید، بندھن، سرشتہ، جس سے باندھا جاتا ہے۔ (2) سابقة الحاج: سفر حج میں سب سے آگے رہنے والے۔ (3) اعظاما لذالك: اس قیدی کا خیال تھا، ہمارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ ہے، حالانکہ جب ان کے حلفاء، بنو ثقیف کے دو صحابہ کو قید کر لیا، تو عہد ٹوٹ گیا، اس لیے آپ نے ان کے حلیفوں بنو عقیل کا آدمی پکڑ لیا، تاکہ اس کے عوض مسلمان قیدیوں کو چھڑایا جا سکے اور ایسے ہی ہوا، اور اس کے مسلمان ہونے کے دعویٰ کے باوجود واپس کر دیا، کیونکہ صلح حدیبیہ میں یہ شرط بھی تھی، اگر ہمارا کوئی ساتھی مسلمان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ جائے گا، تو تم مسلمانوں کو اسے واپس کرنا ہو گا، اور اس نے تو اسلام کا اظہار بھی ایسے وقت میں کیا تھا، جب کہ وہ آزاد و خود مختار نہیں تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ”اگر تو اس بات کا اظہار خود مختار اور آزاد ہونے کی صورت میں کرتا تو کامل فلاح پاتا۔ “ اور اس واقعہ میں عضباء نامی اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس رکھ لی تھی، اور اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے، قیدی کو کھانا پینا مہیا کرنا ضروری ہے۔ (4) يريحون انعامهم: مراح، مویشیوں کا باڑہ، یعنی وہ رات کو اونٹوں کو اپنے گھروں کے سامنے بٹھاتے تھے۔ (5) فانفلتت: وہ عورت ان کی قید سے خلاصی پا گئی، اور بقول امام ابن اسحاق یہ حضرت ابوذر کی بیوی تھی، جس کا نام لیلیٰ تھا، اور یہ واقعہ 6ھ جمادی الاخری میں پیش آیا، اس صورت میں مذکورہ بالا واقعہ صلح حدیبیہ سے پہلے کا ہے، اور بنو ثقیف اور ان کے حلفاء کے ساتھ الگ معاہدہ ہوا تھا، جس کو بنو ثقیف نے توڑ ڈالا تھا، اب پھر دوبارہ انہوں نے مدینہ پر حملہ کیا، جس میں عضباء اونٹنی بھی لے گئے اور ایک عورت کو بھی قیدی بنا لی۔ (6) ناقة منوقة: رام شدہ، سدھائی ہوئی اونٹنی، جو سوار کی اطاعت گزار ہوتی ہے۔ (7) نذروبها (س) ، ان کو اس کے بھاگنے کا علم ہو گیا، بقول بعض اس معنی کی رو سے اس فعل کا مصدر استعمال نہیں ہوتا، اور بقول بعض، نذارة، نذرة اور نذر مصدر آتے ہیں۔ فوائد ومسائل: (1) بئسما ما جزتها: وہ اونٹنی جو اس کی دشمن سے خلاصی اور نجات کا سبب یا باعث بنی، اس نے اس کے اس احسان و کرم کا یہ صلہ دیا کہ اس کی قربانی کرنے کی قدر مان لی، اور اس کی موت و ہلاکت کا باعث بنی، جب وہ اس کی زندگی کا سبب بھی تھی۔ (2) لا وفاء لنذر في معصية: گناہ و معصیت کی نذر کو پورا کرنا بالاتفاق جائز نہیں ہے، لیکن اس میں اختلاف ہے کہ اس صورت میں کفارہ ادا کرنا ہو گا یا نہیں، اس کے بارے میں تین نظریات ہیں: (ا) بقول امام نووی، جس شخص نے معصیت و گناہ کی نذر مانی مثلا شراب پیوں گا، یا کوئی اور گناہ کروں گا، اس کی نذر باطل ہو گی، اور منعقد نہیں ہو گی، اس لیے اس پر کسی قسم کا کفارہ نہیں ہے، جمہور فقہاء، امام مالک، امام شافعی اور امام ابو حنیفہ اور داؤد ظاہری کا یہی نظریہ ہے، لیکن امام احمد کے نزدیک اس پر کفارہ یمین، یعنی قسم والا کفارہ واجب ہو گا، امام احمد کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس پر کفارہ نہیں ہے، امام مسروق اور امام شعبی کا موقف بھی یہی ہے، اور حدیث مذکورہ بالا کا تقاضا بھی یہی ہے۔ (ب) معصیت و گناہ کا ارتکاب تو کسی صورت میں جائز نہیں ہے، لیکن نذر معصیت ماننے والے پر قسم کا کفارہ واجب ہے، اور بقول امام ابن قدامہ، ابن مسعود، ابن عباس، عمران بن حصین، جابر، سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم، امام ابو حنیفہ، امام احمد اور امام ثوری کا یہی نظریہ ہے، اس طرح امام احمد سے دونوں قول منقول ہیں۔ مغنی، ج 9، ص 3۔ (ج) امام ابن قدامہ کے بقول امام ابو حنیفہ، اور ان کے اصحاب کا نظریہ، یہ ہے کہ نذر معصیت پر کفارہ قسم ہے، اور بقول علامہ سعیدی یہی بات صحیح ہے، اور علامہ نووی کی بات درست نہیں ہے۔ (شرح مسلم، ج 4، ص 547-548) لیکن علامہ تقی عثمانی لکھتے ہیں، اگر نذر معصیت، فی نفسہ معصیت ہے، جیسے قتل کرنا، شراب نوشی، زنا اور چوری وغیرہ تو یہ نذر باطل ہے، اور منعقد نہیں ہو گی، اس لیے اس پر کسی قسم کا کفارہ نہیں ہے، اور اس حدیث کا محمل یہی ہے، لیکن وہ معصیت جو لغيرها ہے، جیسے عید یا ایام تشریق میں سے کسی دن کے روزے کی نیت، تو یہ نذر صحیح ہے، اس لیے منعقد ہو گی، اس کو اس روزہ کی قضائی دینی ہو گی، یا کفارہ ادا کرنا ہو گا۔ (تکملہ ج 2 ص 164) اور بقول علامہ تقی اگر نذر سے مراد قسم ہو، تو پھر چونکہ قسم توڑی ہو گی، اس لیے ہر صورت میں قسم والا کفارہ واجب ہو گا۔ (تکملہ، ج 2، ص 165) لیکن علامہ سعیدی نے مختلف دلائل سے علامہ تقی کی تردید کی ہے، اور علامہ ابن قدامہ کی تائید کی ہے۔ (3) ولا فيما لا يملك: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، اگر کافر، مسلمان کا مال لوٹ کر لے جائیں، تو وہ ان کے ملک میں نہیں جائے گا، یعنی وہ اس کا مالک نہیں بنیں گے، کیونکہ کافر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی عضباء لے گئے تھے، اور انہوں نے اسے اپنے گھروں کے سامنے باندھا ہوا تھا، اور دشمن کے تمام اونٹوں میں سے وہی انصاری عورت کو لے کر بھاگی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار عورت کی ملکیت کو تسلیم نہیں کیا، اگر کافر، اونٹنی کے مالک بن گئے ہوتے، تو وہ اونٹنی انصاری عورت کی ملکیت میں آ جاتی، اس لیے احناف کی یہ بات درست نہیں ہے کہ اگر کافر مسلمان کا مال چھین کر، اپنے وطن و علاقہ میں لے جائیں، تو وہ اس کے مالک بن جائیں گے، اور اس واقعہ میں اونٹنی ابھی ان کے علاقہ میں نہیں گئی تھی، حالانکہ حدیث میں صریح الفاظ موجود ہیں، کہ وہ اپنے اونٹ اپنے گھروں کے سامنے آرام کے لیے بٹھاتے تھے۔