(مرفوع) حدثنا داود بن رشيد، حدثنا شعيب بن إسحاق، عن الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، قال: حدثني ابو قلابة، قال: حدثني ثابت بن الضحاك، قال:" نذر رجل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ينحر إبلا ببوانة، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني نذرت ان انحر إبلا ببوانة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هل كان فيها وثن من اوثان الجاهلية يعبد؟، قالوا: لا، قال: هل كان فيها عيد من اعيادهم؟، قالوا: لا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اوف بنذرك، فإنه لا وفاء لنذر في معصية الله، ولا فيما لا يملك ابن آدم". (مرفوع) حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاق، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَابِتُ بْنُ الضَّحَّاكِ، قَالَ:" نَذَرَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ كَانَ فِيهَا وَثَنٌ مِن أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْفِ بِنَذْرِكَ، فَإِنَّهُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ".
ابوقلابہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ثابت بن ضحاک نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ (ایک جگہ کا نام ہے) میں اونٹ ذبح کرے گا تو وہ شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے بوانہ میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت وہاں تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟“ لوگوں نے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کفار کی عیدوں میں سے کوئی عید وہاں منائی جاتی تھی؟“ لوگوں نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کر لو البتہ گناہ کی نذر پوری کرنا جائز نہیں اور نہ اس چیز میں نذر ہے جس کا آدمی مالک نہیں“۔
Narrated Thabit ibn ad-Dahhak: In the time of the Prophet ﷺ a man took a vow to slaughter a camel at Buwanah. So he came to the Prophet ﷺ and said: I have taken a vow to sacrifice a camel at Buwanah. The Prophet ﷺ asked: Did the place contain any idol worshipped in pre-Islamic times? They (the people) said: No. He asked: Was any pre-Islamic festival observed there? They replied: No. The Prophet ﷺ said: Fulfil your vow, for a vow to do an act of disobedience to Allah must not be fulfilled, neither must one do something over which a human being has no control.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3307
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (3437، 3438)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3313
فوائد ومسائل: ایسے مقامات جہاں اہل کفر وشرک اور اہل بدعت اپنے مخصوص اعمال سر انجام دیتے ہوں۔ متبع سنت مسلمان کو ان جگہوں میں اللہ کی عبادت سے بچنا چاہیے۔ اسی طرح وہ مخصوص ایام و تواریخ بھی جن میں ان لوگوں نے اپنی بدعات کو شہرت دے رکھی ہو ان میں ان کے سے اعمال خیر سے بچنا افضل ہے۔ تاکہ ان سے اور ان کی بدعات سے براءت کا اظہار ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3313
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1184
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)` سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک آدمی نے بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ” کیا اس جگہ بت تھا کہ جسے پوجا جاتا رہا ہو؟“ اس نے کہا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ” کیا ان کا کوئی میلہ تو نہیں لگتا تھا؟“ اس آدمی نے کہا نہیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اپنی نذر پوری کر۔ وہ نذر پوری نہیں کرنی چاہیئے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو یا قطع رحمی ہو اور جس کا پورا کرنا آدم کے بیٹے کے بس میں نہ ہو۔“(ابوداؤد، طبرانی) اور یہ الفاظ طبرانی کے ہیں اور اس کی سند صحیح ہے اور مسند احمد میں کردم کی حدیث اس کی شاہد ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1184»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الأيمان والنذور، باب مايؤمر به من وفاء النذر، حديث:3313، والطبراني في الكبير:2 /75، 76، حديث:1341، وحديث كردم:أخرجه أحمد:3 /419 وهو حديث حسن.»
تشریح: 1. یہ حدیث دلیل ہے کہ مباح کاموں میں نذر جائز ہے۔ 2. بتوں کی جگہ یا کفار کے میلوں ٹھیلوں کے مقام پر ذبح کرنا جملہ معاصی میں سے ہے اگرچہ اللہ کی رضا کے سوا اور کوئی مقصد نہ ہو‘ اس لیے کہ اس میں ان کے شرک کے مظاہر اور ان کے دین کے شعار کی ترویج پائی جاتی ہے۔ وضاحت: «حضرت کَرْدم رضی اللہ عنہ» بن سفیان ثقفی۔ کردم کے ”کاف“ پر فتحہ اور ”را“ ساکن ہے۔ ان سے ان کی بیٹی حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا اور عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1184
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1527
´جو چیز آدمی کے اختیار میں نہیں اس میں نذر نہیں۔` ثابت بن ضحاک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ کے اختیار میں جو چیز نہیں ہے اس میں نذر صحیح نہیں ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1527]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی نذر مانتے وقت جو چیز بندے کے اختیار میں نہیں ہے اس میں نذر صحیح نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر اس چیز پر اختیار حاصل ہوجائے تو بھی وہ نذر پوری نہیں کی جائے گی، اور نہ ہی اس پر کفارہ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1527