صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
نذر کے احکام
The Book of Vows
3. باب لاَ وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ وَلاَ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ الْعَبْدُ:
3. باب: ایسی نذر جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور جس کو پورا کرنے کی طاقت نہ ہو اس کو پورا کرنے کا بیان۔
Chapter: There is no fulfillment of a vow that involves disobedience towards Allah, or a vow concerning that which a person does not own
حدیث نمبر: 4245
Save to word اعراب
وحدثني زهير بن حرب ، وعلي بن حجر السعدي واللفظ لزهير، قالا: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، حدثنا ايوب ، عن ابي قلابة ، عن ابي المهلب ، عن عمران بن حصين ، قال: " كانت ثقيف حلفاء لبنى عقيل، فاسرت ثقيف رجلين من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، واسر اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من بني عقيل واصابوا معه العضباء، فاتى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في الوثاق، قال: يا محمد فاتاه، فقال: ما شانك، فقال: بم اخذتني وبم اخذت سابقة الحاج، فقال: إعظاما لذلك اخذتك بجريرة حلفائك ثقيف، ثم انصرف عنه، فناداه فقال: يا محمد، يا محمد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم رحيما رقيقا فرجع إليه، فقال: ما شانك؟، قال: إني مسلم، قال: لو قلتها وانت تملك امرك افلحت كل الفلاح، ثم انصرف، فناداه فقال: يا محمد، يا محمد فاتاه، فقال: ما شانك؟ قال: إني جائع، فاطعمني وظمآن فاسقني، قال: هذه حاجتك ففدي بالرجلين، قال: واسرت امراة من الانصار، واصيبت العضباء فكانت المراة في الوثاق وكان القوم يريحون نعمهم بين يدي بيوتهم، فانفلتت ذات ليلة من الوثاق، فاتت الإبل، فجعلت إذا دنت من البعير رغا، فتتركه حتى تنتهي إلى العضباء، فلم ترغ، قال: وناقة منوقة، فقعدت في عجزها ثم زجرتها، فانطلقت ونذروا بها، فطلبوها فاعجزتهم، قال: ونذرت لله إن نجاها الله عليها لتنحرنها، فلما قدمت المدينة رآها الناس، فقالوا: العضباء ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: إنها نذرت إن نجاها الله عليها لتنحرنها، فاتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكروا ذلك له، فقال: سبحان الله بئسما جزتها نذرت لله إن نجاها الله عليها لتنحرنها، لا وفاء لنذر في معصية، ولا فيما لا يملك العبد " وفي رواية ابن حجر لا نذر في معصية الله،وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ واللفظ لزهير، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: " كَانَتْ ثَقِيفُ حُلَفَاءَ لِبَنِى عُقَيْلٍ، فَأَسَرَتْ ثَقِيفُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ وَأَصَابُوا مَعَهُ الْعَضْبَاءَ، فَأَتَى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْوَثَاقِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ، فَقَالَ: بِمَ أَخَذْتَنِي وَبِمَ أَخَذْتَ سَابِقَةَ الْحَاجِّ، فَقَالَ: إِعْظَامًا لِذَلِكَ أَخَذْتُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، فَنَادَاهُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَقِيقًا فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ؟، قَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ، قَالَ: لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَنَادَاهُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: إِنِّي جَائِعٌ، فَأَطْعِمْنِي وَظَمْآنُ فَأَسْقِنِي، قَالَ: هَذِهِ حَاجَتُكَ فَفُدِيَ بِالرَّجُلَيْنِ، قَالَ: وَأُسِرَتِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَأُصِيبَتِ الْعَضْبَاءُ فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ فِي الْوَثَاقِ وَكَانَ الْقَوْمُ يُرِيحُونَ نَعَمَهُمْ بَيْنَ يَدَيْ بُيُوتِهِمْ، فَانْفَلَتَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنَ الْوَثَاقِ، فَأَتَتِ الْإِبِلَ، فَجَعَلَتْ إِذَا دَنَتْ مِنَ الْبَعِيرِ رَغَا، فَتَتْرُكُهُ حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الْعَضْبَاءِ، فَلَمْ تَرْغُ، قَالَ: وَنَاقَةٌ مُنَوَّقَةٌ، فَقَعَدَتْ فِي عَجُزِهَا ثُمَّ زَجَرَتْهَا، فَانْطَلَقَتْ وَنَذِرُوا بِهَا، فَطَلَبُوهَا فَأَعْجَزَتْهُمْ، قَالَ: وَنَذَرَتْ لِلَّهِ إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَلَمَّا قَدِمَتْ الْمَدِينَةَ رَآهَا النَّاسُ، فَقَالُوا: الْعَضْبَاءُ نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّهَا نَذَرَتْ إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ بِئْسَمَا جَزَتْهَا نَذَرَتْ لِلَّهِ إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةٍ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ الْعَبْدُ " وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ حُجْرٍ لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ،
مجھے زہیر بن حرب اور علی بن حجر سعدی نے حدیث بیان کی۔۔ الفاظ زہیر کے ہیں۔۔ ان دونوں نے کہا ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ایوب نے ابوقلابہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابومہلب سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ثقیف، بنو عقیل کے حلیف تھے، ثقیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو آدمیوں کو قید کر لیا، (بدلے میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے بنو عقیل کے ایک آدمی کو قیدی بنا لیا اور انہوں نے اس کے ساتھ اونٹنی عضباء بھی حاصل کر لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی کے پاس سے گزرے، وہ بندھا ہوا تھا، اس نے کہا: اے محمد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور پوچھا: "کیا بات ہے؟" اس نے کہا: آپ نے مجھے کس وجہ سے پکڑا ہوا اور حاجیوں (کی سواریوں) سے سبقت لے جانے والی اونٹنی کو کیوں پکڑا ہے؟ آپ نے۔۔ اس معاملے کو سنگین خیال کرتے ہوئے۔۔ جواب دیا: "میں نے تمہیں تمہارے حلیف ثقیف کے جرم کی بنا پر (اس کے ازالے کے لیے) پکڑا ہے۔" پھر آپ وہاں سے پلٹے تو اس نے (پھر سے) آپ کو آواز دی اور کہا: اے محمد! اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت رحم کرنے والے، نرم دل تھے۔پھر سے آپ اس کے پاس واپس آئے اور فرمایا: "کیا بات ہے؟" اس نے کہا: (اب) میں مسلمان ہوں۔ آپ نے فرمایا: اگر تم یہ بات اس وقت کہتے جب تم اپنے مالک آپ تھے (آزاد تھے) تو تم پوری بھلائی حاصل کر لیتے (اب بھی ملے گی لیکن پوری نہ ہو گی۔) " پھر آپ پلٹے تو اس نے آپ کو آواز دی اور کہا: اے محمد! اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ (پھر) اس کے پاس آئے اور پوچھا: "کیا بات ہے؟" اس نے کہا: میں بھوکا ہوں مجھے (کھانا) کھلائیے اور پیاسا ہوں مجھے (پانی) پلائیے۔ آپ نے فرمایا: " (ہاں) یہ تمہاری (فورا پوری کی جانے والی) ضرورت ہے۔" اس کے بعد (معاملات طے کر کے) اسے دونوں آدمیوں کے بدلے میں چھوڑ دیا گیا۔ (اونٹنی پیچھے رہ گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آئی۔ لیکن مشرکین نے دوبارہ حملے کر کے پھر اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔) کہا: (بعد میں، غزوہ ذات القرد کے موقع پر، مدینہ پر حملے کے دوران) ایک انصاری عورت قید کر لی گئی اور عضباء اونٹنی بھی پکڑ لی گئی، عورت بندھنوں میں (جکڑی ہوئی) تھی۔ لوگ اپنے اونٹ اپنے گھروں کے سامنے رات کو آرام (کرنے کے لیے بٹھا) دیتے تھے، ایک رات وہ (خاتون) اچانک بیڑیوں (بندھنوں) سے نکل بھاگی اور اونٹوں کے پاس آئی، وہ (سواری کے لیے) جس اونٹ کے بھی قریب جاتی وہ بلبلانے لگتا تو وہ اسے چھوڑ دیتی حتی کہ وہ عضباء تک پہنچ گئی تو وہ نہ بلبلائی، کہا: وہ سدھائی ہوئی اونٹنی تھی تو وہ اس کی پیٹھ کے پچھلے حصے پر بیٹھی، اور اسے دوڑایا تو وہ چل پڑی۔ لوگوں کو اس (کے جانے) کا علم ہو گیا، انہوں نے اس کا تعاقب کیا لیکن اس نے انہیں بے بس کر دیا۔ کہا: اس عورت نے اللہ کے لیے نذر مانی کہ اگر اللہ نے اس اونٹنی پر اسے نجات دی تو وہ اسے (اللہ کی رضا کے لیے) نحر کر دے گی۔ جب وہ مدینہ پہنچی، لوگوں نے اسے دیکھا تو کہنے لگے: یہ عضباء ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی۔ وہ عورت کہنے لگی کہ اس نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اللہ نے اسے اس اونٹنی پر نجات عطا فرما دی تو وہ اس اونٹنی کو (اللہ کی راہ میں) نحر کر دے گی۔ اس پر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سبحان اللہ! اس عورت نے اسے جو بدلہ دیا وہ کتنا برا ہے! اس نے اللہ کے لیے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اللہ نے اس کو اس اونٹنی پر نجات دے دی تو وہ اسے ذبح کر دے گی، معصیت میں نذر پوری نہیں کی جا سکتی، نہ ہی اس چیز میں جس کا بندہ مالک نہ ہو۔" ابن حجر کی روایت میں ہے: "اللہ کی معصیت میں کوئی نذر (جائز) نہیں
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو ثقیف، بنو عقیل کے حلیف (دوست) تھے، اور بنو ثقیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ساتھیوں کو قیدی بنا لیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے ایک بنو عقیل کے آدمی کو قید کر لیا، اور اس کے ساتھ عضباء نامی اونٹنی بھی پکڑ لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس اس حال میں پہنچے کہ وہ بندھا ہوا تھا، اس نے کہا، اے محمد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب ہو گئے، اور پوچھا، تیرا کیا معاملہ ہے؟ تو اس نے کہا، آپ نے مجھے کیوں پکڑا ہے؟ اور سب حاجیوں سے سبقت لے جانے والی (عضباء) کو کیوں پکڑا ہے، تو آپ نے اس کی بات کو ناگوار خیال کرتے ہوئے (کہ وہ سمجھتا ہے، میں نے بدعہدی کی ہے) فرمایا: میں نے تجھے تیرے حلیفوں بنو ثقیف کے جرم میں پکڑا ہے۔ پھر اس کے پاس سے پلٹ گئے، تو اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی، اور کہا، اے محمد! اے محمد! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مہربان، نرم دل تھے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف لوٹ آئے اور اس سے پوچھا، تیرا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا، میں مسلمان ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو یہ بات اس وقت کہتا جب تو اپنا آپ مالک تھا، یعنی گرفتار نہیں ہوا تھا، تو تو مکمل طور (دنیا و آخرت) کامیاب ہو جاتا۔ پھر آپ وہاں سے چل دئیے، تو اس نے آپ کو آواز دی، اے محمد! اے محمد! آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے، اور اس سے پوچھا، کیا بات ہے؟ اس نے کہا، میں بھوکا ہوں، مجھے کھلائیے، اور پیاسا ہوں، مجھے پلائیے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تیری واقعی ضرورت ہے؟ (ہم اسے پورا کرتے ہیں) پھر اس کو دو صحابہ کے عوض چھوڑ دیا گیا۔ حضرت عمران بیان کرتے ہیں (بعد میں) ایک انصاری عورت گرفتار کر لی گئی، اور (دشمن نے) عضباء اونٹنی بھی پکڑ لی، وہ عورت بندھی ہوئی تھی، اور یہ لوگ اپنے اونٹوں کو رات کو آرام کے لیے اپنے گھروں کے سامنے باندھتے تھے، تو ایک رات یہ عورت بندھن سے چھوٹ گئی اور اونٹوں کے پاس آئی (تاکہ سوار ہو کر وہاں سے نکل بھاگے) تو وہ جس اونٹ کے قریب ہونے لگتی، وہ بلبلا اٹھتا، تو وہ اسے چھوڑ دیتی، حتی کہ وہ عضباء کے پاس پہنچ گئی، تو وہ نہ بلبلائی، اور بقول راوی رام شدہ، سدھائی ہوئی اونٹنی تھی، تو وہ اس کے پچھلے حصے پر بیٹھ گئی اور اسے ڈانٹا تو وہ چل پڑی، لوگوں کو اس کا پتہ چل گیا، انہوں نے اس کا تعاقب کیا، لیکن اس نے ان کو بےبس کر دیا، راوی کہتے ہیں، اس عورت نے اللہ کے لیے یہ نذر مانی، اگر اللہ تعالیٰ نے اسے اس اونٹنی پر نجات بخش دی تو وہ اسے نحر کر دے گی، تو جب وہ مدینہ پہنچی، لوگوں نے اسے دیکھا، تو کہنے لگے، یہ تو عضباء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ہے، تو اس عورت نے کہا، میں نے نذر مانی ہے، اگر اللہ نے اسے اس پر خلاصی بخشی، تو وہ اسے نحر کر دے گی، لوگوں نے آ کر اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! اس نے اسے بہت برا بدلہ دیا ہے، کہ اللہ کے لیے نذر مانی ہے، اگر اللہ نے اسے اس پر نجات بخشی تو وہ اسے نحر کر دے گی، گناہ کے لیے مانی جانے والی نذر پوری نہیں کی جا سکتی، اور نہ اس چیز کی نذر جس کا انسان فی الحال مالک نہیں ہے اور ابن حجر کی روایت ہے، اللہ کی نافرمانی کی نذر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1641

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح مسلم4245عمران بن الحصينأخذتك بجريرة حلفائك ثقيف ثم انصرف عنه فناداه فقال يا محمد يا محمد وكان رسول الله رحيما رقيقا فرجع إليه فقال ما شأنك قال إني مسلم قال لو قلتها وأنت تملك أمرك أفلحت كل ا
   جامع الترمذي1568عمران بن الحصينفدى رجلين من المسلمين برجل من المشركين
   سنن أبي داود3316عمران بن الحصينبجريرة حلفائك ثقيف قال وكان ثقيف قد أسروا رجلين من أصحاب النبي قال وقد قال فيما قال وأنا مسلم أو قال وقد أسلمت فلما مضى النبي ناداه يا محمد قال وكان النبي رحيما رفيقا فرجع إليه فقال ما شأنك قال إني مسلم قال لو قلتها وأنت تملك أمرك أفلحت كل الفلاح قال يا م
   بلوغ المرام1105عمران بن الحصينفدى رجلين من المسلمين برجل من المشركين
   مسندالحميدي851عمران بن الحصينلو قلتها وأنت تملك أمرك، كنت قد أفلحت كل الفلاح

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4245 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4245  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وثاق:
قید،
بندھن،
سرشتہ،
جس سے باندھا جاتا ہے۔
(2)
سابقة الحاج:
سفر حج میں سب سے آگے رہنے والے۔
(3)
اعظاما لذالك:
اس قیدی کا خیال تھا،
ہمارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ ہے،
حالانکہ جب ان کے حلفاء،
بنو ثقیف کے دو صحابہ کو قید کر لیا،
تو عہد ٹوٹ گیا،
اس لیے آپ نے ان کے حلیفوں بنو عقیل کا آدمی پکڑ لیا،
تاکہ اس کے عوض مسلمان قیدیوں کو چھڑایا جا سکے اور ایسے ہی ہوا،
اور اس کے مسلمان ہونے کے دعویٰ کے باوجود واپس کر دیا،
کیونکہ صلح حدیبیہ میں یہ شرط بھی تھی،
اگر ہمارا کوئی ساتھی مسلمان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ جائے گا،
تو تم مسلمانوں کو اسے واپس کرنا ہو گا،
اور اس نے تو اسلام کا اظہار بھی ایسے وقت میں کیا تھا،
جب کہ وہ آزاد و خود مختار نہیں تھا،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا،
اگر تو اس بات کا اظہار خود مختار اور آزاد ہونے کی صورت میں کرتا تو کامل فلاح پاتا۔
اور اس واقعہ میں عضباء نامی اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس رکھ لی تھی،
اور اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے،
قیدی کو کھانا پینا مہیا کرنا ضروری ہے۔
(4)
يريحون انعامهم:
مراح،
مویشیوں کا باڑہ،
یعنی وہ رات کو اونٹوں کو اپنے گھروں کے سامنے بٹھاتے تھے۔
(5)
فانفلتت:
وہ عورت ان کی قید سے خلاصی پا گئی،
اور بقول امام ابن اسحاق یہ حضرت ابوذر کی بیوی تھی،
جس کا نام لیلیٰ تھا،
اور یہ واقعہ 6ھ جمادی الاخری میں پیش آیا،
اس صورت میں مذکورہ بالا واقعہ صلح حدیبیہ سے پہلے کا ہے،
اور بنو ثقیف اور ان کے حلفاء کے ساتھ الگ معاہدہ ہوا تھا،
جس کو بنو ثقیف نے توڑ ڈالا تھا،
اب پھر دوبارہ انہوں نے مدینہ پر حملہ کیا،
جس میں عضباء اونٹنی بھی لے گئے اور ایک عورت کو بھی قیدی بنا لی۔
(6)
ناقة منوقة:
رام شدہ،
سدھائی ہوئی اونٹنی،
جو سوار کی اطاعت گزار ہوتی ہے۔
(7)
نذروبها (س)
،
ان کو اس کے بھاگنے کا علم ہو گیا،
بقول بعض اس معنی کی رو سے اس فعل کا مصدر استعمال نہیں ہوتا،
اور بقول بعض،
نذارة،
نذرة اور نذر مصدر آتے ہیں۔
فوائد ومسائل:
(1)
بئسما ما جزتها:
وہ اونٹنی جو اس کی دشمن سے خلاصی اور نجات کا سبب یا باعث بنی،
اس نے اس کے اس احسان و کرم کا یہ صلہ دیا کہ اس کی قربانی کرنے کی قدر مان لی،
اور اس کی موت و ہلاکت کا باعث بنی،
جب وہ اس کی زندگی کا سبب بھی تھی۔
(2)
لا وفاء لنذر في معصية:
گناہ و معصیت کی نذر کو پورا کرنا بالاتفاق جائز نہیں ہے،
لیکن اس میں اختلاف ہے کہ اس صورت میں کفارہ ادا کرنا ہو گا یا نہیں،
اس کے بارے میں تین نظریات ہیں:
(ا)
بقول امام نووی،
جس شخص نے معصیت و گناہ کی نذر مانی مثلا شراب پیوں گا،
یا کوئی اور گناہ کروں گا،
اس کی نذر باطل ہو گی،
اور منعقد نہیں ہو گی،
اس لیے اس پر کسی قسم کا کفارہ نہیں ہے،
جمہور فقہاء،
امام مالک،
امام شافعی اور امام ابو حنیفہ اور داؤد ظاہری کا یہی نظریہ ہے،
لیکن امام احمد کے نزدیک اس پر کفارہ یمین،
یعنی قسم والا کفارہ واجب ہو گا،
امام احمد کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس پر کفارہ نہیں ہے،
امام مسروق اور امام شعبی کا موقف بھی یہی ہے،
اور حدیث مذکورہ بالا کا تقاضا بھی یہی ہے۔
(ب)
معصیت و گناہ کا ارتکاب تو کسی صورت میں جائز نہیں ہے،
لیکن نذر معصیت ماننے والے پر قسم کا کفارہ واجب ہے،
اور بقول امام ابن قدامہ،
ابن مسعود،
ابن عباس،
عمران بن حصین،
جابر،
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم،
امام ابو حنیفہ،
امام احمد اور امام ثوری کا یہی نظریہ ہے،
اس طرح امام احمد سے دونوں قول منقول ہیں۔
مغنی،
ج 9،
ص 3۔
(ج)
امام ابن قدامہ کے بقول امام ابو حنیفہ،
اور ان کے اصحاب کا نظریہ،
یہ ہے کہ نذر معصیت پر کفارہ قسم ہے،
اور بقول علامہ سعیدی یہی بات صحیح ہے،
اور علامہ نووی کی بات درست نہیں ہے۔
(شرح مسلم،
ج 4،
ص 547-548)

لیکن علامہ تقی عثمانی لکھتے ہیں،
اگر نذر معصیت،
فی نفسہ معصیت ہے،
جیسے قتل کرنا،
شراب نوشی،
زنا اور چوری وغیرہ تو یہ نذر باطل ہے،
اور منعقد نہیں ہو گی،
اس لیے اس پر کسی قسم کا کفارہ نہیں ہے،
اور اس حدیث کا محمل یہی ہے،
لیکن وہ معصیت جو لغيرها ہے،
جیسے عید یا ایام تشریق میں سے کسی دن کے روزے کی نیت،
تو یہ نذر صحیح ہے،
اس لیے منعقد ہو گی،
اس کو اس روزہ کی قضائی دینی ہو گی،
یا کفارہ ادا کرنا ہو گا۔
(تکملہ ج 2 ص 164)
اور بقول علامہ تقی اگر نذر سے مراد قسم ہو،
تو پھر چونکہ قسم توڑی ہو گی،
اس لیے ہر صورت میں قسم والا کفارہ واجب ہو گا۔
(تکملہ،
ج 2،
ص 165)

لیکن علامہ سعیدی نے مختلف دلائل سے علامہ تقی کی تردید کی ہے،
اور علامہ ابن قدامہ کی تائید کی ہے۔
(3)
ولا فيما لا يملك:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اگر کافر،
مسلمان کا مال لوٹ کر لے جائیں،
تو وہ ان کے ملک میں نہیں جائے گا،
یعنی وہ اس کا مالک نہیں بنیں گے،
کیونکہ کافر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی عضباء لے گئے تھے،
اور انہوں نے اسے اپنے گھروں کے سامنے باندھا ہوا تھا،
اور دشمن کے تمام اونٹوں میں سے وہی انصاری عورت کو لے کر بھاگی تھی،
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار عورت کی ملکیت کو تسلیم نہیں کیا،
اگر کافر،
اونٹنی کے مالک بن گئے ہوتے،
تو وہ اونٹنی انصاری عورت کی ملکیت میں آ جاتی،
اس لیے احناف کی یہ بات درست نہیں ہے کہ اگر کافر مسلمان کا مال چھین کر،
اپنے وطن و علاقہ میں لے جائیں،
تو وہ اس کے مالک بن جائیں گے،
اور اس واقعہ میں اونٹنی ابھی ان کے علاقہ میں نہیں گئی تھی،
حالانکہ حدیث میں صریح الفاظ موجود ہیں،
کہ وہ اپنے اونٹ اپنے گھروں کے سامنے آرام کے لیے بٹھاتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4245   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1105  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا عمران حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے ایک قیدی مرد کے بدلہ میں دو مسلمان مردوں کو چھڑوایا۔ اس کی تخریج ترمذی نے کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1105»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، السير، باب ما جاء في قتل الأساري والفداء، حديث:1568، ومسلم، النذر، حديث:1641.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اسیران جنگ کا تبادلہ درست ہے۔
جمہور علماء کی رائے بھی یہی ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک تبادلہ درست نہیں۔
ان کی رائے میں قیدی کو مار ڈالنا یا غلام بنا لینا چاہیے حالانکہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے بنو عقیل کے ایک آدمی کو گرفتار کیا تو بنو ثقیف نے دو صحابہ رضی اللہ عنہما کو گرفتار کر لیا۔
بنو ثقیف‘ بنو عقیل کے حلیف تھے۔
مشرکین نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو رہا کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشرک کو چھوڑ دیا۔
یہ جمہور کی واضح دلیل ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1105   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3316  
´جس بات کا آدمی کو اختیار نہیں اس کی نذر کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عضباء ۱؎ بنو عقیل کے ایک شخص کی تھی، حاجیوں کی سواریوں میں آگے چلنے والی تھی، وہ شخص گرفتار کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بندھا ہوا لایا گیا، اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور آپ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے، اس نے کہا: محمد! آپ نے مجھے اور حاجیوں کی سواریوں میں آگے جانے والی میری اونٹنی (عضباء) کو کس بنا پر پکڑ رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے تمہارے حلیف ثقیف کے گناہ کے جرم میں پکڑ رکھا ہے۔‏‏‏‏ راوی کہتے ہیں: ثقیف نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے د۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3316]
فوائد ومسائل:
اس واقعہ میں چونکہ یہ خاتون اس اونٹنی کی مالک نہ تھی۔
اس لئے اس کی نذر لغو قرار دی گئی۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اضطراری صورت میں عورت اکیلے سفر کر سکتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3316   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1568  
´قیدیوں کے قتل کرنے اور فدیہ لے کر انہیں چھوڑنے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے ایک قیدی مرد کے بدلہ میں دو مسلمان مردوں کو چھڑوایا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1568]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جنگی قیدیوں کا تبادلہ درست ہے،
جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1568   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:851  
851- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: بنو عقیل زمانہ جاہلیت میں ثقیف قبیلے کے حلیف تھے۔ ثقیف قبیلے کے لوگوں نے دو مسلمانوں کو قیدی بنالیا پھر اس کے بعد مسلمانوں نے عقیل کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو پکڑلیا جس کے ساتھ اس کی اونٹنی بھی تھی اس شخص کی اونٹنی زمانہ جاہلیت میں حاجیوں سے آگے نکل جایا کرتی تھی اور وہ کئی مرتبہ یہ عمل کرچکی تھی۔ زمانہ جاہلیت کا یہ رواج تھا کہ جب کوئی اونٹنی حاجیوں سے آگے نکل جاتی تھی، تو پھر اسے کسی بھی جگہ پر چرنے سے نہیں روکا جاتا تھا۔ کسی بھی حوض پر آکر پانی پینے سے نہیں روکا جاتا تھا۔ (راوی بیان کرتے ہیں) اس شخص کو نبی اکرم صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:851]
فائدہ:
اس سے معلوم ہوا کہ کافر قیدیوں کے بدلے مسلمانوں کو آزاد کروانا درست ہے۔ نیز اس حدیث میں ایک صحابیہ کی جرٱت کا بھی ذکر ہے کہ صحابیات کس قدر جرٱت مند تھیں۔ گناہ کی نذر اور اس چیز کی نذر جس کا انسان مالک نہ ہوا سے پورا نہیں کیا جائے گا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 850   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.