(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا عبد الرحمن بن محمد المحاربي، عن الشيباني، عن واصل الاحدب، عن شقيق، عن شيبة يعني ابن عثمان، قال:" قعد عمر بن الخطاب رضي الله عنه في مقعدك الذي انت فيه، فقال: لا اخرج حتى اقسم مال الكعبة، قال: قلت: ما انت بفاعل، قال: بلى، لافعلن، قال: قلت: ما انت بفاعل، قال: لم قلت؟ لان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد راى مكانه و ابو بكر رضي الله عنه وهما احوج منك إلى المال فلم يخرجاه، فقام فخرج". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ وَاصِلٍ الْأَحْدَبِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ شَيْبَةَ يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ، قَالَ:" قَعَدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي مَقْعَدِكَ الَّذِي أَنْتَ فِيهِ، فَقَالَ: لَا أَخْرُجُ حَتَّى أَقْسِمَ مَالَ الْكَعْبَةِ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ، قَالَ: بَلَى، لَأَفْعَلَنَّ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ، قَالَ: لِمَ قُلْتُ؟ لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَأَى مَكَانَهُ وَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُمَا أَحْوَجُ مِنْكَ إِلَى الْمَالِ فَلَمْ يُخْرِجَاهُ، فَقَامَ فَخَرَجَ".
شیبہ بن عثمان کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس جگہ بیٹھے جہاں تم بیٹھے ہو اور کہا: میں باہر نہیں نکلوں گا جب تک کہ کعبہ کا مال ۱؎(محتاج مسلمانوں میں) تقسیم نہ کر دوں، میں نے کہا: آپ ایسا نہیں کر سکتے، فرمایا: کیوں نہیں، میں ضرور کروں گا، میں نے کہا: آپ ایسا نہیں کر سکتے، وہ بولے: کیوں؟ میں نے کہا: اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال کی جگہ دیکھی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی دیکھ رکھی تھی، اور وہ دونوں اس مال کے آپ سے زیادہ حاجت مند تھے لیکن انہوں نے اسے نہیں نکالا، یہ سن کر عمر کھڑے ہوئے اور باہر نکل آئے۔
وضاحت: ۱؎: بعض علماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہ مال امام مہدی کے لئے رکھ چھوڑا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 48 (1594)، والاعتصام 2 (7275)، سنن ابن ماجہ/المناسک 105 (3116)، (تحفة الأشراف: 4849)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/410) (صحیح)»
Shaibah bin Uthman said “Umar bin Al Khattab was sitting in the place where you are sitting. He said I shall not go out until I distribute the property of The Kaabah. I said “You will not do it. ” He asked “Why?” I said “For the Messenger of Allah ﷺ and Abu Bakr had seen its place and they were more in need of the property than you, but they did not take it out. He (Umar) stood up and went out. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 2026
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (3116) عبد الرحمٰن بن محمد المحاربي مدلس(طبقات المدلسين: 8/ 3) وعنعن وحديث البخاري (1594،7375) يغني عن ھذا الحديث انوار الصحيفه، صفحه نمبر 77
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3116
´کعبہ میں (مدفون) مال کا بیان۔` ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے میرے ساتھ کچھ درہم خانہ کعبہ کے لیے ہدیہ بھیجے، میں خانہ کعبہ کے اندر آیا، اور شیبہ (خانہ کعبہ کے کلید بردار) کو جو ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے انہیں وہ درہم دے دئیے، انہوں نے پوچھا: کیا یہ تمہارے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں، اگر میرے ہوتے تو میں انہیں آپ کے پاس نہ لاتا، (فقیروں اور مسکینوں کو دے دیتا) انہوں نے کہا: اگر تم ایسا کہتے ہو تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ عمر رضی اللہ عنہ اسی جگہ بیٹھے جہاں تم بیٹھے ہو، پھر انہوں نے فرمایا: میں باہر نہیں نکلوں گا جب تک کہ کعبہ کا مال مسلمان محتاجوں میں تقسیم ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3116]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہےاور مزید لکھا ہے کہ صحیح بخاری کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔ علاوہ ازیں دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بناء پر قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسندالإمام أحمد: 24/ 102، 103 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عوادحديث: 3116)
(2) اسلام سے پہلے لوگ اللہ کی رضا کے لیے کعبے میں سونا چاندی اور نقد رقم بھیجتے تھے۔ اسلام کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس سے کعبہ شریف کے متعلق اخراجات پورے ہوتے تھے اور ضرورت سے زائد مال جمع رہتا تھا۔ (نيل الاوطار: 6/ 36)
(3) ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تیری قوم نئی نئی کفر سے نہ نکلی ہوتی تو میں کعبہ کا خزانہ اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا اس کا دروازہ زمین پر بناتا اور اس میں حطیم کا حصہ شامل کردیتا۔ (صحيح مسلم، الحج، باب نقض الكعبة وبنائها، حديث: 1333) اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائےصحیح ہے۔ ممکن ہے انھیں یہ حدیث نہ پہنچی ہو اس لیے حضرت شیبہ کی رائے کو قبول کرلیا۔
(4) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو غریب مسلمانوں کا بہت احساس تھا مسلمان حکمرانوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔
(5) حضرت شیبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تجویز کی سختی سے مخالفت کی کیونکہ وہ دلیر اور سچے لوگ تھے اور ام المونین تنقید برداشت کرنے والے تھے۔
(6) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد وعمل سے ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہوتے تھے۔ علاوہ ازیں اگر محسوس کرتے کہ ان کی رائے غلط ہے تو فوراً رجوع فرما کر صحیح بات تسلیم کرلیتے تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3116