Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
96. باب فِي مَالِ الْكَعْبَةِ
باب: کعبہ میں مدفون مال کا بیان۔
حدیث نمبر: 2031
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ وَاصِلٍ الْأَحْدَبِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ شَيْبَةَ يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ، قَالَ:" قَعَدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي مَقْعَدِكَ الَّذِي أَنْتَ فِيهِ، فَقَالَ: لَا أَخْرُجُ حَتَّى أَقْسِمَ مَالَ الْكَعْبَةِ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ، قَالَ: بَلَى، لَأَفْعَلَنَّ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ، قَالَ: لِمَ قُلْتُ؟ لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَأَى مَكَانَهُ وَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُمَا أَحْوَجُ مِنْكَ إِلَى الْمَالِ فَلَمْ يُخْرِجَاهُ، فَقَامَ فَخَرَجَ".
شیبہ بن عثمان کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس جگہ بیٹھے جہاں تم بیٹھے ہو اور کہا: میں باہر نہیں نکلوں گا جب تک کہ کعبہ کا مال ۱؎ (محتاج مسلمانوں میں) تقسیم نہ کر دوں، میں نے کہا: آپ ایسا نہیں کر سکتے، فرمایا: کیوں نہیں، میں ضرور کروں گا، میں نے کہا: آپ ایسا نہیں کر سکتے، وہ بولے: کیوں؟ میں نے کہا: اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال کی جگہ دیکھی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی دیکھ رکھی تھی، اور وہ دونوں اس مال کے آپ سے زیادہ حاجت مند تھے لیکن انہوں نے اسے نہیں نکالا، یہ سن کر عمر کھڑے ہوئے اور باہر نکل آئے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحج 48 (1594)، والاعتصام 2 (7275)، سنن ابن ماجہ/المناسک 105 (3116)، (تحفة الأشراف: 4849)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/410) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: بعض علماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہ مال امام مہدی کے لئے رکھ چھوڑا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن ماجه (3116)
عبد الرحمٰن بن محمد المحاربي مدلس(طبقات المدلسين: 8/ 3) وعنعن
وحديث البخاري (1594،7375) يغني عن ھذا الحديث
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 77

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2031 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2031  
فوائد ومسائل:

اس سے مراد وہ مال ہے جو کعبہ میں بطور نذر آتا اور جمع رہتا تھا۔


حق کے اظہار وبیان میں جراءت سے کام لینا چاہیے۔
اس میں اللہ عزوجل نے قوت رکھی ہے۔
اور سلیم الفطرت اس سے انکار نہیں کرسکتا۔


اس کے ہم معنی روایت صحیح بخاری میں ہے۔
جس سے اس روایت کی تایئد ہوتی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2031   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3116  
´کعبہ میں (مدفون) مال کا بیان۔`
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے میرے ساتھ کچھ درہم خانہ کعبہ کے لیے ہدیہ بھیجے، میں خانہ کعبہ کے اندر آیا، اور شیبہ (خانہ کعبہ کے کلید بردار) کو جو ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے انہیں وہ درہم دے دئیے، انہوں نے پوچھا: کیا یہ تمہارے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں، اگر میرے ہوتے تو میں انہیں آپ کے پاس نہ لاتا، (فقیروں اور مسکینوں کو دے دیتا) انہوں نے کہا: اگر تم ایسا کہتے ہو تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ عمر رضی اللہ عنہ اسی جگہ بیٹھے جہاں تم بیٹھے ہو، پھر انہوں نے فرمایا: میں باہر نہیں نکلوں گا جب تک کہ کعبہ کا مال مسلمان محتاجوں میں تقسیم ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3116]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہےاور مزید لکھا ہے کہ صحیح بخاری کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔
علاوہ ازیں دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بناء پر قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسندالإمام أحمد: 24/ 102، 103 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عوادحديث: 3116)

(2)
اسلام سے پہلے لوگ اللہ کی رضا کے لیے کعبے میں سونا چاندی اور نقد رقم بھیجتے تھے۔
اسلام کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔
اس سے کعبہ شریف کے متعلق اخراجات پورے ہوتے تھے اور ضرورت سے زائد مال جمع رہتا تھا۔ (نيل الاوطار: 6/ 36)

(3)
  ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اگر تیری قوم نئی نئی کفر سے نہ نکلی ہوتی تو میں کعبہ کا خزانہ اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا اس کا دروازہ زمین پر بناتا اور اس میں حطیم کا حصہ شامل کردیتا۔ (صحيح مسلم، الحج، باب نقض الكعبة وبنائها، حديث: 1333)
 اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائےصحیح ہے۔
ممکن ہے انھیں یہ حدیث نہ پہنچی ہو اس لیے حضرت شیبہ کی رائے کو قبول کرلیا۔

(4)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو غریب مسلمانوں کا بہت احساس تھا مسلمان حکمرانوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔

(5)
حضرت شیبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تجویز کی سختی سے مخالفت کی کیونکہ وہ دلیر اور سچے لوگ تھے اور ام المونین تنقید برداشت کرنے والے تھے۔

(6)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد وعمل سے ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہوتے تھے۔
علاوہ ازیں اگر محسوس کرتے کہ ان کی رائے غلط ہے تو فوراً رجوع فرما کر صحیح بات تسلیم کرلیتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3116