سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل
Prayer (Kitab Al-Salat): Detailed Injunctions about Witr
6. باب فِي الدُّعَاءِ بَعْدَ الْوِتْرِ
6. باب: وتر کے بعد کی دعا کا بیان۔
Chapter: Supplicating After Witr.
حدیث نمبر: 1431
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عوف، حدثنا عثمان بن سعيد، عن ابي غسان محمد بن مطرف المدني، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار،عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من نام عن وتره او نسيه فليصله إذا ذكره".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي غَسَّانَ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ الْمَدَنِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ،عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرِهِ أَوْ نَسِيَهُ فَلْيُصَلِّهِ إِذَا ذَكَرَهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص وتر پڑھے بغیر سو جائے یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آ جائے اسے پڑھ لے ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: یہ حکم مستحب ہے واجب نہیں، جیسا کہ بعض روایتوں میں رات کے وظیفہ کے بارے میں آیا ہے کہ اگر رات کو نہ پڑھ سکے تو دن میں قضا کرے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 225 (الوتر 9) (465)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 122 (1188)، (تحفة الأشراف:4168)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/31، 44) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abu Saeed al-Khudri: The Prophet ﷺ said: If anyone oversleeps and misses the witr, or forgets it, he should pray when he remembers.
USC-MSA web (English) Reference: Book 8 , Number 1426


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (1279)
وللحديث شواھد كثيرة عند البخاري (1178، 1981) ومسلم (721) وغيرھما

   جامع الترمذي465سعد بن مالكمن نام عن الوتر أو نسيه فليصل إذا ذكر وإذا استيقظ
   سنن أبي داود1431سعد بن مالكمن نام عن وتره أو نسيه فليصله إذا ذكره
   سنن ابن ماجه1188سعد بن مالكمن نام عن الوتر أو نسيه فليصل إذا أصبح أو ذكره
   بلوغ المرام307سعد بن مالك من نام عن الوتر أو نسيه فليصل إذا أصبح أو ذكر

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1431 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1431  
1431. اردو حاشیہ: یہ حدیث اس باب سے متعلق نہیں ہے۔ شاید یہاں باب اور اس کا عنوان سہواً رہ گیا ہے (عون المعبود) بہرحال اس حدیث میں وتر کی اہمیت کا اثبات ہے۔ کہ اگر وہ سوتے رہ جانے سے یا بھول جانے کی وجہ سے رہ جائے۔ تو یاد آنے اور جاگنے کے بعد اسے پڑھ لے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وتر کی قضا بھی ضروری ہے۔ اور اس حدیث کی رو سے اسے فجر کی نماز سے پہلے یا نماز فجر کے بعد پڑھ لیا جائے۔ کیونکہ مکروہ اوقات میں قضا شدہ نماز کی قضا جائز ہے۔ ایک دوسری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ وتر اپنے وقت میں نہ پڑھے جاسکیں۔ تو پھر انہیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس موقف کی تایئد میں بھی بعض روایات آتی ہیں۔ لیکن بعض علماء کے نزدیک یہ حکم ان لوگوں کےلئے ہے۔ جو عمداً وتر چھوڑ دیں۔ دیکھئے۔ [حاشیة ترمذی۔ أحمد محمد شاکر: ج2، ص: 333]
اور بعض روایات میں نبی کریمﷺ کا یہ عمل بیان ہوا ہے۔ کہ اگر کبھی نیند یا بیماری کی وجہ سے آپ کا قیام الیل رہ جاتا تو آپ سورج نکلنے کے بعد بارہ رکعت پڑھتے۔ دیکھئے۔ [صحیح مسلم، صلاة المسافرین۔ باب: 18، حدیث: 746]
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اکثر علماء کی رائے یہ ہے۔ کہ جس کے وتر رہ جایئں۔ تو وہ سورج نکلنے کے بعد اس کی قضاء جفت کی شکل میں دے۔ یعنی ایک وتر کی جگہ د و رکعت تین وتر کی جگہ چار رکعت پڑھے۔ لیکن ہمارے خیال میں ایسا شخص کے لئے ضروری ہوگا۔جو قیام اللیل (نماز تہجد) کا عادی ہوگا۔ عام وتروں کی قضا وتر ہی کی شکل میں مناسب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1431   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 307  
´نفل نماز کا بیان`
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو سو جائے بغیر وتر پڑھے یا اسے یاد نہ رہے ہوں تو اسے چاہیئے کہ صبح کے وقت پڑھ لے یا پھر جب اسے یاد آئے۔
اسے نسائی کے علاوہ پانچوں نے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 307»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب في الدعاء بعد الوتر، حديث:1431، والترمذي، الوتر، حديث:465، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1188، وأحمد:3 /31.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب وتر کسی طرح پڑھنے سے رہ جائیں تو انھیں بہرصورت پڑھنا چاہیے۔
اس سے نماز وتر کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔
وتروں کی قضا سے متعلق دیکھیے‘ حدیث: ۳۰۰۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 307   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1188  
´سو جانے یا بھولنے کی وجہ سے وتر فوت ہو جائے تو کیا کرے؟`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو نماز وتر سے سو جائے، یا اسے بھول جائے، تو صبح کے وقت یا جب یاد آ جائے پڑھ لے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1188]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
اس حدیث میں نماز وتر کی اہمیت کا اثبات ہے۔
اگر وہ سوئے رہ جانے سے یا بھول جانے کی وجہ سے رہ جائے تو یاد آنے اور جاگنے کے بعد اسے پڑھ لے۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وتر کی قضا بھی ضروری ہے۔
اور اس حدیث کی رو سے اسے فجر کی نماز سے پہلے یا فجر کی نماز کے بعد پڑھ لیا جائے۔
کیونکہ مکروہ اوقات میں قضا شدہ نماز کی قضا جائز ہے۔
ایک دوسری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ وتر اپنے وقت میں پڑھے نہ جا سکیں تو پھر انھیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں اس موقف کی تایئد میں بھی بعض روایات آتی ہیں۔
لیکن بعض علماء کے نزدیک یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے۔
جو عمداً وتر چھوڑ دیں۔
دیکھئے: (حاشہ ترمذی احمد محمد شاکر 333/2)
اور بعض روایات میں نبی کریمﷺ کا یہ عمل بیان ہوا ہے کہ اگر نیند یا بیماری کی وجہ سےآپ کا قیام اللیل رہ جاتا تو آپ سورج نکلنے کے بعد بارہ رکعت پڑھتے۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب: 18، حدیث: 746)
اس حدیث سے استدلا ل کرتے ہوئے اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ جس کے وتر رہ جایئں تو وہ سورج نکلنے کے بعد اس کی قضا جفت کی شکل میں دے۔
یعنی ایک وتر کی جگہ دو رکعت تین وتر کی جگہ چار رکعت پرھے۔
لیکن ہمارے خیال میں ایسااس شخص کے لئے ضروری ہوگا جو قیام اللیل (نماز تہجد)
کاعادی ہو عام شخص کے لئے وتروں کی قضا وتر ہی شکل میں مناسب معلو م ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1188   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 465  
´وتر پڑھے بغیر سو جانے یا وتر کے بھول جانے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے یا جاگے پڑھ لے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 465]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم متکلم فیہ راوی ہیں لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 465   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.