قال يحيى: سئل مالك، هل يرمى عن الصبي والمريض؟ فقال: نعم، ويتحرى المريض حين يرمى عنه، فيكبر وهو في منزله، ويهريق دما، فإن صح المريض في ايام التشريق، رمى الذي رمي عنه، واهدى وجوبا قَالَ يَحْيَى: سُئِلَ مَالِك، هَلْ يُرْمَى عَنِ الصَّبِيِّ وَالْمَرِيضِ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَيَتَحَرَّى الْمَرِيضُ حِينَ يُرْمَى عَنْهُ، فَيُكَبِّرُ وَهُوَ فِي مَنْزِلِهِ، وَيُهَرِيقُ دَمًا، فَإِنْ صَحَّ الْمَرِيضُ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، رَمَى الَّذِي رُمِيَ عَنْهُ، وَأَهْدَى وُجُوبًا
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ لڑکے اور مریض کی طرف سے رمی کرنا درست ہے؟ جواب دیا: ہاں درست ہے، مگر مریض اپنے ڈیرے میں اس وقت تکبیر کہے وقت تاک کر، اور ایک قربانی کرے، پھر اگر وہ مریض ایامِ تشریق کے اندر اچھا ہو جائے تو اپنے آپ وہ رمی ادا کرے اور ہدی دے۔
. قال مالك: لا ارى على الذي يرمي الجمار، او يسعى بين الصفا، والمروة، وهو غير متوضئ إعادة ولكن لا يتعمد ذلك. قَالَ مَالِك: لَا أَرَى عَلَى الَّذِي يَرْمِي الْجِمَارَ، أَوْ يَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، وَهُوَ غَيْرُ مُتَوَضٍّئ إِعَادَةً وَلَكِنْ لَا يَتَعَمَّدُ ذَلِكَ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص بے وضو کنکریاں مارے یا صفا مروہ کے بیچ میں دوڑے تو اس پر اعادہ لازم نہیں، مگر جان بوجھ کر ایسا نہ کرے۔