وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن عطاء بن ابي رباح انه سمعه يذكر، انه " ارخص للرعاء ان يرموا بالليل"، يقول: في الزمان الاول .وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَذْكُرُ، أَنَّهُ " أُرْخِصَ لِلرِّعَاءِ أَنْ يَرْمُوا بِاللَّيْلِ"، يَقُولُ: فِي الزَّمَانِ الْأَوَّلِ .
حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ زمانۂ اوّل میں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں) اونٹ چرانے والے کو اجازت تھی رات کو رمی کرنے کی۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9780، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 14310، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 219»
قال مالك: تفسير الحديث الذي ارخص فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم لرعاء الإبل في تاخير رمي الجمار، فيما نرى والله اعلم انهم يرمون يوم النحر، فإذا مضى اليوم الذي يلي يوم النحر، رموا من الغد وذلك يوم النفر الاول، فيرمون لليوم الذي مضى، ثم يرمون ليومهم ذلك، لانه لا يقضي احد شيئا، حتى يجب عليه، فإذا وجب عليه، ومضى كان القضاء بعد ذلك، فإن بدا لهم النفر، فقد فرغوا، وإن اقاموا إلى الغد، رموا مع الناس يوم النفر الآخر، ونفروا قَالَ مَالِك: تَفْسِيرُ الْحَدِيثِ الَّذِي أَرْخَصَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرِعَاءِ الْإِبِلِ فِي تَأْخِيرِ رَمْيِ الْجِمَارِ، فِيمَا نُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَرْمُونَ يَوْمَ النَّحْرِ، فَإِذَا مَضَى الْيَوْمُ الَّذِي يَلِي يَوْمَ النَّحْرِ، رَمَوْا مِنَ الْغَدِ وَذَلِكَ يَوْمُ النَّفْرِ الْأَوَّلِ، فَيَرْمُونَ لِلْيَوْمِ الَّذِي مَضَى، ثُمَّ يَرْمُونَ لِيَوْمِهِمْ ذَلِكَ، لِأَنَّهُ لَا يَقْضِي أَحَدٌ شَيْئًا، حَتَّى يَجِبَ عَلَيْهِ، فَإِذَا وَجَبَ عَلَيْهِ، وَمَضَى كَانَ الْقَضَاءُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَإِنْ بَدَا لَهُمُ النَّفْرُ، فَقَدْ فَرَغُوا، وَإِنْ أَقَامُوا إِلَى الْغَدِ، رَمَوْا مَعَ النَّاسِ يَوْمَ النَّفْرِ الْآخِرِ، وَنَفَرُوا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ عاصم بن عدی کی حدیث جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی ہے اونٹ چرانے والوں کو رمی جمار میں، اس کی تفسیر یہ ہے کہ وہ رمی کریں یوم النحر کو، پھر جب گیارہویں تاریخ گزر جائے تو بارہویں تاریخ کو گیارہویں کی رمی کر کے بارہویں کی رمی بھی کریں، پھر اگر بارہویں کو ان کا جانا ہو جائے تو بہتر ہے، ورنہ تیرہویں تاریخ کو اگر ٹھہریں تو لوگوں کے ساتھ رمی کر کے جائیں۔