موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الزَّكَاةِ
کتاب: زکوٰۃ کے بیان میں
22. بَابُ مَا لَا زَكَاةَ فِيهِ مِنَ الْفَوَاكِهِ وَالْقَضْبِ وَالْبُقُولِ
جن میووں اور ساگوں اور ترکاریوں میں زکوٰۃ نہیں ہے ان کا بیان
قَالَ مَالِكٌ: السُّنَّةُ الَّتِي لَا اخْتِلَافَ فِيهَا عِنْدَنَا، وَالَّذِي سَمِعْتُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُ لَيْسَ فِي شَيْءٍ مِنَ الْفَوَاكِهِ كُلِّهَا صَدَقَةٌ: الرُّمَّانِ، وَالْفِرْسِكِ وَالتِّينِ، وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ وَمَا لَمْ يُشْبِهْهُ. إِذَا كَانَ مِنَ الْفَوَاكِهِ. قَالَ: وَلَا فِي الْقَضْبِ وَلَا فِي الْبُقُولِ كُلِّهَا صَدَقَةٌ. وَلَا فِي أَثْمَانِهَا إِذَا بِيعَتْ صَدَقَةٌ، حَتَّى يَحُولَ عَلَى أَثْمَانِهَا الْحَوْلُ مِنْ يَوْمِ بَيْعِهَا، وَيَقْبِضُ صَاحِبُهَا ثَمَنَهَا وَهُوَ نِصَابٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک اس سنّت میں اختلاف نہیں ہے، اور ہم نے یہی سنا ہے اہلِ علم سے کہ کسی میوے میں زکوٰۃ نہیں ہے: انار، اور شفتالو، اور انجیر میں اور جو ان کے مشابہ ہیں میووں میں سے، اسی طرح زکوٰۃ نہیں ہے ساگوں اور ترکاریوں میں، اور نہ اس کی زرِ قیمت میں جب تک کہ اس پر ایک سال نہ گزرے بیع کے روز سے، اور قبضِ ثمن کے روز سے، اس وقت اس کے مالک پر زکوٰۃ واجب ہوگی اگر ایک سال تک اس کو روک رکھا ہو بعد زکوٰۃ کے۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 559، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 36ق»