حدثني مالك، عن زريق بن حكيم الايلي ، ان رجلا، يقال له مصباح، استعان ابنا له، فكانه استبطاه، فلما جاءه، قال له: يا زان. قال زريق: فاستعداني عليه، فلما اردت ان اجلده، قال ابنه: والله لئن جلدته، لابوءن على نفسي بالزنا. فلما قال ذلك، اشكل علي امره، فكتبت فيه إلى عمر بن عبد العزيز وهو الوالي يومئذ اذكر له ذلك، فكتب إلي عمر: ان" اجز عفوه". قال زريق: وكتبت إلى عمر بن عبد العزيز ايضا: ارايت رجلا افتري عليه او على ابويه وقد هلكا او احدهما؟ قال: فكتب إلي عمر : " إن عفا فاجز عفوه في نفسه، وإن افتري على ابويه وقد هلكا او احدهما فخذ له بكتاب الله إلا ان يريد سترا" . حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ زُرَيْقِ بْنِ حَكِيمٍ الْأَيْلِيِّ ، أَنَّ رَجُلًا، يُقَالُ لَهُ مِصْبَاحٌ، اسْتَعَانَ ابْنًا لَهُ، فَكَأَنَّهُ اسْتَبْطَأَهُ، فَلَمَّا جَاءَهُ، قَالَ لَهُ: يَا زَانٍ. قَالَ زُرَيْقٌ: فَاسْتَعْدَانِي عَلَيْهِ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَجْلِدَهُ، قَالَ ابْنُهُ: وَاللَّهِ لَئِنْ جَلَدْتَهُ، لَأَبُوءَنَّ عَلَى نَفْسِي بِالزِّنَا. فَلَمَّا قَالَ ذَلِكَ، أَشْكَلَ عَلَيَّ أَمْرُهُ، فَكَتَبْتُ فِيهِ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ الْوَالِي يَوْمَئِذٍ أَذْكُرُ لَهُ ذَلِكَ، فَكَتَبَ إِلَيَّ عُمَرُ: أَنْ" أَجِزْ عَفْوَهُ". قَالَ زُرَيْقٌ: وَكَتَبْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَيْضًا: أَرَأَيْتَ رَجُلًا افْتُرِيَ عَلَيْهِ أَوْ عَلَى أَبَوَيْهِ وَقَدْ هَلَكَا أَوْ أَحَدُهُمَا؟ قَالَ: فَكَتَبَ إِلَيَّ عُمَرُ : " إِنْ عَفَا فَأَجِزْ عَفْوَهُ فِي نَفْسِهِ، وَإِنِ افْتُرِيَ عَلَى أَبَوَيْهِ وَقَدْ هَلَكَا أَوْ أَحَدُهُمَا فَخُذْ لَهُ بِكِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنْ يُرِيدَ سِتْرًا" .
حضرت زریق بن حکیم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے جس کا نام مصباح تھا، اپنے بیٹے کو کسی کام کے واسطے بلایا، اس نے دیر کی، جب آیا تو مصباح نے کہا کہ اے زانی! کہا زریق نے: اس لڑکے نے میرے پاس فریاد کی، میں نے جب اس کے باپ کو حد مارنی چاہی تو وہ لڑکا بولا: اگر تم میرے باپ کو کوڑوں سے مارو گے تو میں زنا کا اقرار کر لوں گا، میں یہ سن کر حیران ہوا اور اس مقدمے کا فیصلہ کرنا مجھ پر دشوار ہوا تو میں نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھا، وہ اس زمانے میں حاکم تھے مدینہ کے (سلمان بن عبدالملک کی طرف سے)۔ عمر بن عبدالعزیز نے جواب لکھا کہ لڑکے کے عفو کو جائز رکھ (یعنی بیٹے نے اگر باپ کو حد معاف کردی ہے تو عفو صحیح ہے)۔ زریق نے کہا: میں نے عمر بن عبدالعزیز کو یہ بھی لکھا تھا کہ اگر کوئی شخص دوسرے پر تہمت زنا کی لگائے، یا اس کے ماں باپ کو، اور ماں باپ اس کے مر گئے ہوں یا دونوں میں سے ایک مر گیا ہو، تو پھر کیا کرے؟ عمر بن عبدالعزیز نے جواب میں لکھا کہ جس شخص کو تہمت زنا کی لگائے، اگر وہ معاف کر دے تو عفو درست ہے، لیکن اگر اس کے والدین کو تہمت زنا کی لگائے تو اس کا عفو کر دینا درست نہیں جب کہ والدین مر گئے ہوں، یا ان دو میں سے ایک مر گیا ہو، بلکہ حد لگا اس کو موافق کتاب اللہ کے، مگر جب بیٹا اپنے والدین کا حال چھپانے کے واسطے عفو کر دے تو عفو درست ہے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13811، 13812، 13813، 13817، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 28824، 29496، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 18»
قال يحيى: سمعت مالكا، يقول: وذلك ان يكون الرجل المفترى عليه يخاف إن كشف ذلك منه ان تقوم عليه بينة، فإذا كان على ما وصفت فعفا، جاز عفوهقَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ: وَذَلِكَ أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ الْمُفْتَرَى عَلَيْهِ يَخَافُ إِنْ كُشِفَ ذَلِكَ مِنْهُ أَنْ تَقُومَ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ، فَإِذَا كَانَ عَلَى مَا وَصَفْتُ فَعَفَا، جَازَ عَفْوُهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یعنی اس کو خوف ہو اگر میں تہمت لگانے والے کو معاف نہ کروں گا تو والدین کا زنا گواہوں سے ثابت ہوجائے گا، اس وجہ سے عفو کردے تو عفو درست ہے۔