وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن القاسم بن محمد ، انه قال: اتت الجدتان إلى ابي بكر الصديق ، فاراد ان يجعل السدس للتي من قبل الام، فقال له رجل من الانصار: اما إنك تترك التي لو ماتت وهو حي كان إياها يرث، " فجعل ابو بكر السدس بينهما" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَتِ الْجَدَّتَانِ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ ، فَأَرَادَ أَنْ يَجْعَلَ السُّدُسَ لِلَّتِي مِنْ قِبَلِ الْأُمِّ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: أَمَا إِنَّكَ تَتْرُكُ الَّتِي لَوْ مَاتَتْ وَهُوَ حَيٌّ كَانَ إِيَّاهَا يَرِثُ، " فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ السُّدُسَ بَيْنَهُمَا"
حضرت ابوبکر بن عبدالرحمٰن حصّہ نہیں دلاتے تھے مگر نانی کو یا دادی کو۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ نانی ماں کے ہوتے ہوئے کچھ نہ پائے گی، البتہ اگر ماں نہ ہو تو اس کو چھٹا حصّہ ملے گا، اور دادی ماں کے یا باپ کے ہوتے ہوئے کچھ نہ پائے گی، جب ماں باپ نہ ہوں تو اس کو چھٹا حصّہ ملے گا۔ اگر نانی اور دادی دونوں ہوں اور میّت کے ماں باپ جو نانی دادی سے زیادہ قریب ہیں نہ ہوں تو ان میں سے نانی اگر میّت کے ساتھ زیادہ قریب ہوگی تو اسی کو چھٹا حصّہ ملے گا(1)، اور جو دادی زیادہ قریب ہوگی(2) یا دونوں برابر ہوں(3) تو چھٹے میں دونوں شریک ہوں گے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میراث کسی کے واسطے نہیں ہے دادیوں اور نانیوں میں سے، مگر ماں کی ماں کو اگرچہ کتنی ہی دور ہو جائے(1)، ان کے سوا اور نانیوں(2) دادیوں(3) کو میراث (دینا مقرر) نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترکہ دلایا نانی کو، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اس کا پوچھا، جب ان کو بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نانی کو ترکہ دلایا، انہوں نے دلایا، بعد اس کے دادی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے وقت میں آئی، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں فرائض کو بڑھا نہیں سکتا، لیکن اگر تو بھی ہو اور نانی بھی ہو تو دونوں چھٹے حصّے کو بانٹ لیں، اور جو کوئی تم میں سے تنہا ہو تو وہ پورا چھٹا لے لے(4)۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب سے دین اسلام شروع ہوا ہے آج تک سوائے ان نانی اور دادی کے اور قسم کی نانی دادی کو کسی نے میراث نہیں دلائی۔
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا، الذي لا اختلاف فيه، والذي ادركت عليه اهل العلم ببلدنا، ان الجدة ام الام لا ترث مع الام دنيا شيئا، وهي فيما سوى ذلك يفرض لها السدس فريضة. وان الجدة ام الاب لا ترث مع الام، ولا مع الاب شيئا. وهي فيما سوى ذلك يفرض لها السدس فريضة. فإذا اجتمعت الجدتان ام الاب، وام الام، وليس للمتوفى دونهما اب ولا ام. قال مالك: فإني سمعت ان ام الام، إن كانت اقعدهما، كان لها السدس، دون ام الاب. وإن كانت ام الاب اقعدهما، او كانتا في القعدد من المتوفى، بمنزلة سواء فإن السدس بينهما، نصفان. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ، وَالَّذِي أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا، أَنَّ الْجَدَّةَ أُمَّ الْأُمِّ لَا تَرِثُ مَعَ الْأُمِّ دِنْيَا شَيْئًا، وَهِيَ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ يُفْرَضُ لَهَا السُّدُسُ فَرِيضَةً. وَأَنَّ الْجَدَّةَ أُمَّ الْأَبِ لَا تَرِثُ مَعَ الْأُمِّ، وَلَا مَعَ الْأَبِ شَيْئًا. وَهِيَ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ يُفْرَضُ لَهَا السُّدُسُ فَرِيضَةً. فَإِذَا اجْتَمَعَتِ الْجَدَّتَانِ أُمُّ الْأَبِ، وَأُمُّ الْأُمِّ، وَلَيْسَ لِلْمُتَوَفَّى دُونَهُمَا أَبٌ وَلَا أُمٌّ. قَالَ مَالِكٌ: فَإِنِّي سَمِعْتُ أَنَّ أُمَّ الْأُمِّ، إِنْ كَانَتْ أَقْعَدَهُمَا، كَانَ لَهَا السُّدُسُ، دُونَ أُمِّ الْأَبِ. وَإِنْ كَانَتْ أُمُّ الْأَبِ أَقْعَدَهُمَا، أَوْ كَانَتَا فِي الْقُعْدَدِ مِنَ الْمُتَوَفَّى، بِمَنْزِلَةٍ سَوَاءٍ فَإِنَّ السُّدُسَ بَيْنَهُمَا، نِصْفَانِ.
قال مالك: ولا ميراث لاحد من الجدات. إلا للجدتين. لانه بلغني ان رسول اللٰه صلى الله عليه وسلم ورث الجدة. ثم سال ابو بكر عن ذلك. حتى اتاه الثبت عن رسول اللٰه صلى الله عليه وسلم، انه ورث الجدة. فانفذه. لها ثم اتت الجدة الاخرى إلى عمر بن الخطاب، فقال لها: ما انا بزائد في الفرائض شيئا. فإن اجتمعتما، فهو بينكما وايتكما خلت به فهو لها. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا مِيرَاثَ لِأَحَدٍ مِنَ الْجَدَّاتِ. إِلَّا لِلْجَدَّتَيْنِ. لِأَنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَّثَ الْجَدَّةَ. ثُمَّ سَأَلَ أَبُو بَكْرٍ عَنْ ذَلِكَ. حَتَّى أَتَاهُ الثَّبَتُ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ وَرَّثَ الْجَدَّةَ. فَأَنْفَذَهُ. لَهَا ثُمَّ أَتَتِ الْجَدَّةُ الْأُخْرَى إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَهَا: مَا أَنَا بِزَائِدٍ فِي الْفَرَائِضِ شَيْئًا. فَإِنِ اجْتَمَعْتُمَا، فَهُوَ بَيْنَكُمَا وَأَيَّتُكُمَا خَلَتْ بِهِ فَهُوَ لَهَا.
قال مالك: ثم لم نعلم احدا ورث غير جدتين. منذ كان الإسلام إلى اليوم. قَالَ مَالِكٌ: ثُمَّ لَمْ نَعْلَمْ أَحَدًا وَرَّثَ غَيْرَ جَدَّتَيْنِ. مُنْذُ كَانَ الْإِسْلَامُ إِلَى الْيَوْمِ.