حدثني يحيى، عن مالك، عن محمد بن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن عبد الرحمن بن حنظلة الزرقي، انه اخبره عن مولى لقريش كان قديما، يقال له: ابن مرسى انه قال: كنت جالسا عند عمر بن الخطاب فلما صلى الظهر، قال:" يا يرفا هلم ذلك الكتاب. لكتاب كتبه في شان العمة، فنسال عنها ونستخبر عنها، فاتاه به يرفا. فدعا بتور او قدح فيه ماء. فمحا ذلك الكتاب فيه. ثم قال: «لو رضيك الله وارثة اقرك لو رضيك الله اقرك» حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَنْظَلَةَ الزُّرَقِيّ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ مَوْلًى لِقُرَيْشٍ كَانَ قَدِيمًا، يُقَالُ لَهُ: ابْنُ مِرْسَى أَنَّهُ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَلَمَّا صَلَّى الظُّهْرَ، قَالَ:" يَا يَرْفَا هَلُمَّ ذَلِكَ الْكِتَابَ. لِكِتَابٍ كَتَبَهُ فِي شَأْنِ الْعَمَّةِ، فَنَسْأَلَ عَنْهَا وَنَسْتَخْبِرَ عَنْهَا، فَأَتَاهُ بِهِ يَرْفَا. فَدَعَا بِتَوْرٍ أَوْ قَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ. فَمَحَا ذَلِكَ الْكِتَابَ فِيهِ. ثُمَّ قَالَ: «لَوْ رَضِيَكِ اللَّهُ وَارِثَةً أَقَرَّكِ لَوْ رَضِيَكِ اللَّهُ أَقَرَّكِ»
ایک مولیٰ سے قریش کے روایت ہے کہ جس کو ابن موسیٰ کہتے تھے، کہا کہ میں بیٹھا تھا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس، انہوں نے ظہر کی نماز پڑھ کر یرفا (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے غلام) سے کہا: میری کتاب لے آنا، وہ کتاب جو انہوں نے لکھی تھی پھوپھی کی میراث کے بارے میں (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے سے پھوپھی کے واسطے میراث تجویز کی تھی، اس قیاس سے کہ پھوپھی کا وارث بھتیجا ہوتا ہے وہ بھی اس کی وارث ہوگی)۔ تو ہم لوگوں سے پوچھیں اور مشورہ لیں (بعد مشورے کے معلوم ہوا کہ پھوپھی کو میراث نہیں)۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک کڑائی یا پیالہ منگایا جس میں پانی تھا، اور اس کتاب کو دھو ڈلا، اور فرمایا: اگر پھوپھی کو حصّہ دلانا اللہ کو منظور ہوتا تو اپنی کتاب میں ذکر فرماتا۔