وحدثني مالك، عن حميد بن قيس المكي، ان مكاتبا كان لابن المتوكل، هلك بمكة وترك عليه بقية من كتابته وديونا للناس وترك ابنته، فاشكل على عامل مكة القضاء فيه، فكتب إلى عبد الملك بن مروان يساله عن ذلك، فكتب إليه عبد الملك:" ان ابدا بديون الناس، ثم اقض ما بقي من كتابته، ثم اقسم ما بقي من ماله بين ابنته ومولاه" . وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ قَيْسٍ الْمَكِّيِّ، أَنّ مُكَاتَبًا كَانَ لِابْنِ الْمُتَوَكِّلِ، هَلَكَ بِمَكَّةَ وَتَرَكَ عَلَيْهِ بَقِيَّةً مِنْ كِتَابَتِهِ وَدُيُونًا لِلنَّاسِ وَتَرَكَ ابْنَتَهُ، فَأَشْكَلَ عَلَى عَامِلِ مَكَّةَ الْقَضَاءُ فِيهِ، فَكَتَبَ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ يَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ الْمَلِكِ:" أَنْ ابْدَأْ بِدُيُونِ النَّاسِ، ثُمَّ اقْضِ مَا بَقِيَ مِنْ كِتَابَتِهِ، ثُمَّ اقْسِمْ مَا بَقِيَ مِنْ مَالِهِ بَيْنَ ابْنَتِهِ وَمَوْلَاهُ" .
حضرت حمید بن قیس مکی سے روایت ہے کہ ایک مکاتب ابنِ متوکل کا مکّہ میں مر گیا، اور کچھ بدل کتابت اس پر باقی رہ گیا تھا، اور لوگوں کا قرض بھی تھا، اور ایک بیٹی چھوڑ گیا، تو مکّہ کے عامل کو اس باب میں حکم کرنا دشوار ہوا، تو اس نے عبدالملک بن مروان کو لکھا۔ عبدالملک نے اس کے جواب میں لکھا کہ پہلے لوگوں کا قرض ادا کر، پھر جس قدر بدل کتابت باقی رہ گیا ہے اس کو ادا کر، بعد اس کے جو کچھ بچے وہ اس کی بیٹی اور مولیٰ کو تقسیم کر دے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 15659، فواد عبدالباقي نمبر: 39 - كِتَابُ الْمُكَاتَبِ-ح: 3»
قال مالك: الامر عندنا انه ليس على سيد العبد ان يكاتبه إذا ساله ذلك، ولم اسمع ان احدا من الائمة اكره رجلا على ان يكاتب عبده، وقد سمعت بعض اهل العلم إذا سئل عن ذلك، فقيل له: إن الله تبارك وتعالى، يقول:«فكاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا» (سورة النور آية 33)، «يتلو هاتين الآيتين وإذا حللتم فاصطادوا» (سورة المائدة آية 2)،«فإذا قضيت الصلاة فانتشروا في الارض وابتغوا من فضل الله» (سورة الجمعة آية 10). قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّهُ لَيْسَ عَلَى سَيِّدِ الْعَبْدِ أَنْ يُكَاتِبَهُ إِذَا سَأَلَهُ ذَلِكَ، وَلَمْ أَسْمَعْ أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْأَئِمَّةِ أَكْرَهَ رَجُلًا عَلَى أَنْ يُكَاتِبَ عَبْدَهُ، وَقَدْ سَمِعْتُ بَعْضَ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا سُئِلَ عَنْ ذَلِكَ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، يَقُولُ:«فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا» (سورة النور آية 33)، «يَتْلُو هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا» (سورة المائدة آية 2)،«فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ» (سورة الجمعة آية 10).
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے: اگر غلام اپنے مولیٰ کو کہے: مجھ کو مکاتب کر دے، تو مولیٰ پر ضروری نہیں خواہ مخواہ مکاتب کرے، اور میں نے کسی عالم سے نہیں سنا کہ مولیٰ پر جبر ہوگا اپنے غلام کے مکاتب کرنے پر، اور جب وہ شخص ان سے اللہ جل جلالہُ کے اس قول کو بیان کرتا کہ ”مکاتب کرو اپنے غلاموں کو اگر اس میں بہتری جانو۔“ تو وہ یہ آیتیں پڑھتے: ”جب تم احرام کھول ڈالو شکار کرو۔“”جب نماز ہو جائے تو پھیل جاؤ زمین میں اور اللہ کا فضل ڈھونڈو۔“
قال مالك: وإنما ذلك امر اذن الله عز وجل فيه للناس وليس بواجب عليهم. قَالَ مَالِك: وَإِنَّمَا ذَلِكَ أَمْرٌ أَذِنَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ لِلنَّاسِ وَلَيْسَ بِوَاجِبٍ عَلَيْهِمْ.
ام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ بھی امر کا صیغہ ہے لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں لوگوں کو اجازت دی ہے۔ یہ امر ان کے لئے واجب قرار نہیں دیا۔
قال مالك: وسمعت بعض اهل العلم، يقول في قول الله تبارك وتعالى: «وآتوهم من مال الله الذي آتاكم» (سورة النور آية): إن ذلك ان يكاتب الرجل غلامه ثم يضع عنه من آخر كتابته شيئا مسمى. قَالَ مَالِك: وَسَمِعْتُ بَعْضَ أَهْلِ الْعِلْمِ، يَقُولُ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: «وَآتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ» (سورة النور آية): إِنَّ ذَلِكَ أَنْ يُكَاتِبَ الرَّجُلُ غُلَامَهُ ثُمَّ يَضَعُ عَنْهُ مِنْ آخِرِ كِتَابَتِهِ شَيْئًا مُسَمًّى.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے بعض اہلِ علم سے سنا اس آیت کی تفسیر میں ”دو تم اپنے مکاتبوں کو اس مال سے جو دیا تم کو اللہ تعالیٰ نے۔“ کہتے تھے: مراد اس آیت سے یہ ہے کہ آدمی اپنے غلام کو مکاتب کرے، پھر اس کے بدل کتابت میں سے کچھ معاف کردے۔
قال مالك: فهذا الذي سمعت من اهل العلم وادركت عمل الناس على ذلك عندنا. قَالَ مَالِك: فَهَذَا الَّذِي سَمِعْتُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَأَدْرَكْتُ عَمَلَ النَّاسِ عَلَى ذَلِكَ عِنْدَنَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے یہ اچھا سنا اور اسی پر لوگوں کو عمل کرتے ہوئے پایا۔
قال قال مالك: وقد بلغني، ان عبد الله بن عمر " كاتب غلاما له على خمسة وثلاثين الف درهم، ثم وضع عنه من آخر كتابته خمسة آلاف درهم" . قَالَ قَالَ مَالِك: وَقَدْ بَلَغَنِي، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ " كَاتَبَ غُلَامًا لَهُ عَلَى خَمْسَةٍ وَثَلَاثِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، ثُمَّ وَضَعَ عَنْهُ مِنْ آخِرِ كِتَابَتِهِ خَمْسَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ" .
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: مجھے یہ پہنچا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام کو مکاتب کیا پینتیس ہزار درہم پر، پھرآخر میں اسے پانچ ہزار درہم معاف کر دیئے۔
قال مالك: الامر عندنا ان المكاتب إذا كاتبه سيده تبعه ماله ولم يتبعه ولده، إلا ان يشترطهم في كتابته. قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّ الْمُكَاتَبَ إِذَا كَاتَبَهُ سَيِّدُهُ تَبِعَهُ مَالُهُ وَلَمْ يَتْبَعْهُ وَلَدُهُ، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَهُمْ فِي كِتَابَتِهِ.
ہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جب غلام مکاتب ہو جائے، اس کا مال اسی کو ملے گا۔ مگر اولاد اس کے عقد کتابت میں داخل نہ ہوگی، البتہ جب شرط لگائے تو اولاد بھی داخل ہوگی۔
قال يحيى: سمعت مالكا، يقول في المكاتب يكاتبه سيده وله جارية بها حبل منه، لم يعلم به هو ولا سيده يوم كتابته: فإنه لا يتبعه ذلك الولد، لانه لم يكن دخل في كتابته وهو لسيده، فاما الجارية فإنها للمكاتب لانها من ماله. قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ فِي الْمُكَاتَبِ يُكَاتِبُهُ سَيِّدُهُ وَلَهُ جَارِيَةٌ بِهَا حَبَلٌ مِنْهُ، لَمْ يَعْلَمْ بِهِ هُوَ وَلَا سَيِّدُهُ يَوْمَ كِتَابَتِهِ: فَإِنَّهُ لَا يَتْبَعُهُ ذَلِكَ الْوَلَدُ، لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ دَخَلَ فِي كِتَابَتِهِ وَهُوَ لِسَيِّدِهِ، فَأَمَّا الْجَارِيَةُ فَإِنَّهَا لِلْمُكَاتَبِ لِأَنَّهَا مِنْ مَالِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس شخص نے اپنے غلام کو مکاتب کیا اور اس غلام کی ایک لونڈی تھی جو حاملہ تھی اس سے، مگر حمل کا حال نہ غلام کو معلوم تھا نہ مولیٰ کو، تو وہ بچہ جب پیدا ہوگا مکاتب کو نہ ملے گا، بلکہ مولیٰ کو ملے گا، البتہ لونڈی مکاتب ہی کی رہے گی کیونکہ وہ اس کا مال ہے۔
قال مالك، في رجل ورث مكاتبا من امراته هو وابنها: إن المكاتب إن مات قبل ان يقضي كتابته اقتسما ميراثه على كتاب الله، وإن ادى كتابته ثم مات فميراثه لابن المراة وليس للزوج من ميراثه شيء. قَالَ مَالِك، فِي رَجُلٍ وَرِثَ مُكَاتَبًا مِنَ امْرَأَتِهِ هُوَ وَابْنُهَا: إِنَّ الْمُكَاتَبَ إِنْ مَاتَ قَبْلَ أَنْ يَقْضِيَ كِتَابَتَهُ اقْتَسَمَا مِيرَاثَهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، وَإِنْ أَدَّى كِتَابَتَهُ ثُمَّ مَاتَ فَمِيرَاثُهُ لِابْنِ الْمَرْأَةِ وَلَيْسَ لِلزَّوْجِ مِنْ مِيرَاثِهِ شَيْءٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر ایک عورت اپنا مکاتب چھوڑ کر مر گئی، اور اس کے دو وارث ہیں ایک خاوند اور ایک لڑکا اس عورت کا، پھر مکاتب مر گیا قبل ادا کرنے بدل کتابت کے، تو خاوند اور لڑکا موافق کتاب اللہ کے اس کی میراث کو تقسیم کرلیں گے۔ (ایک چوتھائی خاوند کا ہوگا اور باقی بیٹے کا)، اور جو بعد ادا کرنے بدل کتابت کے مرا، تو میراث اس کی سب بیٹے کو ملے گی، خاوند کو کچھ نہ ملے گا۔
قال مالك، في المكاتب يكاتب عبده، قال: ينظر في ذلك، فإن كان إنما اراد المحاباة لعبده وعرف ذلك منه بالتخفيف عنه، فلا يجوز ذلك، وإن كان إنما كاتبه على وجه الرغبة وطلب المال، وابتغاء الفضل والعون على كتابته، فذلك جائز له. قَالَ مَالِك، فِي الْمُكَاتَبِ يُكَاتِبُ عَبْدَهُ، قَالَ: يُنْظَرُ فِي ذَلِكَ، فَإِنْ كَانَ إِنَّمَا أَرَادَ الْمُحَابَاةَ لِعَبْدِهِ وَعُرِفَ ذَلِكَ مِنْهُ بِالتَّخْفِيفِ عَنْهُ، فَلَا يَجُوزُ ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَ إِنَّمَا كَاتَبَهُ عَلَى وَجْهِ الرَّغْبَةِ وَطَلَبِ الْمَالِ، وَابْتِغَاءِ الْفَضْلِ وَالْعَوْنِ عَلَى كِتَابَتِهِ، فَذَلِكَ جَائِزٌ لَهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر مکاتب اپنے غلام کو مکاتب کرے، تو دیکھیں گے اگر اس نے رعایت کے طور پر بدل کتابت کم ٹھہرایا ہے تو یہ کتابت جائز نہ ہوگی، اور جو بدل کتابت اپنا فائدہ دیکھ کر ٹھہرایا ہے تو جائز ہوگی۔
قال مالك، في رجل وطئ مكاتبة له: إنها إن حملت فهي بالخيار إن شاءت كانت ام ولد وإن شاءت قرت على كتابتها، فإن لم تحمل فهي على كتابتها. قَالَ مَالِك، فِي رَجُلٍ وَطِئَ مُكَاتَبَةً لَهُ: إِنَّهَا إِنْ حَمَلَتْ فَهِيَ بِالْخِيَارِ إِنْ شَاءَتْ كَانَتْ أُمَّ وَلَدٍ وَإِنْ شَاءَتْ قَرَّتْ عَلَى كِتَابَتِهَا، فَإِنْ لَمْ تَحْمِلْ فَهِيَ عَلَى كِتَابَتِهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص اپنی مکاتبہ لونڈی سے صحبت کرے اور وہ حاملہ ہوجائے، تو اس لونڈی کو اختیار ہے چاہے وہ اُم ولد بن کر رہے، چاہے اپنی کتابت قائم رکھے، اگر حاملہ نہ ہو تو وہ مکاتب رہے گی۔
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا في العبد يكون بين الرجلين: إن احدهما لا يكاتب نصيبه منه اذن له بذلك صاحبه او لم ياذن، إلا ان يكاتباه جميعا، لان ذلك يعقد له عتقا ويصير إذا ادى العبد ما كوتب عليه إلى ان يعتق نصفه، ولا يكون على الذي كاتب بعضه ان يستتم عتقه، فذلك خلاف ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اعتق شركا له في عبد قوم عليه قيمة العدل". قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِي الْعَبْدِ يَكُونُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ: إِنَّ أَحَدَهُمَا لَا يُكَاتِبُ نَصِيبَهُ مِنْهُ أَذِنَ لَهُ بِذَلِكَ صَاحِبُهُ أَوْ لَمْ يَأْذَنْ، إِلَّا أَنْ يُكَاتِبَاهُ جَمِيعًا، لِأَنَّ ذَلِكَ يَعْقِدُ لَهُ عِتْقًا وَيَصِيرُ إِذَا أَدَّى الْعَبْدُ مَا كُوتِبَ عَلَيْهِ إِلَى أَنْ يَعْتِقَ نِصْفُهُ، وَلَا يَكُونُ عَلَى الَّذِي كَاتَبَ بَعْضَهُ أَنْ يَسْتَتِمَّ عِتْقَهُ، فَذَلِكَ خِلَافُ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ قُوِّمَ عَلَيْهِ قِيمَةَ الْعَدْلِ".
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو غلام دو آدمیوں میں مشترکہ ہو اس کو کوئی مکاتب نہیں کر سکتا، اگرچہ دوسرا شریک اجازات بھی دے، بلکہ دونوں شریک مل کر مکاتب کرسکتے ہیں، کیونکہ اگر ایک شریک اپنے حصّہ کو مکاتب کردے گا اور مکاتب بدل کتابت ادا کردے گا تو اس قدر حصّہ آزاد ہونا پڑے گا، اب اس شریک پر جس نے کچھ حصّہ آزاد کیا لازم نہیں کہ دوسرے شریک کو ضمانت دے کر اس کی آزادی پوری کرے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو حکم فرمایا ہے: دوسرے شریک کے حصّہ کی قیمت ادا کرنے کا وہ عتاق میں ہے نہ کہ کتابت میں۔
قال مالك: فإن جهل ذلك حتى يؤدي المكاتب، او قبل ان يؤدي رد إليه الذي كاتبه ما قبض من المكاتب، فاقتسمه هو وشريكه على قدر حصصهما، وبطلت كتابته وكان عبدا لهما على حاله الاولى. قَالَ مَالِك: فَإِنْ جَهِلَ ذَلِكَ حَتَّى يُؤَدِّيَ الْمُكَاتَبُ، أَوْ قَبْلَ أَنْ يُؤَدِّيَ رَدَّ إِلَيْهِ الَّذِي كَاتَبَهُ مَا قَبَضَ مِنَ الْمُكَاتَبِ، فَاقْتَسَمَهُ هُوَ وَشَرِيكُهُ عَلَى قَدْرِ حِصَصِهِمَا، وَبَطَلَتْ كِتَابَتُهُ وَكَانَ عَبْدًا لَهُمَا عَلَى حَالِهِ الْأُولَى.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر اس شریک کو یہ مسئلہ معلوم نہ ہو، وہ اپنے حصّہ کو مکاتب کر کے کل یا بعض بدل کتابت وصول کر لے، تو جس قدر وصول کیا ہو اس کو وہ اور اس کا شریک اپنے حصّوں کے موافق بانٹ لیں، کتابت باطل ہو جائے گی، اور وہ مکاتب بدستور غلام رہے گا۔
قال مالك، في مكاتب بين رجلين، فانظره احدهما بحقه الذي عليه، وابى الآخر ان ينظره، فاقتضى الذي ابى ان ينظره بعض حقه، ثم مات المكاتب وترك مالا ليس فيه وفاء من كتابته. قَالَ مَالِك، فِي مُكَاتَبٍ بَيْنَ رَجُلَيْنِ، فَأَنْظَرَهُ أَحَدُهُمَا بِحَقِّهِ الَّذِي عَلَيْهِ، وَأَبَى الْآخَرُ أَنْ يُنْظِرَهُ، فَاقْتَضَى الَّذِي أَبَى أَنْ يُنْظِرَهُ بَعْضَ حَقِّهِ، ثُمَّ مَاتَ الْمُكَاتَبُ وَتَرَكَ مَالًا لَيْسَ فِيهِ وَفَاءٌ مِنْ كِتَابَتِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو، پھر ایک آدمی ان میں سے اس کو مہلت دے اور دوسرا نہ دے، اور جس شخص نے مہلت نہ دی وہ اپنا کچھ حق وصول کر لے، بعد اس کے مکاتب مرجائے اور اس قدر مال نہ چھوڑے کہ اس کے بدل کتابت کو کافی ہو، تو جس قدر مال چھوڑ گیا ہے تو پہلے دونوں شریک اپنے اپنے بقایا وصول کر کے جو کچھ بچے گا برابربانٹ لیں گے۔ اگر مکاتب عاجز ہوگا اور جس شخص نے مہلت نہ دی اس نے دوسرے شریک کی نسبت کچھ زیادہ وصول کرلیا ہے، تو غلام دونوں میں آدھا آدھا مشترک رہے گا
قال مالك: يتحاصان ما ترك بقدر ما بقي لهما عليه، ياخذ كل واحد منهما بقدر حصته، فإن ترك المكاتب فضلا عن كتابته، اخذ كل واحد منهما ما بقي من الكتابة، وكان ما بقي بينهما بالسواء، فإن عجز المكاتب وقد اقتضى الذي لم ينظره اكثر مما اقتضى صاحبه، كان العبد بينهما نصفين ولا يرد على صاحبه فضل ما اقتضى، لانه إنما اقتضى الذي له بإذن صاحبه، وإن وضع عنه احدهما الذي له ثم اقتضى صاحبه بعض الذي له عليه ثم عجز، فهو بينهما ولا يرد الذي اقتضى على صاحبه شيئا، لانه إنما اقتضى الذي له عليه، وذلك بمنزلة الدين للرجلين بكتاب واحد على رجل واحد، فينظره احدهما ويشح الآخر، فيقتضي بعض حقه ثم يفلس الغريم، فليس على الذي اقتضى ان يرد شيئا مما اخذ. قَالَ مَالِك: يَتَحَاصَّانِ مَا تَرَكَ بِقَدْرِ مَا بَقِيَ لَهُمَا عَلَيْهِ، يَأْخُذُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِقَدْرِ حِصَّتِهِ، فَإِنْ تَرَكَ الْمُكَاتَبُ فَضْلًا عَنْ كِتَابَتِهِ، أَخَذَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مَا بَقِيَ مِنَ الْكِتَابَةِ، وَكَانَ مَا بَقِيَ بَيْنَهُمَا بِالسَّوَاءِ، فَإِنْ عَجَزَ الْمُكَاتَبُ وَقَدِ اقْتَضَى الَّذِي لَمْ يُنْظِرْهُ أَكْثَرَ مِمَّا اقْتَضَى صَاحِبُهُ، كَانَ الْعَبْدُ بَيْنَهُمَا نِصْفَيْنِ وَلَا يَرُدُّ عَلَى صَاحِبِهِ فَضْلَ مَا اقْتَضَى، لِأَنَّهُ إِنَّمَا اقْتَضَى الَّذِي لَهُ بِإِذْنِ صَاحِبِهِ، وَإِنْ وَضَعَ عَنْهُ أَحَدُهُمَا الَّذِي لَهُ ثُمَّ اقْتَضَى صَاحِبُهُ بَعْضَ الَّذِي لَهُ عَلَيْهِ ثُمَّ عَجَزَ، فَهُوَ بَيْنَهُمَا وَلَا يَرُدُّ الَّذِي اقْتَضَى عَلَى صَاحِبِهِ شَيْئًا، لِأَنَّهُ إِنَّمَا اقْتَضَى الَّذِي لَهُ عَلَيْهِ، وَذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الدَّيْنِ لِلرَّجُلَيْنِ بِكِتَابٍ وَاحِدٍ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ، فَيُنْظِرُهُ أَحَدُهُمَا وَيَشِحُّ الْآخَرُ، فَيَقْتَضِي بَعْضَ حَقِّهِ ثُمَّ يُفْلِسُ الْغَرِيمُ، فَلَيْسَ عَلَى الَّذِي اقْتَضَى أَنْ يَرُدَّ شَيْئًا مِمَّا أَخَذَ.
اور جس نے زیادہ لیا ہے وہ اپنے شریک کو کچھ نہ پھیرے گا، کیونکہ اس نے اپنے شریک کی اجازت سے لیا ہے۔ اگر ایک نے اپنا حصّہ معاف کردیا تھا اور دوسرے نے کچھ وصول کیا، پھر غلام عاجز ہوگیا تو وہ غلام دونوں میں مشترک رہے گا، اور جس نے کچھ وصول کر لیا ہے وہ دوسرے شریک کو کچھ نہ دے گا، کیونکہ اس نے اپنا حق وصول کیا، اس کی مثال یہ ہے کہ دو آدمیوں کا قرض ایک ہی دستاویز کی رو سے ایک آدمی پر ہو، پھر ایک شخص اس کو مہلت دے اور دوسرا حرص کر کے کچھ وصول کر لے، بعد اس کے قرض دار مفلس ہو جائے، پھر جس شخص نے وصول کر لیا ہے وہ دوسرے شریک کو اس میں سے کچھ نہ دے گا۔
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا ان العبيد إذا كوتبوا جميعا كتابة واحدة فإن بعضهم حملاء عن بعض. وإنه لا يوضع عنهم لموت احدهم شيء. وإن قال احدهم: قد عجزت. والقى بيديه. فإن لاصحابه ان يستعملوه فيما يطيق من العمل. ويتعاونون بذلك في كتابتهم حتى يعتق بعتقهم إن عتقوا. ويرق برقهم إن رقوا. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنَّ الْعَبِيدَ إِذَا كُوتِبُوا جَمِيعًا كِتَابَةً وَاحِدَةً فَإِنَّ بَعْضَهُمْ حُمَلَاءُ عَنْ بَعْضٍ. وَإِنَّهُ لَا يُوضَعُ عَنْهُمْ لِمَوْتِ أَحَدِهِمْ شَيْءٌ. وَإِنْ قَالَ أَحَدُهُمْ: قَدْ عَجَزْتُ. وَأَلْقَى بِيَدَيْهِ. فَإِنَّ لِأَصْحَابِهِ أَنْ يَسْتَعْمِلُوهُ فِيمَا يُطِيقُ مِنَ الْعَمَلِ. وَيَتَعَاوَنُونَ بِذَلِكَ فِي كِتَابَتِهِمْ حَتَّى يَعْتِقَ بِعِتْقِهِمْ إِنْ عَتَقُوا. وَيَرِقَّ بِرِقِّهِمْ إِنْ رَقُّوا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ امر اتفاقی ہے کہ چند غلام اگر ایک ہی عقد میں مکاتب کیے جائیں تو ایک کا بار دوسرے کو اٹھانا پڑے گا، اگر ان میں سے کوئی مرجائے تو بدل کتابت کم نہ ہوگا، اگر کوئی ان میں سے عاجز ہو کر ہاتھ پاؤں چھوڑ دے تو اس کے ساتھیوں کو چاہیے کہ موافق طاقت کے اس سے مزدوری کرائیں، اور بدل کتابت کے ادا کرنے میں مدد لیں، اگر سب آزاد ہوں گے وہ بھی آزاد ہوگا، اور جو سب غلام ہوں گے وہ بھی غلام ہوگا۔
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا ان العبد إذا كاتبه سيده. لم ينبغ لسيده ان يتحمل له بكتابة عبده احد. إن مات العبد او عجز. وليس هذا من سنة المسلمين. وذلك انه إن تحمل رجل لسيد المكاتب بما عليه من كتابته. ثم اتبع ذلك سيد المكاتب قبل الذي تحمل له اخذ ماله باطلا. لا هو ابتاع المكاتب فيكون ما اخذ منه من ثمن شيء هو له. ولا المكاتب عتق فيكون في ثمن حرمة ثبتت له فإن عجز المكاتب رجع إلى سيده. وكان عبدا مملوكا له. وذلك ان الكتابة ليست بدين ثابت. يتحمل لسيد المكاتب بها. إنما هي شيء. إن اداه المكاتب عتق. وإن مات المكاتب وعليه دين لم يحاص الغرماء سيده بكتابته. وكان الغرماء اولى بذلك من سيده. وإن عجز المكاتب وعليه دين للناس. رد عبدا مملوكا لسيده. وكانت ديون الناس في ذمة المكاتب. لا يدخلون مع سيده في شيء من ثمن رقبته. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنَّ الْعَبْدَ إِذَا كَاتَبَهُ سَيِّدُهُ. لَمْ يَنْبَغِ لِسَيِّدِهِ أَنْ يَتَحَمَّلَ لَهُ بِكِتَابَةِ عَبْدِهِ أَحَدٌ. إِنْ مَاتَ الْعَبْدُ أَوْ عَجَزَ. وَلَيْسَ هَذَا مِنْ سُنَّةِ الْمُسْلِمِينَ. وَذَلِكَ أَنَّهُ إِنْ تَحَمَّلَ رَجُلٌ لِسَيِّدِ الْمُكَاتَبِ بِمَا عَلَيْهِ مِنْ كِتَابَتِهِ. ثُمَّ اتَّبَعَ ذَلِكَ سَيِّدُ الْمُكَاتَبِ قِبَلَ الَّذِي تَحَمَّلَ لَهُ أَخَذَ مَالَهُ بَاطِلًا. لَا هُوَ ابْتَاعَ الْمُكَاتَبَ فَيَكُونَ مَا أُخِذَ مِنْهُ مِنْ ثَمَنِ شَيْءٍ هُوَ لَهُ. وَلَا الْمُكَاتَبُ عَتَقَ فَيَكُونَ فِي ثَمَنِ حُرْمَةٍ ثَبَتَتْ لَهُ فَإِنْ عَجَزَ الْمُكَاتَبُ رَجَعَ إِلَى سَيِّدِهِ. وَكَانَ عَبْدًا مَمْلُوكًا لَهُ. وَذَلِكَ أَنَّ الْكِتَابَةَ لَيْسَتْ بِدَيْنٍ ثَابِتٍ. يُتَحَمَّلُ لِسَيِّدِ الْمُكَاتَبِ بِهَا. إِنَّمَا هِيَ شَيْءٌ. إِنْ أَدَّاهُ الْمُكَاتَبُ عَتَقَ. وَإِنْ مَاتَ الْمُكَاتَبُ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ لَمْ يُحَاصَّ الْغُرَمَاءَ سَيِّدُهُ بِكِتَابَتِهِ. وَكَانَ الْغُرَمَاءُ أَوْلَى بِذَلِكَ مِنْ سَيِّدِهِ. وَإِنْ عَجَزَ الْمُكَاتَبُ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ لِلنَّاسِ. رُدَّ عَبْدًا مَمْلُوكًا لِسَيِّدِهِ. وَكَانَتْ دُيُونُ النَّاسِ فِي ذِمَّةِ الْمُكَاتَبِ. لَا يَدْخُلُونَ مَعَ سَيِّدِهِ فِي شَيْءٍ مِنْ ثَمَنِ رَقَبَتِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ امر اتفاقی ہے کہ بدل کتابت کی ضمانت نہیں ہو سکتی، تو غلام کو جب مولیٰ مکاتب کرے تو بدل کتابت کی ضمانت اگر غلام عاجز ہو جائے یا مر جائے کسی سے نہیں لے سکتا، نہ یہ مسلمانوں کا طریقہ ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص مکاتب کے بدل کتابت کا ضامن ہو اور مولیٰ اس کا پیچھا کرے، ضامن سے بدل کتابت وصول کرے تو یہ وصول کرنا ناجائز طور پر ہوگا، کیونکہ ضامن نے نہ مکاتب کو خرید کیا تاکہ جو مال دیا ہے اس کے عوض میں آجائے، نہ مکاتب آزاد ہوا کہ وہ مال اس کی آزادی کا بدلہ ہو، بلکہ مکاتب جب عاجز ہو گیا تو پھر اپنے مولیٰ کا غلام ہوگیا اس کی وجہ یہ ہے کہ کتابتِ دین صحیح نہیں جس کی ضمانت درست ہو۔ بلکہ کتابت ایک شے ہے، اگر مکا تب اس کو آزاد کر دے گا آزاد ہو جائے گا، ورنہ غلام ہو جائے گا، اسی واسطے اگر مکاتب مر جائے اور لوگوں کا قرض دار ہو، تو مولیٰ اور قرض خواہوں کے برابر حصّے نہ ہوں گے، بلکہ قرض خواہ اس کے مال کے زیادہ حقدار ہوں گے، اگر مکاتب عاجز ہو جائے اور لوگوں کا قرض دار ہو تو وہ اپنے مولیٰ کا غلام ہو جائے گا، اور قرض خواہوں کا قرضہ اس کے ذمہ رہے گا، جب آزاد ہو اس وقت اس کا پیچھا کریں گے، یہ اختیار نہ ہوگا اس کو بیچ کر اپنا قرضہ وصول کریں۔
قال مالك: إذا كاتب القوم جميعا كتابة واحدة. ولا رحم بينهم يتوارثون بها. فإن بعضهم حملاء عن بعض. ولا يعتق بعضهم دون بعض حتى يؤدوا الكتابة كلها. فإن مات احد منهم وترك مالا هو اكثر من جميع ما عليهم. ادي عنهم جميع ما عليهم. وكان فضل المال لسيده. ولم يكن لمن كاتب معه من فضل المال شيء. ويتبعهم السيد بحصصهم التي بقيت عليهم من الكتابة التي قضيت من مال الهالك لان الهالك إنما كان تحمل عنهم فعليهم ان يؤدوا ما عتقوا به من ماله. وإن كان للمكاتب الهالك ولد حر لم يولد في الكتابة. ولم يكاتب عليه لم يرثه لان المكاتب لم يعتق حتى مات. قَالَ مَالِكٌ: إِذَا كَاتَبَ الْقَوْمُ جَمِيعًا كِتَابَةً وَاحِدَةً. وَلَا رَحِمَ بَيْنَهُمْ يَتَوَارَثُونَ بِهَا. فَإِنَّ بَعْضَهُمْ حُمَلَاءُ عَنْ بَعْضٍ. وَلَا يَعْتِقُ بَعْضُهُمْ دُونَ بَعْضٍ حَتَّى يُؤَدُّوا الْكِتَابَةَ كُلَّهَا. فَإِنْ مَاتَ أَحَدٌ مِنْهُمْ وَتَرَكَ مَالًا هُوَ أَكْثَرُ مِنْ جَمِيعِ مَا عَلَيْهِمْ. أُدِّيَ عَنْهُمْ جَمِيعُ مَا عَلَيْهِمْ. وَكَانَ فَضْلُ الْمَالِ لِسَيِّدِهِ. وَلَمْ يَكُنْ لِمَنْ كَاتَبَ مَعَهُ مِنْ فَضْلِ الْمَالِ شَيْءٌ. وَيَتْبَعُهُمُ السَّيِّدُ بِحِصَصِهِمِ الَّتِي بَقِيَتْ عَلَيْهِمْ مِنَ الْكِتَابَةِ الَّتِي قُضِيَتْ مِنْ مَالِ الْهَالِكِ لِأَنَّ الْهَالِكَ إِنَّمَا كَانَ تَحَمَّلَ عَنْهُمْ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يُؤَدُّوا مَا عَتَقُوا بِهِ مِنْ مَالِهِ. وَإِنْ كَانَ لِلْمُكَاتَبِ الْهَالِكِ وَلَدٌ حُرٌّ لَمْ يُولَدْ فِي الْكِتَابَةِ. وَلَمْ يُكَاتَبْ عَلَيْهِ لَمْ يَرِثْهُ لِأَنَّ الْمُكَاتَبَ لَمْ يُعْتَقْ حَتَّى مَاتَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب غلام ایک ہی عقد میں مکاتب کیے جائیں اور ان میں آپس میں ایسی قرابت نہ ہو جس کے سبب سے ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں، تو وہ سب ایک دوسرے کے کفیل ہوں گے، کوئی ان میں سے بغیر دوسرے کے آزاد نہ ہو سکے گا۔ یہاں تک کہ بدل کتابت پورا پورا ادار کر دیں، اگر ان میں سے کوئی مر جائے اور اس قدر مال چھوڑ گیا جو سب کے بدل کتابت سے زیادہ ہے، تو اس مال میں سے بدل کتابت ادا کیا جائے گا، اور جو کچھ بچ رہے گا مولیٰ لے لے گا، اس کے ساتھیوں کو نہ ملے گا، پھر ایک غلام کی آزادی میں جس قدر روپیہ اس مال میں صرف ہوا ہے اس کو مولیٰ ہر ایک غلام سے مجرا لے گا۔ کیونکہ جو غلام مر گیا ہے وہ ان کا کفیل تھا، جس قدر روپیہ اس کا ان کی آزادی میں اٹھا ان کو ادا کرنا پڑے گا۔ اگر اس مکاتب کا جو مر گیا کوئی آزاد لڑکا ہو جو حالتِ کتابت میں پیدا نہ ہوا ہو، نہ عقدِ کتابت اس پر واقع ہوا ہو، تو وہ اس کا وارث نہ ہوگا، کیونکہ مکاتب مرتے وقت آزاد نہ تھا۔