وحدثني، عن مالك، انه بلغه، ان سعيد بن المسيب، وسليمان بن يسار، سئلا عن رجل زوج عبدا له جارية، فطلقها العبد البتة، ثم وهبها سيدها له، هل تحل له بملك اليمين؟ فقالا: " لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِكٍ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، وَسُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ، سُئِلَا عَنْ رَجُلٍ زَوَّجَ عَبْدًا لَهُ جَارِيَةً، فَطَلَّقَهَا الْعَبْدُ الْبَتَّةَ، ثُمَّ وَهَبَهَا سَيِّدُهَا لَهُ، هَلْ تَحِلُّ لَهُ بِمِلْكِ الْيَمِينِ؟ فَقَالَا: " لَا تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ"
سعید بن مسیّب اور سلیمان بن یسار سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے اپنے غلام کا اپنی لونڈی سے نکاح کر دیا، پھر غلام نے لونڈی کو دو طلاق دی اس کے بعد اس کے مولیٰ نے وہ لونڈی غلام کو ہبہ کر دی، اب وہ لونڈی غلام کو درست ہے یا نہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا: درست نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے ابن شہاب سے پوچھا: ایک شخص کے نکاح میں ایک لونڈی تھی، اس نے ایک طلاق دی پھر اس کو خرید لیا، تو وہ لونڈی حلال ہو جائے گی؟ جواب دیا: ملک یمین کی وجہ سے دو طلاق کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر تین طلاق دے چکا تھا تو حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک شخص نکاح کرے ایک لونڈی سے، پھر اس سے بچہ پیدا ہوا، اس کے بعد لونڈی کو خرید کر لے تو وہ لونڈی پہلے بچے کی وجہ سے اس کی اُم ولد نہ ہوگی، البتہ اگر خریدنے کے بعد دوسرا بچہ مالک سے پیدا ہوا تو اُم ولد ہو جائے گی، اور جس نے اس لونڈی کو خریدا حمل کی حالت میں وہ حمل خریدنے والے کا تھا پھر اس کے پاس آ کر جنے تو اُم ولد ہو جائے گی۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15205، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16310، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 31»