87 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا ابن ابي نجيح، عن مجاهد، عن ابي معمر، عن عبد الله بن مسعود قال:" اجتمع عند البيت ثلاثة نفر قرشيان وثقفي، او ثقفيان وقرشي قليل فقه قلوبهم، كثير شحم بطونهم، فقال احدهم: اترون الله يسمع ما نقول؟ فقال الآخر: يسمع إن جهرنا، ولا يسمع إن اخفينا، فقال الآخر: إن كان يسمع إذا جهرنا فإنه يسمع إذا اخفينا، قال: فانزل الله ﴿ وما كنتم تستترون ان يشهد عليكم سمعكم ولا ابصاركم﴾ الآية" وكان سفيان اولا يقول في هذا الحديث: ثنا منصور او ابن نجيح او حميد الاعرج احدهم او اثنان منهم ثم ثبت علي منصور في هذا الحديث87 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ:" اجْتَمَعَ عِنْدَ الْبَيْتِ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ قَرَشِيَّانِ وَثَقَفِيٌّ، أَوْ ثَقَفِيَّانِ وَقُرَشِيٌّ قَلِيلٌ فِقْهُ قُلُوبِهِمْ، كَثِيرٌ شَحْمُ بُطُونِهِمْ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: أَتَرَوْنَ اللَّهَ يَسْمَعُ مَا نَقُولُ؟ فَقَالَ الْآخَرُ: يَسْمَعُ إِنْ جَهَرْنَا، وَلَا يَسْمَعُ إِنْ أَخْفَيْنَا، فَقَالَ الْآخَرُ: إِنْ كَانَ يَسْمَعُ إِذَا جَهَرْنَا فَإِنَّهُ يَسْمَعُ إِذَا أَخْفَيْنَا، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ ﴿ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ﴾ الْآيَةَ" وَكَانَ سُفْيَانُ أَوَّلًا يَقُولُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: ثنا مَنْصُورٌ أَوِ ابْنُ نَجِيحٍ أَوْ حُمَيْدٌ الْأَعْرَجُ أَحَدُهُمْ أَوِ اثْنَانِ مِنْهُمْ ثُمَّ ثَبَتَ عَلَي مَنْصُورٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ
87- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: خانۂ کعبہ کے پاس تین آدمی اکٹھے ہوئے اس میں سے دو قریشی تھے اور ایک ثقیف قبیلے سے تھا یا دو ثقیف قبیلے کے تھے اور ایک قریشی تھا ان کے دماغ میں عقل کم تھی اور ان کے پیت پر چربی زیادہ تھی۔ ان میں سے ایک نے کہا: اللہ تعالیٰ کے بارے میں تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟ ہم جو کہتے ہیں، وہ اسے سن لیتا ہے؟ تو دوسرے نے کہا: اگر ہم بلند آوز میں کہیں، تو پھر وہ سن لے گا اگر ہم پست آواز میں بات کریں، تو پھر وہ نہیں سنے گا، تو تیسرے نے کہا: اگر وہ ہماری بلند آواز کو سن لیتا ہے، تو وہ ہماری پست آواز کو بھی سن لے گا۔ راوی کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: ”اور تم جو کچھ چھپاتے ہو اس کے بارے میں تمہاری سماعت تمہاری بصارت تمہارے خلاف گواہی دیں گے۔“ سفیان نامی راوی اس روایت میں پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ اسے منصور یا ابن ابونجیح یا حمید نے نقل کیا ہے یا ان میں سے کسی ایک نے یا ان میں سے کسی دو نے نقل کیا ہے، لیکن پھر وہ اعتماد کے ساتھ کہنے لگے کہ یہ روایت منصور سے منقول ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 4816، 4817، 7521، ومسلم: 2775، وصحيح ابن حبان: 390، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 5204، 5245، 5246»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:87
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کی بات سنتا ہے، وہ خفیہ ہو یا اونچی آواز میں۔ بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ تو دلوں کے بھید بھی جانتا ہے اور کل کائنات کی نقل وحرکت سے بخوبی واقف ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: «ان الله عليم بذات الصدور» ۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ روز قیامت انسان کا جسم خود گواہی دے گا، سبحان اللہ۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 88