مسند الحميدي کل احادیث 1337 :حدیث نمبر

مسند الحميدي
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر: 89
Save to word اعراب
89 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا يحيي بن عبد الله الجابر انه سمع ابا ماجد الحنفي يقول كنت عند عبد الله فاتاه رجل بشارب فقال عبد الله ترتروه او مزمزوه واستنكهوه قال فترتروا ومزمزوه واستنكهوه فإذا هو سكران فقال عبد الله بن مسعود: احبسوه، فحبس، فلما كان من الغد جيء به، وجئت فدعا عبد الله بسوط فاتي بسوط له ثمرة فامر بها فقطعت ثم دق طرفه حتي آضت له مخفقة، قال فاشار بإصبعه كذا، وقال للذي يضرب: اضرب وارجع يدك، واعط كل عضو حقه، وجلده وعليه قميص وإزار، وقميص وسراويل، ثم قال عبد الله: إنه لا ينبغي لوالي امر ان يوتي بحد إلا اقامه الله عفو يحب العفو، فقال الرجل: يا ابا عبد الرحمن ‍‍‍‍‍‍ إنه لابن اخي ومالي من ولد، وإني لاجد له من اللوعة ما اجد لولدي، فقال عبد الله: بئس لعمر الله إذا والي اليتيم انت ما احسنت الادب، ولا امتزت الخربة ثم قال عبد الله: إني لاعلم اول رجل قطعه رسول الله صلي الله عليه وسلم اتي برجل من الانصار قد سرق فقطعه، فكانما اسف في وجه رسول الله صلي الله عليه وسلم الرماد، واشار سفيان بكفه إلي وجهه وقبضها شيئا، فقالوا: يا رسول الله كانك فقال:" وما يمنعني ان تكونوا اعوانا للشيطان علي اخيكم إنه لا ينبغي لوالي امر ان يؤتي بحد إلا اقامه، والله عفو يحب العفو، ثم قرا رسول الله صلي الله عليه وسلم ﴿ وليعفوا وليصفحوا الا تحبون ان يغفر الله لكم﴾" قال سفيان: اتيت يحيي الجابر فقال لي: اخرج الواحك، فقلت: ليست معي الواح فحدثني بهذا الحديث، واحاديث معه فلم احفظ هذا الحديث حتي اعاده علي، قال سفيان فحفظته من مرتين89 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا يَحْيَي بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْجَابِرُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا مَاجِدٍ الْحَنَفِيَّ يَقُولُ كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ فَأَتَاهُ رَجُلٌ بِشَارِبٍ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ تَرْتِرُوهُ أَوْ مَزْمِزُوهُ وَاسْتَنْكِهُوهُ قَالَ فَتَرْتَرُوا وَمَزْمَزُوهُ وَاسْتَنْكَهُوهُ فَإِذَا هُوَ سَكْرَانُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: احْبِسُوهُ، فَحُبِسَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ جِيءَ بِهِ، وَجِئْتُ فَدَعَا عَبْدُ اللَّهِ بِسَوْطٍ فَأُتِيَ بِسَوْطٍ لَهُ ثَمَرَةٌ فَأَمَرَ بِهَا فَقُطِعَتْ ثُمَّ دَقَّ طَرَفَهُ حَتَّي آضَتْ لَهُ مِخْفَقَةٌ، قَالَ فَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ كَذَا، وَقَالَ لِلَّذِي يَضْرِبُ: اضْرِبْ وَأَرْجِعْ يَدَكَ، وَأَعْطِ كُلَّ عُضْوٍ حَقَّهُ، وَجَلَدَهُ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ وَإِزَارٌ، وَقَمِيصٌ وَسَرَاوِيلُ، ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِوَالِي أَمْرٍ أَنْ يُوتَي بِحَدٍّ إِلَّا أَقَامَهُ اللَّهُ عَفُوٌّ يُحِبُّ الْعَفْوَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ‍‍‍‍‍‍ إِنَّهُ لَابْنُ أَخِي وَمَالِيَ مِنْ وَلَدٍ، وَإِنِّي لَأَجِدُ لَهُ مِنَ اللَّوْعَةِ مَا أَجِدُ لِوَلَدِي، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: بِئْسَ لَعَمْرُ اللَّهِ إِذًا وَالِي الْيَتِيمِ أَنْتَ مَا أَحْسَنْتَ الْأَدَبَ، وَلَا امْتَزْتَ الْخَرِبَةِ ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنِّي لَأَعْلَمُ أَوَّلَ رَجُلٍ قَطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِرَجُلٍ مَنَ الْأَنْصَارِ قَدْ سَرَقَ فَقَطَعَهُ، فَكَأَنَّمَا أُسِفَّ فِي وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّمَادُ، وَأَشَارَ سُفْيَانُ بِكَفِّهِ إِلَي وَجْهِهِ وَقَبَضَهَا شَيْئًا، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّكَ فَقَالَ:" وَمَا يَمْنَعُنِي أَنْ تَكُونُوا أَعْوَانًا لِلشَّيْطَانِ عَلَي أَخِيكُمْ إِنًّهُ لَا يَنْبَغِي لِوَالِي أَمْرٍ أَنْ يُؤْتَي بِحَدٍّ إِلَّا أَقَامَهُ، وَاللَّهُ عَفُوٌّ يُحِبُّ الْعَفْوَ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ﴿ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ﴾" قَالَ سُفْيَانُ: أَتَيْتُ يَحْيَي الْجَابِرَ فَقَالَ لِي: أَخْرِجْ أَلْوَاحَكَ، فَقُلْتُ: لَيْسَتْ مَعِي أَلْوَاحٌ فَحَدَّثَنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَأَحَادِيثَ مَعَهُ فَلَمْ أَحْفَظْ هَذَا الْحَدِيثَ حَتَّي أَعَادَهُ عَلَيَّ، قَالَ سُفْيَانُ فَحَفِظْتُهُ مِنْ مَرَّتَيْنِ
89- ابوماجد حنفی بیان کرتے: میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا ایک شخص ایک شرابی کو لے کر آیا، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے ذرا ہلا جلا کر دیکھو یا اس کا منہ سونگھو۔ راوی کہتے ہیں: اسے ہلایا گیا اور اس کا منہ سونگھا گیا، تو وہ نشے میں تھا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے قید کردو، اسے قید کردیا گیا۔ اگلے دن اس شخص کو وہاں لایا گیا، میں بھی وہاں موجود تھا، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کوڑا منگوایا تو ان کی خدمت میں ایک ایسا کوڑا لایا گیا جس پر پھل لگا ہوا تھا۔ ان کے حکم کے تحت اس پھل کو اتار لیا گیا پھر اس کے کنارے کو باریک کیا گیا، یہاں تک کہ وہ درہ بن گیا۔
راوی کہتے ہیں: انہوں نے اپنی انگلی کے ذریعے اس طرح اشارہ کیا اور کوڑے مارنے والے یہ کہا کہ تم اسے مارو اور اپنا ہاتھ پیچھے لے کر جاؤ اور ہر عضو کو اس کا حق دو۔
انہوں نے اسے کوڑے اس طرح لگوائے کہ اس نے قمیض پہنی ہوئی تھی اور تہبند بھی تھا۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) قمیض اور شلوار پہنی ہوئی تھی۔
پھر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرمایا: جو بھی شخص متعلقہ اہل کار ہو اس کے لیے بات مناسب نہیں ہے کہ جب اس کے پاس کوئی قابل حد مجرم لایا جائے، تو وہ حد جاری نہ کرے باقی اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے، وہ معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔
ایک صاحب بولے: اے ابوعبدالرحمٰن! یہ میرا بھتیجا ہے، میری کوئی اولاد نہیں ہے، لیکن مجھے اس کے لیے اپنے دل میں وہ محبت محسوس نہیں ہوتی جو مجھے اپنی اولاد کے لیے محسوس ہوتی ہے، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بولے: اللہ کی قسم! پھر تو تم یتیم کے انتہائی برے نگران ہو نہ تم نے اس کی اچھی تربیت کی اور نہ اس کی خرابی پر پردہ رکھا۔
پھر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بتایا: مجھے یہ بات پتہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جس شخص کا ہاتھ کٹوایا تھا (وہ کون تھا؟) انصار سے تعلق رکھنے والا ایک شخص لایا گیا اس نے چوری کی تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کٹوادیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت تھی کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر خاک ڈال دی گئی ہو۔ یہاں سفیان نامی روای نے اپنی ہتھیلی کے ذریعے اپنے چہرے کی طرف اشارہ کیا اور اپنی ہتھیلی کو کچھ بند کرلیا۔
لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاید یہ بات پسند نہیں آئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لئے کیا چیز رکاوٹ ہے، لیکن تم اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بن جاؤ۔ کسی والی کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ اس کے پاس حد سے متعلق کوئی مقدمہ لایا جائے، تو وہ اسے قائم نہ کرے باقی اللہ معاف کرنے والا ہے اور وہ معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی۔
انہیں چاہئے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں کیا تم لوگ اس بات کو پسند نہیں کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت کردے۔
سفیان کہتے ہیں: میں یحییٰ الجابر کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھ سے فرمایا: تم اپنی تختی نکالو۔ میں نے کہا: میرے پاس کوئی تختی نہیں ہے۔ اس وقت انہوں نے یہ حدیث مجھے سنائی اور اس کے ساتھ دوسری حدیثیں بھی سنائیں، تو مجھے یہ حدیث یاد نہیں ہوئی، یہاں تک کہ انہوں نے دوبارہ مجھے یہ حدیث سنائی۔ سفیان کہتے ہیں: تو گویا میں نے دو مرتبہ اس حدیث کو یاد کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه أبو يعلى فى "مسنده"، برقم: 5155، وعبد الرزاق فى "مصنفه"، برقم: 13519، وأحمد فى "مسنده"، برقم: 3787، برقم: 4057، برقم: 4253، برقم: 4254»

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 89 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:89  
فائدہ:
متن میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے، وہ بالکل درست ہے، اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس مسلمان پر کسی جرم کے ثابت ہونے کی وجہ سے حد لاگو ہو تو اس میں درگزر نہیں کرنا چاہیے، بلکہ حد نافذ کر دینی چاہیے۔ افسوس کہ آج کل اکثر مسلمانوں نے حدود کو نافذ کرنا چھوڑ دیا ہے، اور حکمرانوں نے اسلامی حدود سے مذاق کرنا شروع کر دیا ہے، کیونکہ حکمران خود دین کے باغی ہوتے ہیں، وہ کس طرح حدود کو نافذ کر یں گے؟
چور کی سزا اس کا ہاتھ کاٹنا ہے : اللہ تعالی نے فرمایا: «السَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا» چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت، تم ان دونوں کے ہاتھوں کو کاٹو۔ (المائدہ: 38)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 90   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.