830- سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا شبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے۔ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا، اس نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا واسطہ دے کر یہ کہتا ہوں کہ ہمارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ دیجئے گا اس کا مخالف فریق کھڑا ہو ا وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا۔ اس نے عرض کی: جی ہاں، یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ دیجئے گا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ عرض کرنے کی اجازت دیجئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بولو“ اس نے عرض کی۔ میرا بیٹا اس شخص کے ہاں ملازم تھا۔ اس نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کرلیا۔ مجھے یہ بتایا گیا۔ کہ میرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا، تو میں نے اس کے فدیے کے طور پرایک سوبکریاں اور ایک خادم دیا۔ پھر میں نے اہل علم سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد سے اس بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے مجھے بتایا۔ کہ میرے بیٹے کو ایک سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کیاجائے گا اور اس بیوی کو سنگسار کیا جائے گا، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میں تم دونوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ ایک سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس کر دئیے جائیں گے تمہارے بیٹے کو ایک سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کیا جائے گا۔ اے سیدنا انیس رضی اللہ عنہ! تم اس عورت کے پاس جاؤ اگر وہ اعتراف کرلیتی ہے، تو تم اے سنگسار کردینا۔“
سیدنا انیس رضی اللہ عنہ اس عورت کے پاس گئے، اس عورت نے اعتراف کیا، تو انہوں نے اسے سنگسار کروادیا۔
سفیان کہتے ہیں۔ سیدنا انیس رضی اللہ عنہ کاتعلق اسلم قبیلے سے تھا۔
● صحيح البخاري | 6633 | | لأقضين بينكما بكتاب الله أما غنمك وجاريتك فرد عليك وجلد ابنه مائة وغربه عاما وأمر أنيس الأسلمي أن يأتي امرأة الآخر فإن اعترفت رجمها |
● صحيح البخاري | 6836 | | لأقضين بينكمابكتاب الله أما الغنم والوليدة فرد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام وأما أنت يا أنيس فاغد على امرأة هذا فارجمها |
● صحيح البخاري | 6828 | | لأقضين بينكما بكتاب الله جل ذكره المائة شاة والخادم رد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام |
● صحيح البخاري | 6843 | | لأقضين بينكما بكتاب الله أما غنمك وجاريتك فرد إليك وجلد ابنه مائة وغربه عاما وأمر أنيسا الأسلمي أن يأتي امرأة الآخر فإن اعترفت فارجمها فاعترفت فرجمها |
● صحيح البخاري | 7279 | | لأقضين بينكما بكتاب الله |
● صحيح البخاري | 6860 | | لأقضين بينكما بكتاب الله المائة والخادم رد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام و يا أنيس اغد على امرأة هذا فسلها فإن اعترفت فارجمها |
● صحيح البخاري | 2696 | | لأقضين بينكما بكتاب الله أما الوليدة والغنم فرد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام وأما أنت يا أنيس لرجل فاغد على امرأة هذا فارجمها فغدا عليها أنيس فرجمها |
● صحيح البخاري | 2725 | | لأقضين بينكما بكتاب الله الوليدة والغنم رد وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام اغد يا أنيس إلى امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها قال فغدا عليها فاعترفت فأمر بها رسول الله فرجمت |
● صحيح البخاري | 7194 | | لأقضين بينكما بكتاب الله أما الوليدة والغنم فرد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام وأما أنت يا أنيس لرجل فاغد على امرأة هذا فارجمها |
● صحيح مسلم | 4435 | | لأقضين بينكما بكتاب الله الوليدة والغنم رد وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام واغد يا أنيس إلى امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها |
● جامع الترمذي | 1433 | | لأقضين بينكما بكتاب الله المائة شاة والخادم رد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام واغد يا أنيس على امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها |
● سنن أبي داود | 4445 | | لأقضين بينكما بكتاب الله أما غنمك وجاريتك فرد إليك وجلد ابنه مائة وغربه عاما وأمر أنيسا الأسلمي أن يأتي امرأة الآخر فإن اعترفت رجمها فاعترفت فرجمها |
● سنن النسائى الصغرى | 0 | | أما المائة شاة والخادم فرد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام اغد يا أنيس على امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها فغدا عليها فاعترفت فرجمها |
● سنن النسائى الصغرى | 5412 | | أما غنمك وجاريتك فرد إليك وجلد ابنه مائة وغربه عاما وأمر أنيسا أن يأتي امرأة الآخر فإن اعترفت فارجمها فاعترفت فرجمها |
● سنن ابن ماجه | 2549 | | لأقضين بينكما بكتاب الله المائة الشاة والخادم رد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام واغد يا أنيس على امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 20 | | اما والذي نفسي بيده لاقضين بينكما بكتاب الله. اما غنمك وجاريتك فرد إليك |
● مسندالحميدي | 830 | | قل |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 20
´حدیث بھی کتاب اللہ ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”اما والذي نفسي بيده لاقضين بينكما بكتاب الله. اما غنمك وجاريتك فرد إليك . . .»
”. . . رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس اﷲ کی قسم جس کی ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم دونوں کے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کروں گا، تیری بکریاں اور تیری لونڈی تو تجھے واپس ملے گی . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 20]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6633, 6634، من حديث ما لك به ورواه مسلم 1697/25, 1698 من حديث الزهري به]
تفقه:
➊ شادی شدہ زانی کی سزا رجم سنگسار کرنا ہے۔ نیز دیکھئے: [الموطأ ح: 41، البخاري 6749، ومسلم 1457]
➋ رجم کا صریحاً ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ”میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا“ سے معلوم ہوا کہ حدیث بھی کتاب اللہ ہے لہٰذا رجم کا منکر گویا کتاب الله کا منکر ہے۔
➌ تمام اختلافات کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق کرنا چاہئے۔ امام سفیان بن عینیہ مکی رحمہ الله فرماتے تھے:
«إن رسول الله صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ هو الميزان الأكبر، فعليه تعرض الأشياء، على خلقه وسيرته وهديه فما وافقها فهو الحق وما خالفها فهو الباطل»
”بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میزان اکبر ہیں۔ پس ہر چیز کو آپ پر پیش کیا جائے گا۔ آپ کے اخلاق پر، آپ کی سیرت پر اور آپ کے طریقے پر، پس جو کچھ اس کے مطابق ہے تو وہی حق ہے اور جو کچھ اس کے خلاف ہے تو وہی باطل ہے۔“ [الجامع لاخلاق الراوي و آداب السامع للخطيب 79/1 ح 8 وسنده حسن]
➍ غیر شادی شدہ زانی کو کوڑے لگانے کے ساتھ ایک سال جلا وطنی کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دونوں نے زنا کرنے والے (غیر شادی شدہ) کو کوڑے بھی لگائے اور جلا وطن بھی کیا۔ دیکھئے: [السنن الكبريٰ للبيهقي 223/8 وسنده صحيح، والجامع للترمذي 1438، وقال: ”غريب“ وسنده صحيح]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک (زانی) آدمی کو جلا وطن کیا۔ [سنن الكبريٰ للبيهقي 223/8 وسنده صحيح]
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«البكران يجلدان وينفيان و الثيبان يرجمان»
”غیر شادی شدہ زانیوں کو کوڑے لگائے جاتے ہیں اور جلا وطن کیا جاتا ہے اور شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کیا جا تا ہے۔“ [اسنن الكبريٰ للبيهقي 223/8 وسنده صحيح]
➎ حافظ ابن عبد البر فرماتے تھے:
«وأما أهل البدع فأكثرهم ينكر الرجم ويدفعه ولا يقول به فى شي من الزناة ثيباً ولا غير ثيب»
”اہل بدعت کی اکثریت رجم کا انکار کرتی ہے اور اسے تسلیم نہیں کرتی۔ یہ لوگ (اہل بدعت) ہر قسم کے زانیوں کے بارے میں سنگسار کے قائل نہیں ہیں چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔“ [التمهيد 83/9]
◄ معلوم ہوا کہ شادی شدہ زانی کے بارے میں رجم (سنگسار) کی سزا کا انکار بدعت ہے۔
➏ بعض علماء فتنے کے خوف کی وجہ سے زنا کرنے والی عورت کو جلا وطن کرنے کے خلاف ہیں۔ دیکھئے: [التمهيد 883/9]
➐ اقامت حد کے لئے مرتکب زنا کا چار مرتبہ اعتراف ضروری نہیں بلکہ اس کا ایک دفعہ کا اقرار بھی کافی ہے۔
➑ خبر واحد حجت ہے۔
➒ قاضی کا فیصلہ احکام میں نافذ ہوتا ہے۔
➓ کتاب و سنت کے خلاف ہر فیصلہ باطل اور مردود ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 54
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5412
´عورتوں کو عدالت میں لانے سے بچانے کا بیان۔`
ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ان میں سے ایک نے کہا: ہمارے درمیان کتاب اللہ (قرآن) سے فیصلہ فرمایئے اور دوسرا جو زیادہ سمجھدار تھا بولا: ہاں، اللہ کے رسول اور مجھے کچھ بولنے کی اجازت دیجئیے، وہ کہنے لگا: میرا بیٹا اس آدمی کے یہاں نوکر تھا، اس نے اس کی عورت کے ساتھ زنا کیا، تو لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کی سزا رجم ہے، چنانچہ میں نے اسے بدلے میں س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5412]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ علیہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر عورت کو عدالت اور پنچائت وغیرہ میں لائے بغیر مسئلہ حل ہو سکتا ہو تو انہیں عدالتوں اور پنچائتوں وغیرہ میں نہیں گھسیٹنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس متعلقہ خاتون کو اپنے ہاں بلانے کی بجائے، اپنی طرف سے آدمی بھیج کر اس عورت سے حقیقت حال معلوم کی اور پھر اس کے اقرار کرنے پر اس پر زنا کی مذکورہ حد نافذ کی، یعنی اسے رجم کر دیا گیا۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اپنے تمام مسائل بالخصوص حدود سے متعلق معاملات میں قرآن کے فیصلے کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اور جب کوئی مجرم و ملزم اقرار جرم کر لے تو حاکم پر واجب ہے کہ وہ اس پر حد قائم کرے۔ ہمارے ہاں ملک کے صدر کو سزائے موت ختم کرنے کا جو اختیار ہے، شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ معاملے کی پختگی ظاہر کرنے کے لیے قسم کھانا درست ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ قسم کھانے کا مطالبہ نہ کیا گیا ہو تو بھی قسم کھائی جا سکتی ہے۔
(4) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن خلق اور عظیم حوصلے کی صریح دلیل ہے، نیز اس بات کی بھی دلیل ہے کہ مدعی، مستفتی (فتویٰ طلب کرنے والے) اور طالب کے لیے مستحب بات یہ ہے کہ وہ قاضی، عالم دین اور حاکم کےپاس اپنا مسئلہ پیش کرنے سے پہلے اجازت طلب کرے، نیز معلوم ہوا کہ ظن و تخمین پر مبنی حکم اور فیصلہ قطعی اور یقینی دلائل و براہین کے آنے پر ختم ہوجائے گا، اس طرح خلاف شریعت کی گئی صلح مردود ہوگی اور اس سلسلے میں دیا گیا مال و متاع بھی واپس ہو جائے گا۔
(5) حد کے مقابلے میں فدیہ (مالی معاوضہ) شرعاً قابل قبول نہیں ہوگا اور نہ مالی معاوضۃ لے کر کوئی شرعی حد ساقط کی جا سکتی ہے۔ اس پر اہل علم کا اجماع ہے بالخصوص زنا چوری اور شراب نوشی وغیرہ جرم کے مرتکب پر حد قائم کی جائے گی… واللہ أعلم
(6) ”چھڑا لیا“ اس نے سمجھا کہ کسی کی بیوی سے زنا خاوند کی حق تلفی ہے، اس لیے اسے راضی کرلینا کافی ہے، حالانکہ یہ شرعی امر کی خلاف ورزی ہے جس کا تعلق معاشرے کے ساتھ ہے، لہٰذا یہ جرم خاوند کے معاف کرنے سے معاف نہیں ہوگا بلکہ مقدمہ عدالت میں آنے کے بعد لازماً سزا نافذ ہوگی۔
(7) ”کوڑے لگائے“ کیونکہ وہ خود معترف تھا۔ جرم ثابت ہو چکا تھا۔ امام مالک رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک جلا وطن کرنےکی بجائے جیل میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ اور یہ صحیح ہے۔ کیونکہ مقصود حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر سے باہر رہے اور متعلقہ کی جگہ کے قریب نہ جائے۔ احناف کے نزیدیک جلا وطنی سزا کا حصہ نہیں۔ لہٰذا ضروری نہیں۔ لیکن صریح حدیث کی روشنی میں یہ مؤقف محل نظر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5412
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4445
´قبیلہ جہینہ کی ایک عورت کا ذکر جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کرنے کا حکم دیا۔`
ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے، ان میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے مابین اللہ کی کتاب کی روشنی میں فیصلہ فرما دیجئیے، اور دوسرے نے جو ان دونوں میں زیادہ سمجھ دار تھا کہا: ہاں، اللہ کے رسول! ہمارے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ فرمائیے، لیکن پہلے مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجئیے، آپ نے فرمایا: ”اچھا کہو“ اس نے کہنا شروع کیا: میرا بیٹا اس کے یہاں «عسیف» یعنی مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کر لیا تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4445]
فوائد ومسائل:
1) قاضی کو یہ حق حاصل ہے کہ مقدمے کے فریقین میں سے کسی سے بھی مقدمہ سننے کی ابتدا کر سکتا ہے۔
2) جب کسی ادنی درجے کے مفتی نےفتویٰ دیا ہو تو اس سے بڑھ کر اعلی صاحب علم سے رجوع کرلینا کوئی معیوب نہیں ہے اور پہلے کا فتوی دینا بھی کوئی عیب نہیں.
3) رسول اللہﷺ کےسب فیصلے اور فرامین کتاب اللہ کی تفسیر ہونے کی بنا پر کتاب اللہ کی تفسیر ہونے کی بنا پر کتاب اللہ ہی کا حصہ ہے، بشرطیکہ صحیح سند سے ثابت ہوں۔
4) ہر ایسی صلح یا بیع جو غیر شرعی اصولوں پر ہوئی ہو ٹوٹ جاتی ہےاور اس سلسلے میں لیا گیا تاوان بھی واپس کر نا ہوتا ہے۔
5) غیر شادی شدہ زانی پر سوکوڑے ایک سال شہر بدری ہے۔
6) شادی شدہ زانی پر صرف رجم ہے کوڑے نہیں۔
7) زنا کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان فرقت نہیں آجاتی۔
8) حاکم یا قاضی کا نائب حدود کی تنقیذ کرسکتا ہے۔
(خطابی)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4445
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2549
´زنا کی حد کا بیان۔`
ابوہریرہ، زید بن خالد اور شبل رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا، اور بولا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، اللہ کی کتاب کے مطابق آپ ہمارا فیصلہ کر دیجئیے، اس کا فریق (مقابل) جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا، بولا: آپ ہمارا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق فرمائیے لیکن مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو“ اس نے بیان کیا کہ میرا بیٹا اس آدمی کے یہاں مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کر لیا، میں نے اس کی جانب سے سو بکریاں اور ایک نوکر فدیہ میں دے دیا ہے، پھر میں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2549]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
کتاب اللہ سے مراد قرآن مجید اورحدیث شریف دونوں ہیں کیونکہ یہ دونوں اللہ کی طرف سے ہیں اس ليے ہم نے کتاب اللہ کا ترجمہ اللہ کا قانون کیا ہے۔
(2)
قتل وغیرہ کے مقدمات میں فریقین میں صلح ہو سکتی ہے خواہ ہدیت دینے کی شرط پر صلح ہو یا ویسے معاف کر دیا جائے۔
لیکن زنا کا مقدمہ قابل مصالحت نہیں۔
(3)
غیر شادی شدہ زانی کی سزا سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی ہے۔
(4)
شادی شدہ زانی کی سزا رجم یعنی سنگسارکرنا ہے۔
(5)
زنا کا جرم جس طرح چشم دید گواہ کی گواہی سے ثابت ہوتا ہے اس طرح اقرارجرم سے بھی ثابت ہوجاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2549
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1433
´شادی شدہ کو رجم (سنگسار) کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ، زید بن خالد اور شبل رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، اسی دوران آپ کے پاس جھگڑتے ہوئے دو آدمی آئے، ان میں سے ایک کھڑا ہوا اور بولا: اللہ کے رسول! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں! آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے (یہ سن کر) مدعی علیہ نے کہا اور وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا، ہاں، اللہ کے رسول! ہمارے درمیان آپ کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے، اور مجھے مدعا بیان کرنے کی اجازت دیجئیے، (چنانچہ اس نے بیان کیا) میرا لڑکا اس کے پاس مزدور تھا، چنانچہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ زنا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1433]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس لڑکے کا کام صرف اپنے مالک کے کاموں اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہی نہیں تھا بلکہ وہ مالک کی اجازت سے اس کی بیوی کے کاموں میں بھی معاون تھا،
چنانچہ اس کے ساتھ جو یہ حادثہ پیش آیا اس کا سبب یہی تھا۔
اس لیے تنہائی میں عورت کے پاس غیر محرم مرد کا دخول منع ہے۔
2؎:
کیوں کہ یہ غیر شادی شدہ ہے۔
3؎:
کیوں کہ یہ شادی شدہ ہے۔
4؎:
یہ انیس بن ضحاک اسلمی ہیں۔
5؎:
عورت چونکہ شادی شدہ تھی اس لیے اسے پتھر مارمار کر ہلاک کردیا گیا،
اور لڑکا شادی شدہ نہیں تھا اس لیے اس کے لیے ایک سال کی جلاوطنی اور سوکوڑوں کی سزا متعین کی گئی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1433
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2696
2696. حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دیہاتی آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمادیجئے!اس کا مخالف کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اس نے سچ کہا ہے، ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کردیں۔ دیہاتی نے کہا: میرا بیٹا اسکے ہاں نوکرى تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے۔ لوگوں نے کہا: تیرے بیٹے کو رجم کیا جائے گا لیکن میں نے ا پنے بیٹے کے اس جرم کے عوض سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کرلی۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انھوں نے کہا: تیرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تجھے واپس کی جاتی ہیں اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کے لیےجلاوطن لازم ہے۔“ پھر ایک آدمی سے فرمایا: ”اے انیس! اس شخص کی بیوی کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2696]
حدیث حاشیہ:
گویا بیوی کے خاوند سے سوبکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کرلی۔
باب کا مطلب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، تیری بکریاں اور لونڈی تجھ کو واپس ملیں گی، کیوں کہ یہ ناجائز اور خلاف شرع صلح تھی۔
ابن دقیق العید ؒ نے کہا، اس حدیث سے یہ نکلا کہ معاوضہ ناجائز کے بدل جو چیز لی جائے اس کا پھیردینا واجب ہے، لینے والا اس کا مالک نہیں ہوتا۔
روایت میں اہل علم سے مراد وہ صحابہ ہیں جو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں فتویٰ دیاکرتے تھے۔
جیسے خلفائے اربعہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنهم)
یہ بھی معلوم ہوا کہ جو مسئلہ معلوم نہ ہو اہل علم سے اس کی تحقیق کرلینا ضروری ہے اور یہ تحقیق کتاب و سنت کی روشنی میں ہونی چاہئے نہ کہ محض تقلید کے اندھیرے میں ٹھوکریں کھائی جائیں۔
آیت ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل: 43)
کا یہی مطلب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2696
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2725
2725. حضرت ابو ہریرہ ؓ حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ کتاب اللہ کے مطابق میرا فیصلہ کریں۔ دوسرا حریف جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا اس نے بھی کہا: ہاں!آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمادیں اور مجھے اجازت دیں (کہ میں واقعہ بیان کردوں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم بیان کرو۔“ اس نے کہا: میرا بیٹھا اس شخص کا ملازم تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے بیٹےپرر جم ہے، چنانچہ میں نے اس کے عوض ایک سو بکری اور ایک لونڈی بطور فدیہ دی۔ پھر میں نے اہل علم سے (مسئلہ) پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے مارنا اور ایک سال کے لیے جلاوطن کرنا ضروری ہے۔ اور اس شخص کی بیوی کو رجم کیا جائے گا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2725]
حدیث حاشیہ:
سو بکریاں اور ایک لونڈی اس کی طرف سے فدیہ دے کر اس کو چھڑالیا، ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کیوں کہ اس نے زنا کی حد کے بدلے یہ شرط کی سوبکریاں اور ایک لونڈی اس کی طرف سے دوں گا۔
آنحضرت ﷺ نے اس کو باطل اور لغو قرار دیا۔
حدود اللہ کے حقوق میں سے ہیں۔
جوبندوں کی باہمی صلح سے ٹالی نہیں جاسکتی۔
جب بھی کوئی ایسا جرم ثابت ہوگا حد ضرور جاری کی جائے گی۔
البتہ جو سزائیں انسانی حقوق کی وجہ سے دی جاتی ہیں ان میں باہمی صلح کی صورتیں نکالی جاسکتی ہیں۔
زانیہ عورت کے لیے چار گواہوں کا ہونا ضروری ہے جو چشم دید بیان دیں، یا عورت و مرد خود اقرار کرلیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ حدود کا قائم کرنا اسلامی شرعی اسٹیٹ کا کام ہے۔
جہاں قوانین اسلامی کا اجراءمسلم ہو۔
اگر کوئی اسٹیٹ اسلامی ہونے کے دعویٰ کے ساتھ حدود اللہ کو قائم نہیں کرتی تو وہ عنداللہ سخت مجرم ہے۔
زانی مرد غیرشادی شدہ کی حدود ہے جو یہاں مذکور ہوئی۔
رجم کے لیے آخرمیں خلیفہ وقت کا حکم ضروری ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2725
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6843
6843 [صحيح بخاري، حديث نمبر:6843]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس کو بھیج کر اس عورت کا حال معلوم کرایا۔
یہی باب سے مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6843
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7194
7194. سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا زید بن خالد جہینی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک اعرابی آیا اور اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ فرما دیں پگر دوسرا فریق کھڑا ہوا اور ا س نے بھی کہا: وہ صحیح کہتے ہیں واقعی ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کردیں۔ پھر دیہاتی نے کہا: میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدور تھا اور اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا تو مجھے لوگوں نے کہا: تیرے بیٹے پر رجم ہے، لیکن میں نے اپنے لڑکے کی طرف سے سو بکریوں اور ایک لونڈی کا فدیہ دے دیا۔ پھر میں نے اہل علم سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا: تیرے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطنی ہوگی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تو تمہیں واپس ملیں گی اور تیرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کے لیے جلا وطن ہونا ہے۔ اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7194]
حدیث حاشیہ:
تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس کو اپنا نائب بنا کر بھیجا تھا اور انیس کے سامنے اس کے اقرار کا وہی حکم ہوا جیسے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اقرار کرتی اگر انیس گواہ بنا کر بھیجے گئے ہوتے تو ایک شخص کی گواہی پر اقرار کیسے ثابت ہو سکتا ہے۔
حافظ نے کہا امام بخاری رضی اللہ عنہ نے یہ باب لا کر امام محمد کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا۔
ان کا مذہب یہ ہے کہ قاضی کسی شخص کے اقرار کر کوئی حکم نہیں دے سکتا‘ جب تک دو عادل شخصوں کو جو قاضی کی مجلس میں رہا کرتے ہیں اس کے اقرار پر گواہ نہ بنا دے اور جب وہ دونوں اس کے اقرار پر گواہی دیں تب قاضی ان کی شہادت کی بنا پر حکم دے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7194
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2696
2696. حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دیہاتی آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمادیجئے!اس کا مخالف کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اس نے سچ کہا ہے، ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کردیں۔ دیہاتی نے کہا: میرا بیٹا اسکے ہاں نوکرى تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے۔ لوگوں نے کہا: تیرے بیٹے کو رجم کیا جائے گا لیکن میں نے ا پنے بیٹے کے اس جرم کے عوض سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کرلی۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انھوں نے کہا: تیرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تجھے واپس کی جاتی ہیں اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کے لیےجلاوطن لازم ہے۔“ پھر ایک آدمی سے فرمایا: ”اے انیس! اس شخص کی بیوی کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2696]
حدیث حاشیہ:
(1)
بدکاری کرنے والے لڑکے کے باپ نے عورت کے خاوند سے سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کر لی۔
چونکہ یہ صلح ناجائز اور خلاف شریعت تھی اس لیے اسے کالعدم قرار دیا گیا اور بکریاں اور لونڈی اسے واپس کی گئیں۔
مزدور پر شرعی حد لگنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
شریعت کی نظر میں یہ صلح ظلم پر مبنی تھی، اس لیے عمل میں نہیں لائی گئی۔
(2)
رسول اللہ ﷺ نے جس آدمی کو عورت پر حد جاری کرنے کے لیے روانہ کیا وہ اسی عورت کے قبیلے سے تھا۔
اگر کسی اور کو روانہ کیا جاتا تو شاید اہل قبیلہ اس فیصلے کو نہ مانتے۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسائل و احکام میں اہل علم سے رابطہ کرنا ضروری ہے اور تحقیق بھی کتاب و سنت کی روشنی میں ہونی چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2696
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2725
2725. حضرت ابو ہریرہ ؓ حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ کتاب اللہ کے مطابق میرا فیصلہ کریں۔ دوسرا حریف جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا اس نے بھی کہا: ہاں!آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمادیں اور مجھے اجازت دیں (کہ میں واقعہ بیان کردوں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم بیان کرو۔“ اس نے کہا: میرا بیٹھا اس شخص کا ملازم تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے بیٹےپرر جم ہے، چنانچہ میں نے اس کے عوض ایک سو بکری اور ایک لونڈی بطور فدیہ دی۔ پھر میں نے اہل علم سے (مسئلہ) پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے مارنا اور ایک سال کے لیے جلاوطن کرنا ضروری ہے۔ اور اس شخص کی بیوی کو رجم کیا جائے گا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2725]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے کتاب الصلح میں بھی بیان کیا ہے۔
وہاں مقصود یہ تھا کہ وہ صلح جو حدود اللہ کے خلاف کی جائے، باطل ہے۔
اس مقام پر امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہر وہ شرط جس سے حدود اللہ کو ختم کرنا مقصود ہو، وہ بھی باطل ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کی شرط کو کالعدم قرار دیا ہے کیونکہ حدود، اللہ کا حق ہے جسے بندوں کی باہمی صلح سے ختم نہیں کیا جا سکتا، البتہ جو سزائیں انسانی حقوق کی وجہ سے دی جاتی ہیں ان میں باہمی صلح ہو سکتی ہے جیسا کہ حضرت ربیع بنت نضر ؓ کا واقعہ پہلے بیان ہوا ہے جب انہوں نے ایک جوان عورت کا اگلا دانت توڑ دیا تھا تو دیت دے کر قصاص سے معافی مل گئی۔
(2)
واضح رہے کہ حدود کا نفاذ اسلامی حکومت کا کام ہے، کوئی آدمی ازخود انہیں قائم نہیں کر سکتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2725
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6828
6828 [صحيح بخاري، حديث نمبر:6828]
حدیث حاشیہ:
(1)
جس لڑکے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو کوڑے لگانے اور جلاوطن کرنے کا فیصلہ فرمایا وہ اپنے والد کے ہمراہ وہاں موجود تھا، چنانچہ والد نے کہا کہ میرے اس بیٹے نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے اور والد کے کلام کرتے وقت اس کا خاموش رہنا اپنے جرم کا اعتراف کرنا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے غیر شادی شدہ ہونے کا بھی علم تھا کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ اس کے والد نے اس کے متعلق وضاحت کی تھی کہ وہ شادی شدہ نہیں ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ اسلم کے ایک شخص کو اس عورت کے پاس بھیجا کیونکہ اس آدمی نے اس عورت پر زنا کی تہمت لگائی تھی، لہٰذا اسے حق پہنچتا ہے کہ تہمت لگانے والے پر حد کا مطالبہ کرے یا اسے معاف کردے یا زنا کا اعتراف کرے۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حد زنا کے لیے مطلق اقرار کافی ہے، اس کے لیے تکرار کی ضرورت نہیں ہے۔
(فتح الباري: 172/12)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پردہ دار خاتون جو باہر نکلنے کی عادی نہیں اسے حاکم کی مجلس میں حاضر ہونے کی تکلیف نہ دی جائے بلکہ اس کے پاس کوئی آدمی بھیج دیا جائے جو حالات کا جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6828
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6836
6836. حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! (ہمارے درمیان) اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کریں اس کا مخالف کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! اس نے صحیح کہا ہے۔ اس کا کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں۔ بات یہ ہے کہ میرا لڑکا اس کے ملازم تھا اور اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا ہے۔ لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو رجم کیا جائے گا، چنانچہ میں نے اس سزا کے بدلے سو بکریاں اور ایک لونڈی کا فدیہ دیا۔ پھر اس نے اہل علم سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ میرے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی لازمی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تم دونوں کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ بکریاں اور کنیز تجھے واپس ملیں گی اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6836]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں اختصار ہے کیونکہ دوسری روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُنیس رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور فرمایا:
”اگر وہ عورت اپنے جرم کا اقرار کرے تو اسے سنگسار کر دو، چنانچہ اس نےاقبال جرم کر لیا، پھر اسےرجم کر دیا گیا۔
(صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6827، 6828)
حضرت انیس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں اسے سنگسار کیا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ امام کا خود سزا دینا یا سزا کے وقت اس کا موجود ہونا ضروری نہیں بلکہ اگر وہ کسی کو حکم دے اور وہ امام کی عدم موجودگی میں حد لگائے تو جائز ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6836
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6843
6843 [صحيح بخاري، حديث نمبر:6843]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں دوسرے کی عورت پر زنا کی تہمت لگانے کا ذکر ہے اور اپنی عورت پر تہمت لگانے کا مسئلہ اس طرح ثابت ہوا کہ گفتگو کے وقت اس عورت کا خاوند بھی موجود تھا، اس نے اس واقعے کا انکار نہیں کیا، گویا وہ بھی اس تہمت میں شریک تھا۔
(2)
بہرحال اگر کوئی خود اقرارِ جرم کرتا ہے تو فریق ثانی سے معلومات لینے میں کوئی حرج نہیں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے کسی عورت سے زنا کا اقرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سو کوڑوں کی سزا دی، پھر جب عورت سے پوچھا تو اس نے کہا:
یہ جھوٹ کہتا ہے۔
اس نے اعتراف جرم سے صاف انکار کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو حد قذف کے طور پر اسی کوڑے مارنے کی سزا دی۔
(سنن أبي داود، الحدود، حدیث: 4467)
اسی طرح ایک عورت نے زنا کا اعتراف کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا، کس نے تیرے ساتھ زنا کیا تھا؟ اس نے بتلایا کہ فلاں معذور نے جو حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی حویلی میں رہتا ہے۔
آپ نے اس کی طرف ایک آدمی بھیجا اور اسے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔
اس نے اقرار کر لیا تو آپ نے اس کے بڑھاپےاور معذوری پر ترس کھاتے ہوئے اسے کھجور کی سو شاخہ چھڑی سے سزا دی۔
(سنن النسائي، آداب القضاء، حدیث: 5414)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6843
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6860
6860 [صحيح بخاري، حديث نمبر:6860]
حدیث حاشیہ:
اس طرح کا ایک عنوان (34)
پہلے بھی گزر چکا ہے۔
ابن بطال نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ اس تکرار کی ضرورت نہیں لیکن ان میں کچھ فرق ہے۔
پہلے عنوان کا تقاضا ہے کہ حاکم وقت جسے سنگسار کا حکم دے، یعنی مامور اس سے غائب ہو اور دوسرے عنوان کا مطلب ہے کہ جسے سنگسار کرنا ہے وہ حاکم وقت سے غائب دور ہو۔
اگر چہ دونوں کا نتیجہ ایک ہے، تاہم کچھ فرق ضرور ہے۔
(فتح الباري: 198/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6860
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7194
7194. سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا زید بن خالد جہینی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک اعرابی آیا اور اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ فرما دیں پگر دوسرا فریق کھڑا ہوا اور ا س نے بھی کہا: وہ صحیح کہتے ہیں واقعی ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کردیں۔ پھر دیہاتی نے کہا: میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدور تھا اور اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا تو مجھے لوگوں نے کہا: تیرے بیٹے پر رجم ہے، لیکن میں نے اپنے لڑکے کی طرف سے سو بکریوں اور ایک لونڈی کا فدیہ دے دیا۔ پھر میں نے اہل علم سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا: تیرے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطنی ہوگی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تو تمہیں واپس ملیں گی اور تیرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کے لیے جلا وطن ہونا ہے۔ اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7194]
حدیث حاشیہ:
1۔
عربوں کے ہاں یہ دستور تھا کہ فوجداری معاملات میں اپنے قبیلے کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی بات سننا گوارا نہ کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دستور کے مطابق حضرت انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا کیونکہ وہ عورت کے قبیلہ اسلم کے ایک معزز فرد تھے اگرچہ عورت کے خاوند کی موجودگی میں بد کاری کے متعلق بات ہوئی تھی تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید تحقیق کرنے اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے ایک ذمہ دار فرد روانہ کیا اور اسے ہدایت دی کہ اگر وہ اپنے جرم کا اعتراف کرے تو اسے رجم کر دینا چنانچہ اس کے اعتراف کے نتیجے میں اسے رجم کردیا گیا۔
2۔
امام بخاری نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ حاکم وقت کسی بھی معاملے کی تحقیق و تفتیش کے لیے کسی بھی شخص کو روانہ کر سکتا ہے خود اس کا اپنا جانا ضروری نہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7194
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7279
7279. سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا زید بن خالد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں موجود تھے کہ آپ نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7279]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطاب کیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ایک مزدور کے والد اور جس نے اسے مزدوری پر رکھا تھا ان دونوں کو خطاب فرمایا ہے۔
اس مزدور نے مالک کی بیوی سے زنا کر لیا تو اس کے والد نے سو بکریاں اور ایک لونڈی فدیہ دے کر مالک سے صلح کرلی۔
جب مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا کہ بکریاں اورلونڈی تمھیں واپس ہوں گی اور تیرے بیٹے کو سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال اسے جلا وطن رہناہوگا۔
“ یہ ایک طویل حدیث ہے۔
(صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2695۔
2696)
2۔
کتاب اللہ سے مراد صرف قرآن کریم نہیں بلک قرآن وسنت دونوں ہیں۔
عنوان کا مدعا بھی یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو عمل میں لایا جائے۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بیان ہوا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7279