797 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عبد الملك بن عمير، قال: سمعت جندبا البجلي، يقول: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «الا إني فرطكم علي الحوض» قال سفيان: «وذكر فيه شيء آخر» 797 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جُنْدُبًا الْبَجَلِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا إِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَي الْحَوْضِ» قَالَ سُفْيَانُ: «وَذُكِرَ فِيهِ شَيْءٌ آخَرُ»
797- سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”خبر دار! میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا۔“ سفیان کہتے ہیں۔ اس روایت میں ایک اور چیز کا بھی ذکر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6589، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2289، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6445، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 19111 برقم: 19112 برقم: 19113 برقم: 19115، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1525، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 32320، والطبراني فى "الكبير" برقم: 1688»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:797
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حوض کوثر برحق ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ امت کے حوض کوثر پر جانے سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود ہوں گے۔ یہ مسئلہ محدثین نے عقیدہ کے باب میں نقل کیا ہے۔ ہم نے جو کتب عقیدہ شائع کی ہیں [مثلاً رسـالـه نجاتيه اصول السنه للحميدي عقيدة السلف واصحاب الـحـديث للصابوني مجموعه مقالات اصول السنه لا أحمد بن حنبل الرد على الزنادقه والجهمية لا أحمد بن حنبل الابانه عن اصول الديانه لاشعرى] ان میں اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ تفصیل کا طالب ان کی طرف رجوع کرے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 797
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6589
6589. حضرت جندب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میں میر کاررواں کے طور پر تم سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6589]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر اور منبر کے درمیان والے حصے کو جنت کا باغیچہ قرار دیا ہے، اس کے تین معنی ہیں: ٭ یہ جگہ بعینہٖ جنت میں منتقل کر دی جائے گی، لہذا اس جگہ سے حقیقی معنی مراد ہے۔ ٭ اس مقام میں عبادت کرنے والے کا انجام جنت میں ہے، اس لیے مجازاً اس جگہ کو جنت کہہ دیا گیا ہے۔ لیکن یہ معنی محل نظر ہیں کیونکہ اس معنی میں اس مبارک جگہ کی کوئی خصوصیت نہیں جبکہ آپ کی مراد اس کی خصوصیت بیان کرنا ہے۔ ٭ اس مقام کو جنت کے باغ سے تشبیہ دی گئی ہے، یعنی یہ مقام جنت کے باغ کی طرح ہے۔ (2) علامہ خطابی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس کا مقصد مدینہ طیبہ میں رہائش اختیار کرنے کی ترغیب دینا ہے، یعنی جو شخص یہاں عبادت کرے گا وہ اسے جنت میں پہنچا دے گی اور جو کوئی منبر کے پاس عبادت کرے گا اسے قیامت کے دن حوض کوثر سے پانی پلایا جائے گا۔ (فتح الباري: 598/11) واللہ أعلم بالصواب
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6589