27 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان قال: سمعت الزهري يقول: اخبرني عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس انه سمع عمر بن الخطاب علي المنبر يقول: سمعت النبي صلي الله عليه وسلم يقول: «لا تطروني كما اطرت النصاري ابن مريم فإنما انا عبده فقولوا عبده ورسوله» 27 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَي الْمِنْبَرِ يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَي ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»
27- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: انہوں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ بیان کرتے ہوئے سنا: وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”تم لوگ مجھے اس طرح نہ بڑھا دینا جس طرح عیسائیوں نے ابن مریم کو بڑھا دیا تھا میں (اللہ) کا بندہ ہوں، تو تم لوگ یوں کہو اس کے بندے اور اس کے رسول۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه البخاري 3445، أخرجه البغوي فى شرح السنة 246/13 برقم 3681، وفي مسنده الموصلي: 153، وعبدالرزاق: 20524، والبيهقي فى دلائل النبوة: 498/5»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:27
فائدہ: اس حدیث میں انبیاء علیہم السلام کی ذاتوں میں غلو کرنے سے منع کیا گیا ہے، محبت اور عقیدت کے بھی اللہ تعالی نے کچھ اصول مقرر کیے ہیں، انھی اصولوں کی روشنی میں ہر برگزیدہ شخصیت سے محبت ہونی چاہیے۔ پہلے جو قومیں گمراہ ہوئیں ان میں عیسائی بھی شامل ہیں کہ جنھوں نے سید نا عیسی علیہ السلام کے متعلق غلو کیا حتی کہ انھیں خدا کا درجہ دے دیا اور ان کی والدہ مریم کو بھی خدا کہہ دیا۔ حالانکہ یہ ان کی صریح گمراہی تھی، اس طرح کے غلو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے کہ ان کی طرح میری ذات کے بارے میں بھی غلو نہ کرنا، پس میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوں۔ کچھ گمراہ فرقے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو «نور من نور الله» کہتے ہیں، جس کا مطلب واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالی کی ذات سے جدا ہوئے ہیں، کیونکہ اللہ تعالی کی ذات نور ہے، اور انہوں نے ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نور کہنا شروع کر دیا ہے جو کہ صریح جہالت ہے۔ اور بعض نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختار کل اور مشکل کشا سمجھ لیا ہے، حالانکہ یہ صفات صرف اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہیں۔ حقیقت اور انصاف سے دیکھیں تو یہ لوگ قرآن وحدیث کی مخالفت میں ڈٹے ہوئے ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق کے جھوٹے دعوے دار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وحی الٰہی کی روشنی میں کرنی چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 27
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3445
3445. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے برسرمنبر کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”مجھے ایسا نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ؑ ابن مریم کو بڑھایا۔ بس میں تو اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے تم یوں کہاکرو: آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3445]
حدیث حاشیہ: اللہ کےغلام، اللہ کےحبیب،اللہ کےخلیل، اشرف انبیاء آپ کےتعریف کی حد یہی ہے۔ جب قرآن میں آپ کواللہ کا بند ہ فرمایا یہ آیت اتری ﴿لما قامَ عبدُاللہِ﴾(الجن: 19) توآپ نہایت ہی خوش ہوئےاللہ کی عبودیت خالصہ بہت بڑا مرتبہ ہے۔ یہ جاہل کیاجانیں۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی نعت یہی سمجھ رکھی ہےکہ آپ کوخدا بنادیں یا خدا سےبھی ایک درجہ آگے چڑھا دیں۔ ﴿کُبُرَت کَلمة تَخرُجُ مِن أَفواھِھِم﴾(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3445
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3445
3445. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے برسرمنبر کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”مجھے ایسا نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ؑ ابن مریم کو بڑھایا۔ بس میں تو اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے تم یوں کہاکرو: آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3445]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ آپ کی مدح سرائی میں مبالغے سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو منصب الوہیت تک پہنچایا اور انھیں اللہ کا بیٹا قراردیا۔ یہ آپ کی تعریف میں انتہائی مبالغہ تھا جس سے آپ نے منع فرمایا۔ 2۔ سورہ جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ”اللہ کا بندہ“ کہا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”جب اللہ کا بندہ،اپنے اللہ کو پکارنے کے لیے کھڑا ہواتو لوگ اس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ “(الجن: 19) لیکن افسوس کہ آج نام نہاد مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺکے متعلق مدح سرائی میں اس قدر مبالغہ اور غلو کیا ہے کہ انھیں منصب الوہیت پر پہنچا دیا ہے، چنانچہ مسلمانوں کے ایک طبقے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نوراً من نوراللہ قرار دیا اور کچھ لوگوں نے آپ کی مدح سرائی میں انتہائی مبالغہ آمیز اور غلو پر مبنی اشعار کہے، مثلاً: وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر اترپڑا مدینے میں مصطفیٰ ہوکر یہود ونصاریٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ میں حلول کا عقیدہ رکھا لیکن ہمارے ہاں مسلمانوں نے حضرات انبیاء ؑ کے علاوہ دوسرے بزرگوں میں بھی اللہ کے حلول کا عقیدہ اپنا لیا، چنانچہ اسی طرح ایک دوسرا شعر ملاحظہ کریں: اپنا اللہ میاں نے ہند میں نام رکھ لیا خواجہ غریب نواز کچھ لوگوں نےحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ عقیدہ رکھا ہے کہ وہ اللہ کی ذات کا مظہر ہیں اور اللہ ان کے بدن میں حلول کرگیا ہے۔ حسین بن منصور حلاج پہلا وہ شخص ہے جس نے خود اپنی ذات کے متعلق کھل کر یہ دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کی ذات میں حلول کرگیا ہے اور اس نے أنا الحق کا نعرہ بلند کیا۔ سمجھانے کے باجود جب وہ اپنے عقیدے پر ڈٹا رہا تو خلیفہ بغداد المقتدر باللہ نے بغداد میں اسے قتل کرکے اس کی لاش کو جلا کردریا میں پھینک دیا۔ لیکن افسوس کہ حلول کا عقیدہ آج بھی مسلمانوں میں متوارث چلا آرہا ہے۔ ﴿سُبْحَانه وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا﴾
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3445