30 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا عاصم بن كليب قال: اخبرني ابي انه سمع ابن عباس يقول «كان عمر بن الخطاب إذا صلي صلاة جلس للناس فمن كانت له حاجة كلمه، وإن لم يكن لاحد حاجة قام فدخل» قال:" فصلي صلوات لا يجلس للناس فيهن، قال ابن عباس: فحضرت الباب فقلت: يا يرفا ابامير المؤمنين شكاة؟ فقال: ما بامير المؤمنين من شكوي فجلست، فجاء عثمان بن عفان فجلس فخرج يرفا فقال: قم يا ابن عفان، قم يا ابن عباس فدخلنا علي عمر" فإذا بين يديه صبر من مال علي كل صبرة منها كنف فقال عمر:" إني نظرت في اهل المدينة وجدتكما من اكثر اهلها عشيرة، فخذا هذا المال فاقتسماه، فما كان من فضل فردا، فاما عثمان فحثا واما انا فجثوت لركبتي، وقلت: وإن كان نقصان رددت علينا، فقال عمر «نشنشة من اخشن - يعني حجرا من جبل - اما كان هذا عند الله إذ محمد واصحابه ياكلون القد» فقلت: بلي والله لقد كان هذا عند الله ومحمد صلي الله عليه وسلم حي، ولو عليه فتح لصنع فيه غير الذي تصنع، قال: فغضب عمر وقال: «او صنع ماذا؟» قلت: إذا لاكل واطعمنا، قال: فنشج عمر حتي اختلفت اضلاعه، ثم قال «وددت اني خرجت منها كفافا لا لي ولا علي» 30 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ «كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِذَا صَلَّي صَلَاةً جَلَسَ لِلنَّاسِ فَمَنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ كَلَّمَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لِأَحَدٍ حَاجَةٌ قَامَ فَدَخَلَ» قَالَ:" فَصَلَّي صَلَوَاتٍ لَا يَجْلِسُ لِلنَّاسِ فِيهِنَّ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَحَضَرْتُ الْبَابَ فَقُلْتُ: يَا يَرْفَأُ أَبِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ شَكَاةٌ؟ فَقَالَ: مَا بِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ شَكْوًي فَجَلَسْتُ، فَجَاءَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَجَلَسَ فَخَرَجَ يَرْفَأُ فَقَالَ: قُمْ يَا ابْنَ عَفَّانَ، قُمْ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ فَدَخَلْنَا عَلَي عُمَرَ" فَإِذَا بَيْنَ يَدَيْهِ صُبَرٌ مِنْ مَالٍ عَلَي كُلِّ صُبْرَةٍ مِنْهَا كِنْفٌ فَقَالَ عُمَرُ:" إِنِّي نَظَرْتُ فِي أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَجَدْتُكُمَا مِنْ أَكْثَرِ أَهْلِهَا عَشِيرَةً، فَخُذَا هَذَا الْمَالَ فَاقْتَسِمَاهُ، فَمَا كَانَ مِنْ فَضْلٍ فَرُدَّا، فَأَمَّا عُثْمَانُ فَحَثَا وَأَمَّا أَنَا فَجَثَوْتُ لِرُكْبَتَيَّ، وَقُلْتُ: وَإِنْ كَانَ نُقْصَانٌ رَدَدْتَ عَلَيْنَا، فَقَالَ عُمَرُ «نَشْنَشَةٌ مِنْ أَخْشَنَ - يَعْنِي حَجَرًا مِنْ جَبَلٍ - أَمَا كَانَ هَذَا عِنْدَ اللَّهِ إِذْ مُحَمَّدٌ وَأَصْحَابُهُ يَأْكُلُونَ الْقَدَّ» فَقُلْتُ: بَلَي وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَ هَذَا عِنْدَ اللَّهِ وَمُحَمَّدٌ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ، وَلَوْ عَلَيْهِ فُتِحَ لَصَنَعَ فِيهِ غَيْرَ الَّذِي تَصْنَعُ، قَالَ: فَغَضِبَ عُمَرُ وَقَالَ: «أَوْ صَنَعَ مَاذَا؟» قُلْتُ: إِذًا لَأَكَلَ وَأَطْعَمَنَا، قَالَ: فَنَشَجَ عُمَرُ حَتَّي اخْتَلَفَتْ أَضْلَاعُهُ، ثُمَّ قَالَ «وَدِدْتُ أَنِّي خَرَجْتُ مِنْهَا كَفَافًا لَا لِيَ وَلَا عَلَيَّ»
30- سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کچھ نمازیں ادا کیں لیکن وہ ان کے بعد لوگوں سے ملاقات کے لئے نہیں بیٹھے۔ سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں ان کے دروازے پر آیا میں نے کہا: اے یرفا! (یہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا خادم تھا) کیا امیر المؤمنین بیمار ہیں؟ ااس نے جواب دیا: امیر المؤمنین بیمار تو نہیں ہیں۔ (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں وہاں بیٹھ گیا اسی دوران سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ وہاں آگئے، تو وہ بھی وہاں بیٹھ گئے۔ یرفا باہر آیا، تو بولا: اے ابن عفان! اے ابن عباس! آپ آئیے تو ہم لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ان کے سامنے مال کے کچھ ڈھیر رکھے ہوئے تھے اور ہر ڈھیر کے ساتھ برتن بھی رکھا ہوا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے: میں نے اہل مدینہ کا جائزہ کیا تو میں نے تم دونوں کو ایسا پایا، جن کے خاندانوں کے زیادہ افراد یہاں موجود ہیں، تو آپ لوگ اس مال کو حاصل کرکے تقسیم کریں جو بچ جائے وہ واپس کردیں، تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے دونوں ہاتھ ملا کر جو کچھ آیا تھا وہ لے لیا لیکن میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا میں نے کہا: اگر یہ کم ہوا تو آپ ہمیں اور دیں گے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے: سخت ترین چیز کا ٹکڑا ہے۔ (راوی کہتے ہیں:) اس سے مراد یہ ہے کہ پہاڑ کا پتھر ہے (یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کے والد کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے ان کی تعریف کی کہ یہ اپنی جرأت میں اور صحیح رائے پیش کرنے میں اپنے والد کی مانند ہیں)۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بولے: کیا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس چیز کی کوئی قدر نہیں ہوگی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب «كِدْ» کھایا کرتے۔ میں نے عرض کی: جی ہاں! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ بات قابل قدر ہے اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتوحات نصیب ہوتیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اس سے مختلف ہوتا جو آپ کا ہے، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ غصے میں آگئے اور بولے: پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کرنا تھا، تو میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی کھانا تھا، اور ہمیں بھی کھانے دینا تھا، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے، یہاں تک کہ ان کی پسلیاں حرکت کرنے لگیں، پھر وہ بولے: میری یہ خواہش ہے کہ میں اس معاملےسے برابری کی بنیاد پر نکل جاؤں نہ مجھے کچھ ملے نہ میرے ذمہ کچھ لازم ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وهو موقوف، وأخرجه البزار فى البحر الزخار 326/1 برقم 209 وفي كشف الأستار: 3664، وابن سعد فى الطبقات: 207/1/3»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:30
فائدہ: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تمام لوگوں پر ہر طرح نظر رکھتے تھے، اور جس کا اہل وعیال زیادہ ہوتا تھا، اس کو زیادہ مال وغیرہ دیتے تھے، سبحان اللہ۔ سید نا عمر رضی اللہ عنہ کس قدر لوگوں کے خیر خواہ تھے، افسوس کہ یہ خیر خواہی آج ختم ہو چکی ہے، ہر طرف ملازمین کا استحصال ہو رہا ہے، خصوصاً علمائے دین جن کی زندگیاں دین کے لئے وقف ہیں، ان کے ساتھ تو بہت ظلم کیا جا رہا ہے، اکثر علمائے کرام کے اہل و عیال زیادہ ہوتے ہیں، اور ان کی تنخواہیں سب سے تھوڑی ہوتی ہیں، بس اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور تمام ملازمین کا خصوصی خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ اس حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالی سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے۔ اگر کوئی سید نا عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف کرتا تو اس کی مکمل بات بڑے حوصلے سے سنتے اور اگر مخالف اپنی بات میں سچا ہوتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فورا حق کو قبول فرما لیتے تھے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 30