48. باب: اللہ تعالیٰ نے (سورۃ مریم میں) فرمایا ”(اس) کتاب میں مریم کا ذکر کر جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ایک پورب رخ مکان میں چلی گئی“۔
(48) Chapter. The Statement of Allah: “And mention in the Book (the Quran, O Muhammad (p.b.u.h)) the story of Maryam (Mary), when she withdrew in seclusion from her family...” (V.19:16)
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، قال: سمعت الزهري، يقول: اخبرني عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس سمع عمر رضي الله عنه، يقول: على المنبر سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا تطروني كما اطرت النصارى ابن مريم فإنما انا عبده، فقولوا: عبد الله ورسوله".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سَمِعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: عَلَى الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے سنا تھا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“
Hum se Humaidi ne bayan kiya, kaha hum se Sufyan ne bayan kiya, kaha ke main ne Zohri se suna, woh bayan karte the ke mujhe Ubaidullah bin Abdullah ne khabar di aur unhein Ibne-e-Abbas Radhiallahu Anhuma ne, unhon ne Umar Radhiallahu Anhu ko mimbar par yeh kehte suna tha ke main ne Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam se suna, Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya “Mujhe mere martabe se ziyada na badhaao jaise Isa Ibn-e-Maryam Alaihimassalam ko nasaara ne un ke rutbe se ziyada badha diya hai. Main to sirf Allah ka bandah hun, is liye yahi kaha karo (mere mutalliq) ke main Allah ka bandah aur us ka Rasool hun.”
Narrated `Umar: I heard the Prophet saying, "Do not exaggerate in praising me as the Christians praised the son of Mary, for I am only a Slave. So, call me the Slave of Allah and His Apostle."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 654
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3445
حدیث حاشیہ: اللہ کےغلام، اللہ کےحبیب،اللہ کےخلیل، اشرف انبیاء آپ کےتعریف کی حد یہی ہے۔ جب قرآن میں آپ کواللہ کا بند ہ فرمایا یہ آیت اتری ﴿لما قامَ عبدُاللہِ﴾(الجن: 19) توآپ نہایت ہی خوش ہوئےاللہ کی عبودیت خالصہ بہت بڑا مرتبہ ہے۔ یہ جاہل کیاجانیں۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی نعت یہی سمجھ رکھی ہےکہ آپ کوخدا بنادیں یا خدا سےبھی ایک درجہ آگے چڑھا دیں۔ ﴿کُبُرَت کَلمة تَخرُجُ مِن أَفواھِھِم﴾(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3445
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3445
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ آپ کی مدح سرائی میں مبالغے سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو منصب الوہیت تک پہنچایا اور انھیں اللہ کا بیٹا قراردیا۔ یہ آپ کی تعریف میں انتہائی مبالغہ تھا جس سے آپ نے منع فرمایا۔ 2۔ سورہ جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ”اللہ کا بندہ“ کہا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”جب اللہ کا بندہ،اپنے اللہ کو پکارنے کے لیے کھڑا ہواتو لوگ اس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ “(الجن: 19) لیکن افسوس کہ آج نام نہاد مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺکے متعلق مدح سرائی میں اس قدر مبالغہ اور غلو کیا ہے کہ انھیں منصب الوہیت پر پہنچا دیا ہے، چنانچہ مسلمانوں کے ایک طبقے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نوراً من نوراللہ قرار دیا اور کچھ لوگوں نے آپ کی مدح سرائی میں انتہائی مبالغہ آمیز اور غلو پر مبنی اشعار کہے، مثلاً: وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر اترپڑا مدینے میں مصطفیٰ ہوکر یہود ونصاریٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ میں حلول کا عقیدہ رکھا لیکن ہمارے ہاں مسلمانوں نے حضرات انبیاء ؑ کے علاوہ دوسرے بزرگوں میں بھی اللہ کے حلول کا عقیدہ اپنا لیا، چنانچہ اسی طرح ایک دوسرا شعر ملاحظہ کریں: اپنا اللہ میاں نے ہند میں نام رکھ لیا خواجہ غریب نواز کچھ لوگوں نےحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ عقیدہ رکھا ہے کہ وہ اللہ کی ذات کا مظہر ہیں اور اللہ ان کے بدن میں حلول کرگیا ہے۔ حسین بن منصور حلاج پہلا وہ شخص ہے جس نے خود اپنی ذات کے متعلق کھل کر یہ دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کی ذات میں حلول کرگیا ہے اور اس نے أنا الحق کا نعرہ بلند کیا۔ سمجھانے کے باجود جب وہ اپنے عقیدے پر ڈٹا رہا تو خلیفہ بغداد المقتدر باللہ نے بغداد میں اسے قتل کرکے اس کی لاش کو جلا کردریا میں پھینک دیا۔ لیکن افسوس کہ حلول کا عقیدہ آج بھی مسلمانوں میں متوارث چلا آرہا ہے۔ ﴿سُبْحَانه وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا﴾
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3445
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:27
27- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: انہوں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ بیان کرتے ہوئے سنا: وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”تم لوگ مجھے اس طرح نہ بڑھا دینا جس طرح عیسائیوں نے ابن مریم کو بڑھا دیا تھا میں (اللہ) کا بندہ ہوں، تو تم لوگ یوں کہو اس کے بندے اور اس کے رسول۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:27]
فائدہ: اس حدیث میں انبیاء علیہم السلام کی ذاتوں میں غلو کرنے سے منع کیا گیا ہے، محبت اور عقیدت کے بھی اللہ تعالی نے کچھ اصول مقرر کیے ہیں، انھی اصولوں کی روشنی میں ہر برگزیدہ شخصیت سے محبت ہونی چاہیے۔ پہلے جو قومیں گمراہ ہوئیں ان میں عیسائی بھی شامل ہیں کہ جنھوں نے سید نا عیسی علیہ السلام کے متعلق غلو کیا حتی کہ انھیں خدا کا درجہ دے دیا اور ان کی والدہ مریم کو بھی خدا کہہ دیا۔ حالانکہ یہ ان کی صریح گمراہی تھی، اس طرح کے غلو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے کہ ان کی طرح میری ذات کے بارے میں بھی غلو نہ کرنا، پس میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوں۔ کچھ گمراہ فرقے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو «نور من نور الله» کہتے ہیں، جس کا مطلب واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالی کی ذات سے جدا ہوئے ہیں، کیونکہ اللہ تعالی کی ذات نور ہے، اور انہوں نے ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نور کہنا شروع کر دیا ہے جو کہ صریح جہالت ہے۔ اور بعض نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختار کل اور مشکل کشا سمجھ لیا ہے، حالانکہ یہ صفات صرف اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہیں۔ حقیقت اور انصاف سے دیکھیں تو یہ لوگ قرآن وحدیث کی مخالفت میں ڈٹے ہوئے ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق کے جھوٹے دعوے دار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وحی الٰہی کی روشنی میں کرنی چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 27