25 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس قال: سمعت عمر بن الخطاب علي المنبر يقول: «إن الله بعث محمدا بالحق وانزل عليه الكتاب، وكان مما انزل عليه آية الرجم فرجم رسول الله صلي الله عليه وسلم ورجمنا بعده» قال: فقد سمعته من الزهري بطوله فحفظت منه اشياء وهذا مما لم احفظ منها يومئذ.25 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَي الْمِنْبَرِ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، وَكَانَ مِمَّا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةُ الرَّجْمِ فَرَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ» قَالَ: فَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ بِطُولِهِ فَحَفِظْتُ مِنْهُ أَشْيَاءَ وَهَذَا مِمَّا لَمْ أَحْفَظْ مِنْهَا يَوْمَئِذٍ.
25- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: بے شک اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ہمراہ معبوث کیا ہے اس نے ان پر کتاب نازل کی، تو ان پر جو چیز نازل ہوئی اس میں ”رجم“ سے متعلق آیت بھی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنگسار کروایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بھی سنگسار کروایا ہے۔ سفیان کہتے ہیں: میں نے یہ روایت طویل روایت کے طور پر زہری سے سنی تھی، اس وقت میں نے اس میں سے کچھ چیزیں یاد کرلیں لیکن یہ حصہ اس میں شامل ہے، جسے میں نے اس دن یاد نہیں کیا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري: 6829، 6830، ومسلم: 1691وابن ماجه: 2553، وعبدالرزاق برقم 13329، من طريق معمر، بهذا الإسناد، ومن طريق عبدالرزاق أخرجه أحمد 47/1، والترمذي فى الحدود 1432، وأخرجه مالك فى الحدود 8 والدارمي: 179/2، والبيهقي 212/8»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:25
فائدہ: یہ حدیث مختصر ہے، جبکہ مفصل سنن ٱبی داؤد (2553) میں اس طرح ہے: سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے خطرہ ہے کہ لوگوں پر کچھ عرصہ گزرنے پر کوئی شخص یہ بھی کہنے لگے گا: مجھے اللہ تعالی کی کتاب میں رجم کا ذکر نہیں ملتا، اس طرح وہ لوگ اللہ تعالی کا ایک فریضہ ترک کرنے کی وجہ سے گمراہ ہو جائیں گے۔ سنو رجم حق ہے، جبکہ مرد شادی شدہ ہو، اور گواہی ثابت ہو جائے، یا عمل یا اعتراف موجود ہو، میں نے (قرآن کریم میں) یہ آیت پڑھی ہے: «والشَّيْخُ وَالشَّيخةُ إذا زَنَيَا فارْجُموهما الْبتَّةَ» بڑی عمر کا مر داور بڑی عمر کی عورت جب بدکاری کر میں تو انھیں ضرور رجم کردو، (بعد میں یہ آیت تو منسوخ ہو گئی لیکن اس کا حکم باقی ہے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (شادی شدہ بدکاری کرنے والوں کو) رجم کی سزا دی تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بھی رجم کی سزا دی۔ اگر زنا کرنے والا مرد اور عورت دونوں شادی شدہ ہوں گے تو دونوں کو رجم کیا جائے گا، اور اگر مرد شادی شدہ اور عورت کنواری ہے تو مرد کو رجم کیا جائے گا اور عورت کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر عورت شادی شدہ ہے اور مرد کنوارہ ہے تو عورت کو رجم کیا جائے گا اور مرد کو سوکوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا جائے گا۔ رجم کا حکم بائبل میں بھی ہے، دیکھیے: (کتاب احبار، باب: 20، فقره: 100)، رجم پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس کے قائل تھے، اور رحم کرتے تھے۔ اس سنہری اصول میں عزتوں کی حفاظت موجود ہے۔ افسوس کہ بعض لوگوں نے رجم کا انکار کر دیا ہے۔ اس بات کی طرف سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے اشارہ کیا تھا۔ ان گمراہ نظریات کے تفصیلی رد کے لیے (انکار حدیث کا نیا روپ: 275/1، 103۔ الاحکام لابن حزم، ص: 408، 453) کا مطالعہ کر لیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 25