1313 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا ابو الزبير، عن جابر، ان النبي صلي الله عليه وسلم، قال:" افضل الصلاة: طول القيام، وافضل الجهاد: من اهريق دمه، وعقر جواده، وافضل الصدقة: جهد المقل، وما تصدق به عن ظهر غني"1313 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَفْضَلُ الصَّلَاةِ: طُولُ الْقِيَامِ، وَأَفْضَلُ الْجِهَادِ: مَنْ أُهْرِيقَ دَمُهُ، وَعُقِرَ جَوَادُهُ، وَأَفْضَلُ الصَّدَقَةِ: جُهْدُ الْمُقِلِّ، وَمَا تَصَدَّقُ بِهِ عَنْ ظَهْرِ غِنًي"
1313- سیدنا جابررضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”سب سے افضل نماز وہ ہے، جس میں قیام طویل ہو اور سب سے افضل جہاد وہ ہے، جس میں خون بہا دیا جائے اور گھوڑے کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور سب سے افضل صدقہ وہ ہے، جوغریب شخص کوشش سے کرے۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) کہ جو صدقہ دیا جائے، تو اس کے بعد آدمی خوشحال رہے“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 41، 756، 756، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1155، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 197، 1758، 4639، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 23، والترمذي فى «جامعه» برقم: 387، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2437، 2754، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1421، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4760، 4761، 4762، 20813، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14430، 14453، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2081، 2131، 2273، 2296»
أى الإسلام أفضل ؟ ، قال : من سلم المسلمون من لسانه ويده ، قيل : ف أى الهجرة أفضل ؟ ، قال : أن تهجر ما كره ربك ، قيل : ف أى الجهاد أفضل ؟ ، قال : من عقر جواده وأهريق دمه
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1313
فائدہ: اس حدیث میں طویل قرأت اور شہادت کی فضیلت کا بیان ہے، اور وہ صدقہ جو کوئی مسکین محنت مزدوری کرے اور اس معمولی سے معاوضے میں سے جو کچھ اللہ کے راستے میں دے دے، اس کی ایک مٹھی صدقہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اس کو احد پہاڑ بنا دیں گے، اور امیر کا کروڑوں روپے کا صدقہ جو اس نے غلط نیت سے دیا ہوگا، اس سے مسکین کا صدقہ بڑھ جائے گا، جو بھی میسر ہو، چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو، صدقہ کر دینا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1311
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 387
´نماز میں دیر تک قیام کرنے کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سی نماز افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”جس میں قیام لمبا ہو“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 387]
اردو حاشہ: 1؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طول قیام کثرت رکوع و سجود سے افضل ہے، علماء کی ایک جماعت جس میں امام شافعی بھی شامل ہیں اسی طرف گئی ہے اور یہی حق ہے، رکوع اور سجود کی فضیلت میں جو حدیثیں وارد ہیں وہ اس کے منافی نہیں ہیں کیونکہ ان دونوں کی فضیلت سے طول قیام پر ان کی افضلیت لازم نہیں آتی۔ واضح رہے کہ یہ نفل نماز سے متعلق ہے کیونکہ ایک تو فرض کی رکعتیں متعین ہیں، دوسرے امام کو حکم ہے کہ ہلکی نماز پڑھائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 387
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1768
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”بہترین نماز وہ ہے جس میں قنوت لمبا ہو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1768]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: قنوت: نماز، قیام، خشوع و خضوع، عجز و فروتنی، سکوت و خاموشی، دعا اور اطاعت و فرمانبرداری، سب معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور نماز میں یہ تمام معانی موجود ہیں اور یہاں بالاتفاق اس کا معنی قیام ہے۔ یعنی قراءت طویل کرنا، کیونکہ لمبی قراءت کے بغیر قیام لمبا نہیں ہو سکتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1768
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1769
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سی نماز افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”لمبا قیام“ یعنی جس نماز میں قیام طویل ہو۔ ابوبکرنے حَدَّثَنَا الْاَعْمَشْ کی جگہ عَنِ الْاَعْمَشْ کیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1769]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: وتر میں دعائے قنوت کی کوئی روایت مصنف کی شرط پر نہیں ہے اس لیے امام صاحب نے دعائے قنوت کا ذکر نہیں کیا، ائمہ اربعہ کا مسلک یہ ہے کہ اما م مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وتر میں قنوت نہیں ہے۔ باقی تینوں ائمہ کےنزدیک قنوت وتر ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پورا سال اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یہی ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک رمضان کے آخری نصف میں، کیونکہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رمضان کے آخری نصف میں ہی وتر کے اندر قنوت کرتے تھے جب وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم کے مطابق نماز تراویح پڑھانے لگے تھے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا قول بھی یہی ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قنوت کا موقع اور محل رکوع کے بعد ہے۔ کیونکہ باقی نمازوں میں قنوت رکوع کے بعد کیا جاتا ہے اور احناف کے نزدیک قنوت رکوع سے پہلے ہے اگر تمام احادیث کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے وتر میں دونوں کی گنجائش ہے رکوع سے پہلے پڑھ لے یا رکوع کے بعد۔