1025 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا إسماعيل بن امية، قال: ثني اعرابي من اهل البادية، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: قال ابو القاسم صلي الله عليه وسلم:" إذا قرا احدكم لا اقسم بيوم القيامة، فاتي علي آخرها ﴿ اليس ذلك بقادر علي ان يحيي الموتي﴾، فليقل: بلي، وإذا قرا والمرسلات عرفا، فاتي علي آخرها ﴿ فباي حديث بعده يؤمنون﴾، فليقل: آمنا بالله، وإذا قرا والتين والزيتون، فاتي علي آخرها ﴿ اليس الله باحكم الحاكمين﴾، فليقل: بلي" وربما قال سفيان: بلي، وانا علي ذلك من الشاهدين" قال سفيان: قال إسماعيل: «فاستعدت الاعرابي الحديث» ، فقال: يا ابن اخي، اتراني لم احفظه، لقد حججت ستين حجة ما منها حجة إلا وانا اعرف البعير الذي حججت عليه1025 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، قَالَ: ثَنِي أَعْرَابِيٌّ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا قَرَأَ أَحَدُكُمْ لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَأَتَي عَلَي آخِرِهَا ﴿ أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَي أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَي﴾، فَلْيَقُلْ: بَلَي، وَإِذَا قَرَأَ وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا، فَأَتَي عَلَي آخِرِهَا ﴿ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ﴾، فَلْيَقُلْ: آمَنَّا بِاللَّهِ، وَإِذَا قَرَأَ وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ، فَأَتَي عَلَي آخِرِهَا ﴿ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ﴾، فَلْيَقُلْ: بَلَي" وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: بَلَي، وَأَنَا عَلَي ذَلِكَ مِنَ الشَّاهِدِينَ" قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ إِسْمَاعِيلُ: «فَاسْتَعَدْتُ الْأَعْرَابِيَّ الْحَدِيثَ» ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، أَتَرَانِي لَمْ أَحْفَظْهُ، لَقَدْ حَجَجْتُ سِتِّينَ حِجَّةً مَا مِنْهَا حِجَّةٌ إِلَّا وَأَنَا أَعْرِفُ الْبَعِيرَ الَّذِي حَجَجْتُ عَلَيْهِ
1025- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب کوئی شخص یہ آیت تلاوت کرے۔ «لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ» (75-القيامة:1)”میں قیامت کے دن کی قسم نہیں اٹھاتا“۔ یہاں تک کہ وہ اس کے آخر تک پہنچ جائے۔ «أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى»(75-القيامة:40)”کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو زندہ کردے“؟ تو آدمی کو چاہیے کہ اس وقت یہ کہے: جی ہاں۔ اور جب کوئی شخص یہ سورت تلاوت کرے۔ «وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفًا» (77-المرسلات:1) اور اسے آخر تک تلاوت کرے۔ «فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ» (77-المرسلات:50)”اس کے بعد وہ کون سی حدیث پر ایمان رکھیں گے؟“ تو آدمی کو چاہیے کہ وہ یہ کہے: میں اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور جب کوئی شخص سورہ تین «وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ»(95-التين:1) کی تلاوت کرے اور اس کے آخرتک پہنچے۔ «أَلَيْسَ اللهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ»(95-التين:8)”کیا اللہ تعالیٰ سب سے زبردست حاکم نہیں ہے؟“ تو آدمی کو چاہیے کہ یہ کہے: جی ہاں۔ سفیان نامی راوی بعض اوقات یہ الفاظ نقل کرتے ہیں: ”جی ہاں! اور میں بھی گواہی دینے والوں کے ساتھ ہوں“۔ سفیان کہتے ہیں: اسماعیل نے یہ بات بیان کی ہے میں نے اس دیہاتی سے دریافت کیا: تم یہ حدیث دوبارہ مجھے سناؤ! تو وہ بولا: اے میرے بھتیجے! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ مجھے یہ حدیث یاد نہیں ہوگی۔ میں نے ساٹھ حج کیے ہیں اور مجھے ان میں سے ہر ایک حج کے بارے میں یہ یاد ہے کہ میں نے کون سے اونٹ پر بیٹھ کر وہ حج کیا تھا؟
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة، وأخرجه ابن حاتم فى «علل الحديث» برقم: 1763 من طريق الحميدي هذا۔ وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 3904، وأبو داود فى «سننه» برقم: 887، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3347، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3755، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7509»
من قرأ منكم والتين والزيتون فانتهى إلى آخرها أليس الله بأحكم الحاكمين فليقل وأنا على ذلك من الشاهدين من قرأ لا أقسم بيوم القيامة فانتهى إلى أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى فليقل بلى من قرأ والمرسلات فبلغ فبأي حديث بعده يؤمنون فليقل آمنا بالله
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 887
´رکوع اور سجدے کی مقدار کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص سورۃ «والتين والزيتون» پڑھے اسے چاہیئے کہ جب اس کی آخری آیت «والتين والزيتون» پر پہنچے تو: «بلى وأنا على ذلك من الشاهدين» کہے، اور جو سورۃ «لا أقسم بيوم القيامة» پڑھے اور «أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى» پر پہنچے تو «بلى» کہے، اور جو سورۃ «والمرسلات» پڑھے اور آیت «فبأى حديث بعده يؤمنون» پر پہنچے تو «آمنا بالله» کہے۔ اسماعیل کہتے ہیں: (میں نے یہ حدیث ایک اعرابی سے سنی)، پھر دوبارہ اس کے پاس گیا تاکہ یہ حدیث پھر سے سنوں اور دیکھوں شاید؟ (وہ نہ سنا سکے) تو اس اعرابی نے کہا: میرے بھتیجے! تم سمجھتے ہو کہ مجھے یہ یاد نہیں؟ میں نے ساٹھ حج کئے ہیں اور ہر حج میں جس اونٹ پر میں چڑھا تھا اسے پہچانتا ہوں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 887]
887۔ اردو حاشیہ: اس حدیث میں اعرابی مجہول راوی ہے، تاہم دیگر صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ آیات رحمت پر اللہ سے اس کی رحمت کا سوال اور آیات عذاب پر عذاب سے محفوظ رہنے کا سوال کیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 887