وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: جاء ناس من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسالوه: إنا نجد في انفسنا ما يتعاظم احدنا ان يتكلم به. قال: «او قد وجدتموه» قالوا: نعم. قال: «ذاك صريح الإيمان» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ. قَالَ: «أَو قد وجدتموه» قَالُوا: نعم. قَالَ: «ذَاك صَرِيح الْإِيمَان» . رَوَاهُ مُسلم
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ سے دریافت کیا: ہم اپنے دلوں میں ایسے وسوسے پاتے ہیں کہ انہیں بیان کرنا ہم بہت گراں سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم بھی ایسا محسوس کرتے ہو؟“ انہوں نے عرض کیا، جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو صریح ایمان ہے۔ “ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (132 / 209)»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 64
تخریج: [صحيح مسلم 340]
فقہ الحدیث: ➊ برے وسوسوں سے نفرت کرنا خالص ایمان کی نشانی ہے۔ ➋ ذاتی و خفیہ مسائل کے لئے علمائے حق کی طرف رجوع کرنا تاکہ وہ کتاب و سنت کا حکم بتا دیں، بالکل صحیح طریقہ ہے۔ ➌ صحابہ کرام ایمان کے اعلیٰ ترین درجات پر فائز تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین ➍ برے وسوسوں سے بچنے کے لئے ہر وقت کتاب و سنت پر عمل اور اذکار صحیحہ و کلمات طیبہ میں مصروف رہنا چاہئیے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5111
´وسوسہ دور کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ آئے، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنے دلوں میں ایسے وسوسے پاتے ہیں، جن کو بیان کرنا ہم پر بہت گراں ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے اندر ایسے وسوسے پیدا ہوں اور ہم ان کو بیان کریں، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں ایسے وسوسے ہوتے ہیں؟“ انہوں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”یہ تو عین ایمان ہے ۱؎۔“[سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5111]
فوائد ومسائل: 1۔ ان خیالات سے ایسے اوہام کی طرف اشارہ ہے جن میں شیطان انسان کو دھیرے دھیرے اس سوال کی طرف لاتا ہے کہ اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ 2۔ صاحب ایمان کا اپنے ایمان کے بارے میں چوکنا رہنا اس کے خالص ایمان دار ہونے کی علامت ہے اور ایسے خیالات کا آجانا کوئی مضر نہیں۔ بشرط یہ کہ انسان انہیں دفع۔ (دور) کرنے میں کوشاں رہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5111
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 340
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے کچھ ساتھی حاضر ہو کر درخواست گزار ہوئے: ہمارے دل میں ایسے وساوس آتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو زبان پر لانا انتہائی سنگین سمجھتا ہے۔ آپؐ نے پوچھا: ”کیا واقعی ان خیالات پہ یہ گرانی محسوس کرتے ہو؟۔“ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں! آپؐ نے فرمایا: ”یہ تو خالص ایمان ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:340]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) يَتَعَاظَمُ: اس کو بڑا گراں اور ناگوار تصور کرتا ہے۔ (2) صَرِيحُ الْإِيمَانِ: خالص ایمان ہے۔ فوائد ومسائل: کسی انسان کی یہ کیفیت وحالات کہ وہ دین وشریعت کے خلاف خیالات وساوس سے اتنا گھبرائے کہ کسی کے سامنے ان کا اظہار کرنا بھی اس کے لیے گراں ہو، تو یہ ایمان کے خالص ہونے کی دلیل ہے۔