حدثني زهير بن حرب ، حدثنا جرير ، عن سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: جاء ناس من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فسالوه: إنا نجد في انفسنا ما يتعاظم احدنا ان يتكلم به، قال: وقد وجدتموه، قالوا: نعم، قال: " ذاك صريح الإيمان ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ، قَالَ: وَقَدْ وَجَدْتُمُوهُ، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: " ذَاكَ صَرِيحُ الإِيمَانِ ".
سہیل نے اپنے والد سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا: ہم اپنے دلوں میں ایسی چیزیں محسوس کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو زبان پر لانا بہت سنگین سمجھتا ہے، آپ نے پوچھا: ” کیا تم نے واقعی اپنے دلوں میں ایسا محسوس کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ” یہی صریح ایمان ہے۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھی حاضر ہو کر درخواست گزار ہوئے: ہمارے دل میں ایسے وساوس آتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو زبان پر لانا انتہائی سنگین سمجھتا ہے۔ آپؐ نے پوچھا: ”کیا واقعی ان خیالات پہ یہ گرانی محسوس کرتے ہو؟۔“ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں! آپؐ نے فرمایا: ”یہ تو خالص ایمان ہے۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 132
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (12600)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 340
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) يَتَعَاظَمُ: اس کو بڑا گراں اور ناگوار تصور کرتا ہے۔ (2) صَرِيحُ الْإِيمَانِ: خالص ایمان ہے۔ فوائد ومسائل: کسی انسان کی یہ کیفیت وحالات کہ وہ دین وشریعت کے خلاف خیالات وساوس سے اتنا گھبرائے کہ کسی کے سامنے ان کا اظہار کرنا بھی اس کے لیے گراں ہو، تو یہ ایمان کے خالص ہونے کی دلیل ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 340
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 64
´ایمان کی علامت` «. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ. قَالَ: «أَو قد وجدتموه» قَالُوا: نعم. قَالَ: «ذَاك صَرِيح الْإِيمَان» . رَوَاهُ مُسلم . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مقدسہ میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ بعض دفعہ ہم اپنے دلوں میں ایسی باتیں پاتے ہیں کہ زبان پر لانا بھی بعض لوگ برا جانتے ہیں یعنی زبان سے کہنے کو بھی جائز نہیں سمجھتے عمل کرنا تو درکنار؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم ایسی باتوں کو پاتے ہو جنہیں زبان سے کہنے کو بھی برا جانتے ہو؟“ ان لوگوں نے عرض کیا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ظاہر ایمان ہے۔“ یعنی ایمان دار ہونے کی یہ ظاہری علامت ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 64]
تخریج: [صحيح مسلم 340]
فقہ الحدیث: ➊ برے وسوسوں سے نفرت کرنا خالص ایمان کی نشانی ہے۔ ➋ ذاتی و خفیہ مسائل کے لئے علمائے حق کی طرف رجوع کرنا تاکہ وہ کتاب و سنت کا حکم بتا دیں، بالکل صحیح طریقہ ہے۔ ➌ صحابہ کرام ایمان کے اعلیٰ ترین درجات پر فائز تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین ➍ برے وسوسوں سے بچنے کے لئے ہر وقت کتاب و سنت پر عمل اور اذکار صحیحہ و کلمات طیبہ میں مصروف رہنا چاہئیے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5111
´وسوسہ دور کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ آئے، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنے دلوں میں ایسے وسوسے پاتے ہیں، جن کو بیان کرنا ہم پر بہت گراں ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے اندر ایسے وسوسے پیدا ہوں اور ہم ان کو بیان کریں، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں ایسے وسوسے ہوتے ہیں؟“ انہوں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”یہ تو عین ایمان ہے ۱؎۔“[سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5111]
فوائد ومسائل: 1۔ ان خیالات سے ایسے اوہام کی طرف اشارہ ہے جن میں شیطان انسان کو دھیرے دھیرے اس سوال کی طرف لاتا ہے کہ اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ 2۔ صاحب ایمان کا اپنے ایمان کے بارے میں چوکنا رہنا اس کے خالص ایمان دار ہونے کی علامت ہے اور ایسے خیالات کا آجانا کوئی مضر نہیں۔ بشرط یہ کہ انسان انہیں دفع۔ (دور) کرنے میں کوشاں رہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5111