الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 999
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کے چال چلن،
ان کے زیب وزینت اور ہار سنگھار کو دیکھ کر فرمایا تھا،
اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی اس حالت کو دیکھ لیتے تو عورتوں کو مسجدوں میں حاضر ہونے سے روک دیتے،
یہ بات خیرالقرون کے دور کی ہے،
اگر آج کے حالات،
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دیکھ لیتیں تو ان پر کیا گزرتی،
اگر ایسی صورتحال میں مسجدوں میں جانا درست نہیں ہے تو کیا کلبوں،
شاپنگ سنٹروں،
ہوائی جہازوں،
ٹرینوں،
مخلوط تعلیم کی درسگاہوں،
ہوٹلوں،
بینکوں،
ہسپتالوں،
دفتروں اور تفریح گاہوں میں جانا جائز ہو گا۔
لیکن افسوس حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ قول صرف مسجدوں میں حاضری کے وقت یاد آتا ہے اور کسی جگہ اس کو یاد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی،
جب کہ اصل صورت حال یہ ہے کہ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حالات نہیں دیکھے تو اللہ تعالیٰ جو علام الغیوب ہے اس کو تو ان حالات کا پتہ تھا اس نے اپنے رسول کو کیوں یہ حکم نہ دیا کہ اس قسم کے حالات پیدا ہو جائیں گے،
اس لیے تم عورتوں کومسجدوں سے روک دو۔
مزید براں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے خود بھی نہیں روکا،
کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ زمانہ نہ پایا اور نہ منع فرمایا،
اور شریعت کے احکام کسی کی رائے اور قیاس سے نہیں بدل سکتے،
اس لیے عورتوں کو مسجدوں سے روکنے کی بجائے،
دوسری فساد کی جگہوں سے روکا جائے اور مسجدوں میں آنے کے لیے شرعی آداب کی تلقین کی جائے،
مزید براں ہارسنگھار اور میک اپ سب عورتین تو نہیں کرتیں سب کو کیوں روکا جاتا ہے۔
اور بنی اسرائیلی عورتوں کو شریعت کے ذویعہ روکا گیا تھا نہ کہ کسی شخص کی رائے اور قیاس سے،
نیز اس حدیث سے ثابت ہوا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ ﷺ کو عالم الغیب نہیں سمجھتی تھیں،
وگرنہ یہ نہ فرماتیں ”اگر وہ دیکھ لیتے۔
“
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 999