علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 66
´شک کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹتا`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا وجد احدكم فى بطنه شيئا فاشكل عليه: اخرج منه شيء ام لا؟ فلا يخرجن من المسجد، حتى يسمع صوتا او يجد ريحا . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم میں سے کوئی اپنے پیٹ میں ہوا کی حرکت محسوس کرے اور فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے کہ آیا پیٹ سے کوئی چیز خارج ہوئی ہے یا نہیں تو ایسی صورت میں (وضو کرنے کیلئے) وہ مسجد سے باہر نہ جائے، تاوقتیکہ (یقین نہ ہو جائے) ہوا کے خارج ہونے کی آواز یا بدبو سے محسوس کرے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 66]
� لغوی تشریح:
«وَجَدَ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا» اپنے پیٹ میں کسی چیز کو محسوس کیا، گویا ریح گردش کر رہی ہے۔
«أَشْكَلَ» مشتبہ ہو جائے، مشکل ہو جائے۔
«أَخْرَجَ» ہمزہ اس میں استفہام کا ہے، یعنی اسے یہ شک پڑ جائے کہ آیا ریح خارج ہوئی ہے یا نہیں۔
«فَلَا يَخْرُجَنَّ» محض شک اور تردد کی بنا پر نماز نہ توڑے۔
«حَتَّى يَسْمَعَ» یہاں تک کہ وہ ہوا کے بآواز خارج ہونے کو سنے۔
«أَوْ يَجِدَ رِيحًا» یا پھر پیٹ سے خارج ہونے والی بے آواز ہو کی بدبو محسوس کرے۔ مقصود یہ ہے کہ انسان کو یقین ہو جائے کہ ہوا پیٹ سے خارج ہوئی ہے، خواہ ان دو طریقوں کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہو۔ ان دو کا بالخصوص ذکر محض اس لیے کیا ہے کہ اس کے یقین میں یہی دو ذرائع غالب ہیں۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث کی رو سے صاف معلوم ہوا کہ شک کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
➋ اس مفہوم کو ذرا وسیع کریں تو اس سے ایک اصول کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے کہ ہر چیز اپنے حکم اور اصل پر قائم رہتی ہے، تاوقتیکہ اس کے برخلاف یقین و وثوق نہ ہو جائے۔ شک و تردد کوئی قابل اعتبار چیز نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 66