● صحيح البخاري | 5532 | عبد الله بن عباس | ما على أهلها لو انتفعوا بإهابها |
● صحيح البخاري | 5531 | عبد الله بن عباس | هلا استمتعتم بإهابها قالوا إنها ميتة قال إنما حرم أكلها |
● صحيح البخاري | 2221 | عبد الله بن عباس | هلا استمتعتم بإهابها قالوا إنها ميتة قال إنما حرم أكلها |
● صحيح البخاري | 1492 | عبد الله بن عباس | هلا انتفعتم بجلدها قالوا إنها ميتة قال إنما حرم أكلها |
● صحيح مسلم | 814 | عبد الله بن عباس | دباغه طهوره |
● صحيح مسلم | 812 | عبد الله بن عباس | إذا دبغ الإهاب فقد طهر |
● صحيح مسلم | 815 | عبد الله بن عباس | دباغه طهوره |
● صحيح مسلم | 806 | عبد الله بن عباس | هلا أخذتم إهابها فدبغتموه فانتفعتم به فقالوا إنها ميتة فقال إنما حرم أكلها |
● صحيح مسلم | 811 | عبد الله بن عباس | ألا انتفعتم بإهابها |
● صحيح مسلم | 807 | عبد الله بن عباس | هلا انتفعتم بجلدها قالوا إنها ميتة فقال إنما حرم أكلها |
● صحيح مسلم | 809 | عبد الله بن عباس | ألا أخذوا إهابها فدبغوه فانتفعوا به |
● صحيح مسلم | 810 | عبد الله بن عباس | أخذتم إهابها فاستمتعتم به |
● جامع الترمذي | 1728 | عبد الله بن عباس | أيما إهاب دبغ فقد طهر |
● جامع الترمذي | 1727 | عبد الله بن عباس | ألا نزعتم جلدها ثم دبغتموه فاستمتعتم به |
● سنن أبي داود | 4120 | عبد الله بن عباس | ألا دبغتم إهابها واستنفعتم به |
● سنن أبي داود | 4123 | عبد الله بن عباس | إذا دبغ الإهاب فقد طهر |
● سنن النسائى الصغرى | 4246 | عبد الله بن عباس | أيما إهاب دبغ فقد طهر |
● سنن النسائى الصغرى | 4247 | عبد الله بن عباس | الدباغ طهور |
● سنن النسائى الصغرى | 4244 | عبد الله بن عباس | ألا انتفعتم بإهابها |
● سنن النسائى الصغرى | 4243 | عبد الله بن عباس | ألا أخذتم إهابها فدبغتم فانتفعتم |
● سنن النسائى الصغرى | 4242 | عبد الله بن عباس | ألا دفعتم إهابها فاستمتعتم به |
● سنن النسائى الصغرى | 4266 | عبد الله بن عباس | لو انتفعوا بإهابها |
● سنن النسائى الصغرى | 4241 | عبد الله بن عباس | لو نزعوا جلدها فانتفعوا به قالوا إنها ميتة قال |
● سنن النسائى الصغرى | 4240 | عبد الله بن عباس | هلا انتفعتم بجلدها قالوا يا رسول الله إنها ميتة فقال رسول الله إنما حرم أكلها |
● سنن النسائى الصغرى | 4239 | عبد الله بن عباس | لو انتفعت بإهابها قالوا إنها ميتة فقال إنما حرم الله أكلها |
● سنن ابن ماجه | 3610 | عبد الله بن عباس | هلا أخذوا إهابها فدبغوه فانتفعوا به فقالوا يا رسول الله إنها ميتة قال إنما حرم أكلها |
● سنن ابن ماجه | 3609 | عبد الله بن عباس | أيما إهاب دبغ فقد طهر |
● بلوغ المرام | 16 | عبد الله بن عباس | إذا دبغ الإهاب فقد طهر |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 33 | عبد الله بن عباس | إذا دبغ الإهاب فقد طهر |
● المعجم الصغير للطبراني | 125 | عبد الله بن عباس | أيما إهاب دبغ ، فقد طهر |
● مسندالحميدي | 317 | عبد الله بن عباس | ما على أهل هذه لو أخذوا إهابها فدبغوه، فانتفعوا به |
● مسندالحميدي | 492 | عبد الله بن عباس | أيما إهاب دبغ فقد طهر |
● مسندالحميدي | 498 | عبد الله بن عباس | ما على أهل هذه لو أخذوا إهابها فدبغوه وانتفعوا به |
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 16
´دباغت (رنگائی) کے بعد ہر قسم کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا دبغ الإهاب فقد طهر . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”جب کچے چمڑے کو (مسالہ لگا کر) رنگ دیا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 16]
�
لغوی تشریح:
«دُبِغَ» «دِبَاغ» سے ماخوذ ہے۔ «دُبِغَ» صیغۂ مجہول ہے۔ اس کا مطلب ہے: چمڑے کی رطوبت اور دیگر فضلات (گندگیوں) کو خشک کرنا اور جو چیز اس کی بدبو اور خرابی کی موجب ہو اسے زائل کرنا۔
«اَلْإِهَابُ» بروزن «اَلْكِتَابُ» ۔ مطلق چمڑے کے لیے استعمال ہوتا ہے یا پھر اس چمڑے کو بھی کہتے ہیں جسے ابھی تک رنگا نہ گیا ہو۔
«أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ» باقی ماندہ الفاظ حدیث یہ ہیں: «فَقَدْ طَهُرَ» اور «أَيُّمَا» عمومیت کا مفہوم ادا کرتا ہے، اس لیے اس میں تمام چمڑے شامل ہیں۔
فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث ہر قسم اور ہر نوع کے حیوانات کے چمڑوں کو شامل ہے، البتہ خنزیر، یعنی سور کا چمڑا بالاتفاق اس سے مستثنیٰ ہے اور اکثریت کے نزدیک کتے کا چمڑا بھی مستثنیٰ ہے اور محققین علماء کے نزدیک ان تمام جانوروں کا چمڑا بھی مستثنیٰ ہے جو غیر مأکول اللحم ہیں، یعنی جن کا گوشت کھایا نہیں جاتا۔
➋ حدیث مذکور سے معلوم ہوتا ہے کہ دباغت (رنگائی) کے بعد ہر قسم کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے، وہ چمڑا خواہ حلال جانور کا ہو یا حرام کا، جانور خواہ شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو یا خود اپنی طبعی موت مرا ہو۔ اس اصول عمومی کے باوجود بعض جانور ایسے ہیں جن کے چمڑے کو دباغت کے باوجود پاک قرار نہیں دیا گیا، مثلاً: خنزیر کا چمڑا، اسے نجس عین ہونے کی بنا پر پاک قرار نہیں دیا گیا اور انسان کا چمڑا، اسے بھی بوجہ اس کی کرامت و بزرگی اور شرف کے حرام ٹھہرایا گیا ہے تاکہ بےقدری سے اسے محفوظ رکھا جائے۔
➌ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ خنزیر اور کتے پر اگر تکبیر پڑھ کر انہیں ذبح کیا جائے تو اس صورت میں وہ بھی پاک ہو جاتا ہے جبکہ یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح احناف کا کتے کے چمڑے کو دباغت کے بعد پاک قرار دینا بھی صائب و صحیح رائے پر مبنی نہیں ہے۔
➍ یہ ذہن نشین رہے کہ جن جانوروں کے چمڑے دباغت کے بعد پاک ہو جاتے ہیں ان کے سینگ، بال، دانت اور ہڈیاں وغیرہ کام میں لائی جا سکتی ہیں، نیز ان کی تجارت بھی کی جا سکتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 16
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 33
´مردار کی کھال سے دباغت کے بعد فائدہ اٹھانا`
«. . . عن عبد الله بن عباس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا دبغ الإهاب فقد طهر . . .»
”. . . سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب چمڑے کو دباغت دی جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 33]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 366/105، من حديث ما لك به .]
تفقه:
➊ حلال جانوروں کی جلد کو اہاب کہتے ہیں۔ مشہور نحوی امام ابوالحسن النضر بن شمیل المازنی البصری رحمہ اللہ (متوفی 203ھ) نے فرمایا: اونٹ، گائے اور بکریوں کی کھال کو اہاب اور درندوں کی کھال کوجلد کہاجاتا ہے۔ مسائل الامام احمد اسحاق بن راہوی اولیه اسحاق بن منصور الکوسج 215/1 فقرہ: 477 وسندہ صحیح)
● تقریباً یہی بات اختصار کے ساتھ امام اسحاق بن راہویہ نے کہی ہے۔ (ایضاً: 477) نیز ملاحظ فرمائیں لسان العرب (مادة: أهب)
◄ معلوم ہوا کہ حلال جانوروں کی کھالیں دباغت سے پاک ہو جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے درندے مثلاً کتے وغیرہ مراد نہیں ہیں۔ درندوں کی کھالوں کی ممانعت کے لئے دیکھئے الموطأ ح:52
➋ مزيد فقہی فوائد کے لئے دیکھئے الموطأ حدیث:52
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 182
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4239
´مردار جانور کی کھال کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک پڑی ہوئی مردار بکری کے پاس سے ہوا، آپ نے فرمایا: ”یہ کس کی ہے؟“ لوگوں نے کہا: میمونہ کی۔ آپ نے فرمایا: ”ان پر کوئی گناہ نہ ہوتا اگر وہ اس کی کھال سے فائدہ اٹھاتیں“، لوگوں نے عرض کیا: وہ مردار ہے۔ تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے (صرف) اس کا کھانا حرام کیا ہے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الفرع والعتيرة/حدیث: 4239]
اردو حاشہ:
1۔باب کے ساتھ حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ مردہ جانور چمڑے کا حکم یہ ہے کہ اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے بشر طیکہ اسے رنگ دیا جائے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔|
2۔حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی امام یا ذمہ دار شخص کی بات کا مفہوم سمجھ میں نہ آئے تو اس سے پوچھا جاسکتا ہے، یہ اس کے احترام کے منافی نہیں جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھ لیا تھا کہ مردار جانور کے چمڑے سے کس طرح نفع اٹھایا جاسکتا ہے؟
3۔قابل احترام اور ذی وقار شخصیت کو بھی سوال، بحث و تحقیق کے وقت برہم نہیں ہونا چاہیے اور نہ وہ اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ کا بہترین اسوہ ہے کہ آپ نے لوگوں کیک پوچھنے لپر بلاتا مل بتا دیا۔
4۔اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کتاب اﷲ عموم کی تخصیص حدیث شریف سے ہوسکتی ہے۔ قرآن مجید میں مطلق طور پر فرمایا گیا ہے: مردار کی حرمت کا حکم اس کے ہر ہر جز کو شامل ہے اور ہر حال میں شامل ہے۔ حدیث اور سنت نے اس عام حکم میں یہ تخصیص کردی ہے کہ مردار جانور چمڑا رنگ لیا جائے تو اس کا استعمال حلال ہوجاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4239
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4247
´مردار جانور کی کھال کے حکم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن وعلہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: ہم لوگ مغرب کے علاقہ میں جہاد کو جا رہے ہیں، وہاں کے لوگ بت پرست ہیں، ان کے پاس مشکیں ہیں جن میں دودھ اور پانی ہوتا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دباغت کی ہوئی کھالیں پاک ہوتی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن وعلہ نے کہا: یہ آپ کا خیال ہے یا کوئی بات آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ انہوں نے کہا: بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (سنی) ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الفرع والعتيرة/حدیث: 4247]
اردو حاشہ:
معلوم ہوا اگرچہ بت پرست کا ذبیحہ تو حلال نہیں مگر وہ چمڑے کو دباغت دے تو چمڑا پاک ہو جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4247
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4266
´چوہیا گھی میں گر جائے تو کیا کیا جائے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مردہ بکری کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”اس بکری والوں پر کوئی حرج نہ ہوتا اگر وہ اس کی کھال (دباغت دے کر) سے فائدہ اٹھا لیتے۔“ [سنن نسائي/كتاب الفرع والعتيرة/حدیث: 4266]
اردو حاشہ:
اس حدیث کا متعلقہ باب سے تو کوئی تعلق نہیں، البتہ گزشتہ ابواب سے تعلق ہے۔ ممکن ہے قریبی باب ضمنی ہو۔ اصل باب سابقہ ہی ہو۔ قریبی باب جملہ معترضہ کی طرح ہو گا۔ و اللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4266
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1727
´دباغت کے بعد مردار جانوروں کی کھال کے استعمال کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک بکری مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری والے سے کہا: تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی؟ پھر تم دباغت دے کر اس سے فائدہ حاصل کرتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1727]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ مردہ جانور کی کھال سے فائدہ دباغت (پکانے) کے بعد ہی اٹھایا جاسکتا ہے،
اور ان روایتوں کوجن میں دباغت (پکانے) کی قید نہیں ہے،
اسی دباغت والی روایت پر محمول کیاجائے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1727
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1728
´دباغت کے بعد مردار جانوروں کی کھال کے استعمال کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس چمڑے کو دباغت دی گئی، وہ پاک ہو گیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1728]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ ہر چمڑا جسے دباغت دیاگیا ہو وہ پاک ہے،
لیکن اس عموم سے درندوں کی کھالیں نکل جائیں گی،
کیوں کہ اس سلسلہ میں فرمان رسول ہے (أن رسول الله ﷺ نهى عن جلود السباع) یعنی آپ ﷺ نے درندوں کی کھالوں (کے استعمال) سے منع فرمایا ہے،
اس حدیث کی بنیاد پر درندوں کی کھالیں ہر صورت میں ناپاک ہی رہیں گی،
اور ان کا استعمال ناجائز ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1728
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:317
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ماکول اللحم (حلال) جانور اگر مر جائے تو اس کے چمڑے سے فائدہ اٹھانے کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کو رنگا جائے۔ یاد رہے کہ غیر ماکول اللحم (حرام) جانوروں کا چمڑا رنگنے سے بھی پاک نہیں ہوتا تفصیلی بحث کے لیے دیکھیں، راقم کی قیمتی کتاب”جانوروں کے احکام“۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 317
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:492
492- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس چمڑے کی دباغت کرلی جائے وہ پاک ہوجاتا ہے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:492]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ چمڑا رنگنے سے پاک ہو جاتا ہے، یاد رہے کہ ماکول اللحم جانور (جس کا گوشت کھایا جائے) جب مرتا ہے تو اس کا چمڑا ناپاک ہو جاتا ہے، جب اس کو رنگ دیا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے لیکن غیر ماکول اللحم جانوروں کا چمڑارنگنے سے پاک نہیں ہوتا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 492
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:498
498- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی کنیز کی مردہ بکری کے پاس سے ہوا جو اس کنیز کو صدقے کے طور پر دی گئی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس کے مالک کو کوئی نقصان نہیں ہوگا اگر وہ اس کی کھال حاصل کرکے اس کی دباغت کرکے اس سے نفع حاصل کریں۔“ لوگوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ)! یہ مردار ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ سفیان نامی راوی نے بعض اوقات اس میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ کیا ہے اور بعض اوقات ان کا تذکرہ نہیں کیا، تو ہم اس طرح اور اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:498]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ماکول اللحم جانور اگر مر جائے تو اس کی کھال نا پاک ہو جاتی ہے، اور اگر جانور کی کھال اتار کر اسے کیکر کی چھال سے رنگ لیا جائے، تو اس سے وہ پاک ہو جاتی ہے۔ یاد رہے کہ غیر ماکول اللھم جانور کی کھال ہر حالت میں نا پاک ہے، وہ رنگنے سے بھی پاک نہیں ہوتی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 498
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 815
ابن وعلہ سبائی سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا، ہم مغرب میں رہتے ہیں، تو ہمارے پاس مجوسی پانی اور چربی کے مشکیزے لاتے ہیں تو انہوں نے کہا، پی لیا کرو، میں نے پوچھا، کیا آپ اپنی رائے سے بتا رہے ہیں؟ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے جواب دیا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اس کو رنگنا اس کو پاک کر دیتا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:815]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَسْقِيَة:
سقاء،
کی جمع ہے۔
چمڑے کے مشکیزہ کو کہتے ہیں۔
(2)
دَبَاغَت:
ہر اس چیز سے جائز ہے جو کھال کی رطوبت کو خشک کرکے،
اس کی بدبو کو زائل کردے،
اور کھال سڑنے گلنے سے محفوظ ہوجائے۔
فوائد ومسائل:
احادیث مذکورہ بالا میں صرف جائز حیوانات کا یا مجوسیو،
کے مشکیزوں کا تذکرہ ہے حلال جانور کی کھال کے دباغت سے پاک ہونے میں کوئی اختلاف نہیں حلت و حرمت سے قطع نظر عمومی طور پر آئمہ کے مختلف نظریات ہیں (1)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سور اور کتے کے سواہر ایک مردہ جانور کی کھال اندر اور باہر سے پاک ہو جاتی ہے اس لیے اس میں خشک اور تر ہر قسم کی چیز رکھی جا سکتی ہے۔
(2)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول یہ ہے دباغت سے کسی مردہ جانور کی کھال پاک نہیں ہوتی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف یہی قول منسوب ہے۔
(3)
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ،
ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ اور اسحٰق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ یہ ہے کہ صرف حلال جانور کی کھال رنگنے سے پاک ہوتی ہے حرام جانور کی کھال پاک نہیں ہوتی۔
(4)
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خنزیر کے سوا ہر مردار جانور کی کھال رنگنے سے پاک ہو جاتی ہے۔
(5)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا قول یہ ہے رنگنے سے سب کھالیں پاک ہو جاتی ہیں،
مگر صرف باہر سے،
اندر سے نہیں اس لیے ان میں کوئی تر چیز نہیں ڈالی جا سکتی۔
(6)
ہر جانور کی کھال اندر اور باہر سے رنگنے سے پاک ہو جاتی ہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور داؤد ظاہری کا یہی موقف ہے۔
(7)
بلا رنگے ہوئے ہی مرد ہ جانور کی کھال سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے امام زہری رحمۃ اللہ علیہ اور بعض شافعیوں کا یہی نظریہ ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 815
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2221
2221. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”تم نے اس کی کھال سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟“ لوگوں نے کہا: یہ تو مردار ہے۔ آپ نے فرمایا: ”مردار کا صرف کھانا حرام ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2221]
حدیث حاشیہ:
حالانکہ قرآن شریف میں حُرمت عَلَیکُمُ المیتةُ (المائدة: 3)
مطلق ہے۔
اس کے سب اجزاءکو شام مل ہے، مگر حدیث سے اس کی تخصیص ہوگئی کہ مردار کا صرف کھانا حرام ہے۔
زہری نے اس حدیث سے دلیل لی، اور کہا کہ مردار کی کھال سے مطلقاً نفع اٹھانا درست ہے۔
دباغت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، لیکن دباغت کی قید دوسری حدیث سے نکالی گئی ہے۔
اور جمہور علماءکی وہی دلیل ہے اور امام شافعی ؒ نے مرداروں میں کتے اور سور کا استثناء کیا ہے۔
اس کی کھال دباغت سے بھی پاک نہ ہوگی اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے صرف سور اور آدمی کی کھال کو مستثنی کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2221
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5531
5531. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مری ہوئی بکری کے پاس سے گزرے تو فرمایا: تم نے اس کے چمڑے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟ لوگوں نے کہا کہ یہ تو مردار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”صرف اس کا(گوشت) کھانا حرام ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5531]
حدیث حاشیہ:
چمڑہ دباغت سے پاک ہو جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5531
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1492
1492. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مری ہوئی بکری دیکھی جو حضرت میمونہ ؓ کی آزاد کردہ لونڈی کو بطور صدقہ دی گئی تھی، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”تم اس کی کھال سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے؟ “ لوگوں نے عرض کیا:وہ تو مردار ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا:”مردار کا صرف کھاناحرام ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1492]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات ؓ کے غلاموں اور لونڈیوں کو صدقہ دینا جائز ہے، البتہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام اور لونڈی صدقہ نہیں لے سکتے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو مخزوم کے ایک آدمی کو زکاۃ کی وصولی پر مقرر فرمایا، اس نے حضرت ابو رافع ؓ سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو، تمہیں بھی اس میں سے کچھ حصہ مل جائے گا، انہوں نے کہا:
میں اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے متعلق دریافت نہ کر لوں، چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا تو آپ نے فرمایا:
”قوم کا آزاد کردہ غلام بھی انہیں میں شمار ہوتا ہے اور ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔
“ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1650) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلاموں کے لیے بھی فرضی و نفلی دونوں قسم کا صدقہ حرام ہے، البتہ خود ازواج مطہرات ؓ رسول اللہ ﷺ کی آل میں شامل ہیں اور ان کے لیے صدقہ و خیرات حرام ہے، جیسا کہ خلال نے اس روایت کو نقل کیا ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم آل محمد ﷺ سے ہیں اور ہمارے لیے صدقہ حرام ہے۔
(فتح الباري: 448/3)
اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ خالد بن سعید نے حضرت عائشہ ؓ کو کچھ صدقہ بھیجا تو انہوں نے فرمایا:
”ہم آل محمد ﷺ سے تعلق رکھتی ہیں، ہمارے لیے صدقہ جائز نہیں۔
“ (المصنف لابن أبي شیبة: 214/3، وعمدةالقاري: 545/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1492
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2221
2221. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”تم نے اس کی کھال سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟“ لوگوں نے کہا: یہ تو مردار ہے۔ آپ نے فرمایا: ”مردار کا صرف کھانا حرام ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2221]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مردارکی کھال سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، لہٰذا اس کی خریدوفروخت کو حرام نہیں فرمایا۔
(2)
بظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مردار کی کھال سے فائدہ اٹھانا جائز ہے اگرچہ اسے رنگا نہ گیا ہو۔
امام زہری ؒ نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔
امام بخاری ؒ کا بھی یہی موقف معلوم ہوتا ہے لیکن صحیح مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے:
”تم نے اس کی کھال کو رنگا کیوں نہیں اور پھر اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا۔
“ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 806(363)
اس سے معلوم ہوا کہ مردار کی کھال کو دباغت دیے بغیر استعمال نہیں کرنا چاہیے اور نہ اس کی خریدوفروخت ہی کرنی چاہیے۔
(3)
امام بخاری ؒ کے موقف کی تاویل بایں الفاظ ہوسکتی ہے کہ ناپختہ چمڑے کی خریدوفروخت کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اس کی رطوبت ختم ہوجائے، خواہ وہ رنگنے سے ہو یا دھوپ لگنے سے، اس بنا پر رنگنا جواز بیع کے لیے شرط نہیں۔
اصلاحی صاحب نے اس مقام پر ایک سوال اٹھایا ہے کہ رنگنے کا اس حدیث میں کہاں ذکر آیا جس کا تذکرہ امام بخاری ؒ نے عنوان میں کیا ہے؟ (تدبرحدیث: 506/1)
اس کا جواب یہ ہے کہ اهاب اس چمڑے کو کہتے ہیں جسے رنگا نہ گیا ہو کیونکہ دباغت کے بعد اسے قربه کہتے ہیں، اس لیے اصلاحی صاحب کا سوال بے محل ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2221
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5532
5532. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ایک مردہ بکری کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”اس کے مالکوں پر کوئی حرج نہ تھا اگر وہ اس کی کھال سے نفع حاصل کرتے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5532]
حدیث حاشیہ:
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کیا ہی اچھا ہوتا اگر تم اس کی کھال اتارتے اور اسے دباغت کے بعد اس سے فائدہ حاصل کرتے۔
“ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 806 (363)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مردار کے چمڑے کو رنگنے کے بعد ہی کارآمد بنایا جا سکتا ہے، البتہ امام زہری کا موقف ہے کہ مردار کے چمڑے سے رنگے بغیر بھی فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یہ ان کا ایک شاذ موقف ہے۔
اس سلسلے میں تمام احادیث اس کا رد کرتی ہیں کیونکہ چمڑا رنگنے ہی سے پاک ہوتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ جب چمڑے کو رنگ دیا جاتا ہے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 812 (366)
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ رنگنے سے کوئی بھی چمڑا پاک نہیں ہوتا کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ مردار کے چمڑے اور پٹھوں سے فائدہ حاصل نہ کرو۔
(جامع الترمذي، اللباس، حدیث: 1729)
اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ إهاب اس چمڑے کو کہتے ہیں جو رنگا ہوا نہ ہو اور رنگنے کے بعد اس پر دوسرے الفاظ کا اطلاق ہوتا ہے، اس لیے ممانعت والی احادیث اس چمڑے پر محمول ہوں گی جو ابھی رنگا ہوا نہ ہو۔
کتے اور خنزیر کے چمڑے کے علاوہ ہر مردار کا چمڑا رنگنے سے پاک ہو جاتا ہے کیونکہ قرآن میں خنزیر کو رجس کہا گیا ہے اور کتے کو بھی نجاست پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس پر قیاس کیا گیا ہے۔
حدیث میں ہے کہ جو بھی چمڑا رنگا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔
(سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3609)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5532