یزید بن اصم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا، لیکن وہ تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مال ودولت کو نہیں دیکھتا،لیکن وہ تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6543
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبولیت کا مدار کسی کی ڈیل ڈول اور جسمانی قوت و طاقت یا اس کی شکل و صورت کی زیبائش اور جمال یا اس کی مال و دولت کی فراوانی نہیں ہے، بلکہ دل کی اصلاح و درستگی، حسن نیت اور اخلاص کے ساتھ، نیک کرداری اور اعمال صالحہ ہیں، اگر کسی شخص کے اعمال بظاہر اچھے ہوں، لیکن اس کا دل اخلاص سے خالی ہو اور اس کی نیت درست نہ ہو تو وہ عمل ہرگز قبول نہ ہو گا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اعمال ظاہرہ کی ضرورت نہیں ہے، بس دل کا تزکیہ اور اخلاص کافی ہے، کیونکہ اگر اعمال ظاہرہ کی ضرورت نہ ہوتی یا ان کی حیثیت نہ ہوتی تو قلوب کے بعد اعمال لانے کی ضرورت نہ تھی اور جہاں یہ آیا ہے، ظاہری اعمال کو نہیں دیکھتا، اس کا معنی ہے، مخصوص عمل کے ظاہر کو نہیں دیکھتا ہے، بلکہ اس کے اخلاص اور نیت کو دیکھتا ہے، جیسا کہ آپ کا فرمان، انما الاعمال بالنيات، عملوں کی صحت و فساد اور قبولیت کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6543
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4143
´قناعت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4143]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) خوبصورت یا بد صورت ہونا بندے کے اپنے ہاتھ میں نہیں بلکہ یہ اللہ کی مشیت کے مطابق ہوتا ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ عمل اچھے ہوں تاکہ اللہ تعالی کو راضی کیا جاسکے۔
(2) اللہ کے ہاں مالدار اور بے زر برابر ہیں۔ مال دار کو محض دولت مند ہونے کی وجہ سے معافی نہیں مل سکتی اور نادار کو محض اس کی مفلسی کی بناء پر مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
(3) مالدار ہونا بھی اللہ کی آزمائش ہےاور مفلس ہونا دوسری طرح کی آزمائش۔ اگر مال دار شکر کرے تو اللہ کے ہاں پسندیدہ ہے۔ اسی طرح نادار آدمی صبر کرے تو اللہ کا پیارا ہےاور بے صبری کرے اور حرام کمائی کی کوشش کرے تو اللہ کے قرب سے محروم ہے۔
(4) انسان اگر نیکی کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہوتو اس کی نیت اور خواہش ضرور رکھنی چاہیے، ایسی نیت پر بھی ثواب ملتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4143