شعبہ نے ابو بشر سے اسی سند کے ساتھ روایت کی، اور حدیث میں یہ کہا: اس نے ام القرآن (سورۃفاتحہ) پڑھنی شروع کی اور اپنا تھوک جمع کرتا اور اس پر پھینکتا جاتا تو وہ آدمی تندرست ہوگیا۔
امام صاحب کو یہ روایت دو اور اساتذہ نے بھی ابو بشر کی مذکورہ سند سے سنائی اور اس میں یہ ہے، وہ ام القرآن پڑھنے لگا اور اپنی تھوک جمع کر کے تھوکتا، وہ آدمی تندرست ہو گیا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5734
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام کے لیے صحابہ کرام کا تیس (30) افراد پر مشتمل ایک دستہ بھیجا، وہ ایک عربی قبیلہ سے گزرا اور ان سے ضیافت کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے عربی روایات کے برعکس ان کی مہمان نوازی نہ کی، اللہ کا کرنا، اس کے سردار کو بچھو نے ڈس لیا، انہوں نے اس کے علاج کے لیے ہر طرح بھاگ دوڑ کی لیکن کوئی ٹونا ٹوٹکا کارگر ثابت نہ ہوا تو پھر ان میں سے ایک نے کہا، ان لوگوں کے پاس جاؤ، شاید ان میں سے کسی کے پاس اس کا علاج ہو، انہوں نے آ کر صحابہ کرام کو پوری حقیقت سنائی اور پوچھا کیا تم میں سے کوئی اس کا دم کرتا ہے، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا، ہاں، لیکن تم نے ہماری ضیافت نہیں کی، اس لیے جب تک اجرت طے نہ ہو جائے، میں دم نہیں کروں گا تو تیس بکریاں مزدوری طے ہوئی، حضرت ابو سعید کے دل میں فاتحہ پڑھنے کا خیال آیا، اس لیے انہوں نے سات دفعہ فاتحہ پڑھی اور جس زبان سے پڑھی تھی، اس سے برکت کے حصول کے لیے، سردار پر لعاب دہن ڈالا، وہ فورا تندرست ہو گیا، گویا اس کی بیٹری کھول دی گئی ہے، انہوں نے تیس بکریاں لیں تو ساتھی کہنے لگے، ان کو تقسیم کر لیں، حضرت ابو سعید کے دل میں خیال پیدا ہوا، شاید یہ اجرت ہمارے لیے جائز نہ ہو، اس لیے کہنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے کے بعد، ان کا کچھ کریں گے، آپ نے ان کے اطمینان اور تسلی کے لیے فرمایا، بانٹ لو اور میرا حصہ بھی رکھ لو، اس حدیث سے ثابت ہوا، قرآنی آیات کے ذریعہ دم کر کے اجرت لینا جائز ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن تعلیم قرآن پر اجرت لینے میں اختلاف ہے، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کے ایک قول کی رو سے یہ جائز ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک جائز نہیں ہے، مگر متاخرین احناف نے جواز کا فتویٰ دیا ہے، لیکن بقول علامہ سعیدی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے، "جن چیزوں پر تم اجر (مزدوری) لیتے ہو، ان میں اجر کی سب سے زیادہ حقدار اللہ کی کتاب ہے۔ " یہ حدیث تعلیم قرآن پر اجرت لینے کے باب میں نص صریح ہے، کیونکہ اس حدیث میں الفاظ عام ہیں، اس کو دم سے خاص کرنا، صحیح نہیں ہے۔ شرح مسلم ج 6، ص 575۔ اور صحیح بات یہی ہے کہ قاری اپنا تمام وقت، ایک مخصوص مدرسہ میں، مخصوص نظام الاوقات کے مطابق، تعلیم دیتا ہے تو یہ اجرت اس کے وقت کی ہے، جس کی وہ پابندی کرتا ہے، جس طرح زکاۃ وصول کرنے والا اپنا وقت دیتا ہے، قاضی عدل و انصاف کرنے کے لیے وقت صرف کرتا ہے اور اجرت لیتا ہے، اس طرح قاری اپنا وقت دیتا ہے اور ایک مخصوص جگہ کی پابندی کرتا ہے اور یہ ایک ہم وقتی کام ہے، اس کے ساتھ کوئی دوسرا کام کر کے اپنی ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے اپنے وقت کی اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر اس کی معاشی ضروریات اس کے بغیر پوری ہوتی ہیں تو بہتر یہی ہے کہ یہ کام فی سبیل اللہ کرے، اگر تعلیم قرآن مہر بن سکتی ہے تو پھر اجرت میں کیا قباحت ہے، امام بخاری کا رجحان بھی اس طرف ہے۔