یو نس نے ابن شہاب (زہری) سے انھوں نے ابن مسیب سے روایت کی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر پا نچ حق ہیں۔"نیز عبد الرزاق نے کہا: ہمیں معمر نے (ابن شہاب) زہری سے خبر دی، انھوں نے ابن مسیب سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: "ایک مسلمان کے لیے اس کے بھا ئی پر پانچ چیزیں واجب ہیں: سلام کا جواب دینا چھینک مارنے والے کے لیے رحمت کی دعا کرنا دعوت قبول کرنا، مریض کی عیادت کرنا اور جنازوں کے ساتھ جا نا۔"عبدالرزاق نے کہا: معمر اس حدیث (کی سند) میں ارسال کرتے تھے (تابعی اور صحابی کا نام ذکر نہیں کرتے تھے) اور کبھی اسے (سعید) بن مسیب اور آگے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی سند سے (متصل مرفوع) روایت کرتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔“
حق المسلم على المسلم ست قيل ما هن يا رسول الله قال إذا لقيته فسلم عليه وإذا دعاك فأجبه وإذا استنصحك فانصح له وإذا عطس فحمد الله فسمته وإذا مرض فعده وإذا مات فاتبعه
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5650
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) رد السلام: سلام کا جواب دینا فرض ہے اور سلام میں رحمة الله وبركاته کے اضافہ کی دلیل، فرشتوں کا رحمة الله وبركاته عليكم اهل البيت اور تشہد میں السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته ہے، اس طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کے سامنے جبریل علیہ السلام کے جواب میں کہا تھا، وعليه السلام ورحمة الله وبركاته اور یہ روایت صحیحین کی ہے اور بقول نووی رحمہ اللہ، سلام کا جواب فورا دینا چاہیے، خواہ سلام کسی کے ہاتھ آئے یا خط کے ذریعہ اور سلام اتنی آواز سے کہنا چاہیے کہ دوسرے کو سن جائے، اگر دور ہو تو اشارہ کر دے۔ (2) تشميت العاطس، تشميت دراصل تسميت ہے اور سمت راستہ کو کہتے ہیں اور اس کا معنی ہے، راستہ کی ہدایت و راہنمائی کی دعا کرنا اور یہاں مقصد ہے، خیر و بھلائی کی دعا دینا یعنی يرحمك الله کہنا۔ (3) امام نووی اور عبدالوہاب مالکی کے نزدیک تشميت سنة علی الكفاية، یعنی کسی ایک کا دعا دینا کافی ہے۔ (4) جمہور اہل ظاہر، بعض شوافع، ابن مزین مالکی، ابن دقیق العید اور امام ابن قیم کے نزدیک تشميت، فرض عین ہے، ہر ایک کو دعا دینا پڑے گی۔ (5) یہ فرض کفایہ ہے، کسی ایک کا يرحمك الله کہہ دینا کافی ہے، احناف، جمہور حنابلہ، ابن رشد اور ابن العربی کا یہی نظریہ ہے اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے، جس طرح ایک کا سلام کا جواب دینا فرض کی ادائیگی کے لیے بالاتفاق کافی ہے، یہی صورت یہاں ہونی چاہیے اور چھینکنے والے کو چھینک کی آواز ہاتھ رکھ کر آہستہ کرنے کی کوشش کرنا چاہیے اور دوسروں کو ریزش سے بچانا چاہیے اور بلند آواز سے الحمدللہ کہنا چاہیے، تاکہ اس کو يرحمك الله کی دعا دی جائے اور تین چھینکوں تک دعا دینا سنت ہے، کافر کی چھینک پر يهديكم الله ويصلح بالكم کہنا چاہیے، اگر چھینکنے والا الحمدلله نہیں کہتا تو اس کو دعا دینا ضروری نہیں ہے۔ اجابة الدعوه: اگر دعوت قبول کرنے میں کوئی مانع یا رکاوٹ نہ ہو تو پھر اس کو قبول کرنا کم از کم سنت ہے، کیونکہ امر کے صیغہ کی رو سے اس کو فرض قرار دیا جا سکتا ہے، اگر دعوت میں کوئی کام خلاف شریعت ہو تو اس سے روکنا چاہیے، یہ ممکن نہ ہو تو پھر اس میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ عيادة المرض: بیمار کی بیمار پرسی، بقول امام نووی بالاتفاق سنت ہے، بیمار اجنبی ہو یا واقف کار اور امام بخاری اس کے فرض ہونے کے قائل ہیں اور بقول ابن بطال یہ فرض علی الکفایہ ہے۔ اتباع الجنائز: جنازوں کے ساتھ جانا بالاتفاق سنت ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5650
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1236
´مسلمان کے مسلمان پر حق ` «عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم له المسلم على المسلم ست: إذا لقيته فسلم عليه، وإذا دعاك فأجبه، وإذا استنصحك فائضخه، وإذا عطس فى الله فمنه، وإذا مرض ذه، وإذا مات قالبه رواه مسلم.» سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے حق مسلمان پر چھ ہیں جب تو اس سے ملے تو سلام کہہ، جب وہ تجھے بلائے تو اس کے پاس جا، جب تجھ سے خیرخواہی طلب کرے تو اس کی خیرخواہی کر، جب اسے چھینک آئے اور وہ اللہ کی حمد کرے تو اسے «يرحمك الله» کہہ، جب وہ بیمار ہو تو اس کی بیمار پرسی کر اور جب فوت ہو تو اس کے جنازے کے ساتھ جا۔“ اسے مسلم نے روایت کیا۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1236]
تخریج: [صحيح مسلم، السلام 5650]، [تحفه الاشراف 10/ 224] اسلام باہمی اخوت کا دین ہے۔ «إنما المؤمنون إخوة»”مومن بھائی ہیں“ مسلمانوں کے ایک دوسرے پر کئی حقوق ہیں جن میں سے یہ چھ بہت اہم ہیں۔ حق المسلم کے الفاظ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ چیزیں مسلمان کے ذمے مسلمان کا حق ہیں کافر کا حق نہیں ہیں۔ اب ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ تشرتح کی جاتی ہے۔ جب تو اس سے ملے تو سلام کہہ، :
➊ سلام کے متعلق سب سے قوی بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: «الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ»[59-الحشر:23] ”وہ بادشاہ نہایت پاک، سلام، امن دینے والا، غالب (ہے)۔“
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو یوں کہتے۔ «السلام على الله قبل عباده السلام على جبرئيل السلام على ميكائيل السلام على فلان» ”یعنی اللہ پر اس کے بندوں کی طرف سے سلام ہو جبرئیل پر سلام ہو میکائیل پر سلام ہو فلاں پر سلام ہو۔“
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف چہرہ پھیر کر فرمایا «السلام على الله»”اللہ پر سلام ہو“ مت کہو کیونکہ اللہ خود سلام ہے۔ الحدیث [متفق عليه مشكوة باب التشهد]، سلام کا معنی وہ ہستی جو ہر عیب اور نقص سے سالم ہے اور جو سب کو سلامتی دینے والا ہے اور السلام علیکم کا معنی یہ ہوا کہ سلام (اللہ تعالیٰ) تم پر سایہ فگن رہے، تمہارا نگہبان اور محافظ رہے جس طرح کہا جاتا ہے «الله معك والله يصحبك»”اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اللہ تمہارا ساتھی ہو۔“
بعض کہتے ہیں سلام بمعنی «سلامة» ہے یعنی «سلامة الله عليكم»، تم پر اللہ کی سلامتی ہو۔ جب کوئی شخص دوسرے کو سلام کہتا ہے تو وہ اسے اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ میری طرف سے تم بےفکر ہو جاؤ کہ میں تمہیں کوئی نقصان پہنچاؤں گا کیونکہ جو شخص اللہ سے اس کی سلامتی کی دعا کر رہا ہے وہ خود تکلیف کیسے دے سکتا ہے؟
➋ ”جب مسلمان سے ملے اسے سلام کہے“ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جدا ہوتے وقت سلام کی ضرورت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذا انتهى أحدكم إلى المجلس فليسلم فإن بدا له أن يجلس فليجلسن ثم إذا قام قليسلم فلیست الأولى بأحق من الآخرة»[صحيح - مسند أحمد، أبوداود، الترمذي وغيرهم عن أبى هريرة وصحيح الجامع الصغير۔ 40] ”جب تم میں سے کوئی شخص مجلس میں پہنچے تو سلام کہے اگر اس کا ارادہ بیٹھنے کا ہے تو بیٹھ جائے پھر جب اٹھے تو سلام کہے کیونکہ پہلے سلام کا حق دوسرے سے زیادہ نہیں ہے۔“
➌ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا «السلام عليكم» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا پھر وہ بیٹھ گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس“(نیکیاں) پھر ایک اور آیا اس نے «السلام عليكم ورحمة الله» کہا: آپ نے جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیس“ پھر ایک اور آیا اس نے کہا: «السلام عليكم ورحمة الله وبركاته»، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تیس“[صحيح، ابوداود والترمذي عن عمران بن حصين ديكهئے ابوداود باب كيف السلام]
سلام کے کامل الفاظ اتنے ہی ہیں اس سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ «ومغفرته» کے اضافے کی روایت ابوداود میں ہے جس کے متعلق منذری نے فرمایا اس میں ابومرحوم عبدالرحمن بن میمون اور سہل بن معاذ دو راوی ہیں «لا يحتج بهما» ان کے ساتھ دلیل نہیں پکڑی جاتی (عون باب کیف السلام) اور دیکھئیے ضعیف ابوداود اسی طرح «ورضوانه» کے الفاظ بھی سلام کے ساتھ ثابت نہیں۔
➍ جب کوئی شخص سلام کہے تو اس سے بہتر جواب دینا چاہئیے یا کم از کم اتنا جواب ضرور دینا چاہئیے۔ [نساء 89]
➎ اگر تھوڑی دیر کے لئے کسی سے علیحدہ ہو تو دوبارہ ملنے پر پھر سلام کہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کہے پھر اگر ان کے درمیان کوئی درخت یا دیوار یا پتھر حائل ہو جائے تو دوبارہ ملنے پر پھر اسے سلام کہے۔ [صحيح ابوداود عن ابي هريرة 4332] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس فرمان پر بہت اہتمام سے عمل کرتے تھے وہ صحابی جس نے نماز اطمینان سے نہیں پڑھی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ نے اسے واپس بھیجا کہ دوبارہ نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی تین دفعہ ایسا ہی ہوا تو اس نے ہر مرتبہ آ کر پہلے سلام کہا تھا حالانکہ وہ مسجد میں ہی تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسجد میں تھے۔ [بخاري و مسلم]
➏ جو شخص قضائے حاجت میں مشغول ہو اسے سلام نہیں کرنا چاہئے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے ایک آدمی گزرا اور اس نے سلام کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «إذا رأيتني على مثل هذه الحالة فلا تسلم على فإنك إن فعلت ذلك لم أرد عليك»[ابن ماجه، باب الرجل يسلم عليه وهو يبول - صحيح ابن ماجه 282]
جب تم مجھے اس جیسی حالت میں دیکھو تو مجھے سلام مت کہو کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو میں تمہیں جواب نہیں دوں گا۔
➐ نماز پڑھنے والے کو سلام کہنا چاہئیے البتہ وہ نماز کی حالت میں ہاتھ کے اشارے سے جواب دے زبان سے نہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی حالت میں سلام کہتے تھے تو آپ کس طرح جواب دینے تھے؟ فرمایا آپ اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے۔ [الترمذى باب ما جاء فى الإشارة فى الصلاة] اور دیکھئیے [صحيح الترمذي 302 اور صحيح ابن ماجه 1017] اگر نمازی کو سلام کرنا جائز نہ ہوتا تو آپ منع فرما دیتے۔ البتہ نماز کی حالت میں سلام آہستہ کہے جس سے نمازی کو تکلیف نہ ہو ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلم نے مسجد میں اعتکاف کیا تو لوگوں کو بلند آواز سے قرأت کرتے ہوئے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹا کر فرمایا: «ألا إن کلكم مناج ربه فلا يؤذين بعضکم بعضا ولا يرفع بعضكم على بعض فى القراءة أو قال فى الصلاة» ”یاد رکھو تم سب اپنے رب سے سرگوشی کر رہے ہو اس لئے ایک دوسرے کو تکلیف ہرگز نہ دو اور قرات میں یا فرمایا کہ نماز میں ایک دوسرے پر آواز بلند نہ
کرو۔“[ابوداود- التطوع] اور دیکھئے [صحيح ابي داود۔ 1183]
➑ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن پڑھ رہا ہو یا کھانا کھا رہا ہو یا وضو کر رہا ہو اسے سلام نہ کہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں۔ جب نمازی کو سلام کہہ سکتا ہے تو اس سے زیادہ مصروف کون ہو سکتا ہے۔
دعوت قبول کرنا: ”جب تجھے بلائے تو اس کے پاس جا۔“ الفاظ عام ہیں کسی مقصد کے لئے بھی مسلم بھائی بلائے اس کے پاس جانا حق ہے مثلاً وہ مدد کے لئے بلائے یا مشورہ طلب کرنے کے لئے یا کھانے کے لئے غرض کسی بھی جائز کام کے لئے بلائے اس کی دعوت قبول کرنا اس کا حق ہے۔ خاص طور پر اگر اسے مدد کی ضرورت ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه» ”ایک مسلم دوسرے مسلم کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کی مدد چھوڑتا ہے۔“
دعوت ولیمہ میں جانے کی خاص تاکید آئی ہے اور نہ جانے پر وعید آئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت ولیمہ سے متعلق فرمایا: «ومن لم يجب الدعوة فقد عصى الله ورسوله» ”جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔“
ہاں اگر دعوت میں کوئی نامناسب کام دیکھے تو واپس آ جائے۔ ایک دفعہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک قالین خریدا جس پر تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اسے دیکھ کر دروازے پر کھڑے ہو گئے اندر نہیں گئے (عائشہ رضی اللہ عنہا)کہا: یا رسول اللہ! میں اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف توبہ کرتی ہوں میں نے کیا گناہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس قالین کا کیا معاملہ ہے؟ میں نے عرض کیا میں نے اسے آپ کے لئے خریدا ہے کہ آپ اس پر بیٹھیں گے اور تکیہ لگائیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان تصویروں والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، کہا جائے گا جو تم نے بنایا ہے اسے زندہ کرو اور فرمایا جس گھر میں تصویریں ہوں فرشتے اس میں داخل نہیں ہوتے۔ [بخاري كتاب النكا ح]
ابومسعود رضی اللہ عنہ نے گھر میں تصویر دیکھی تو واپس چلے گئے۔ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دعوت دی۔ وہ آئے تو گھر کی دیوار پر پردہ پڑا ہوا دیکھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا عورتوں نے ہم سے زبردستی یہ کام کرا لیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کسی اور پر یہ خطرہ تو ممکن ہے تمہارے متعلق یہ خطرہ نہ تھا اللہ کی قسم میں تمہارا کھانا نہیں کھاؤں گا چنانچہ واپس چلے گئے۔ [بخاري كتاب النكا ح]
اگر پہلے سے معلوم ہو کہ وہاں اللہ کی نافرمانی ہو گی۔ تو دعوت قبول کرنا لازم نہیں۔ «وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ»[11-هود:113] ”اور ان لوگوں کی طرف مائل نہ ہو جاؤ جنہوں نے ظلم کیا ورنہ تمہیں آگ چھوئے گی۔“
ہاں اگر ایسی جگہ جا کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طاقت رکھتا ہو تو ضرور جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تم میں ایک جماعت ہونی چاہئے جو خیر کی دعوت دیں نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں۔“[آل عمران-104]
خیر خواہی! مسلم بھائیوں کی خیر خواہی ہر حال میں ہی ضروری ہے ترمذی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں مومن کے یہی چھ حق بیان کئے گئے ہیں اور خیر خواہی کے متعلق فرمایا: «وينصح له إذا غاب او شهد»”کہ وہ حاضر ہو یا غائب ہو اس کی خیر خواہی کرے۔“[حديث: 2737]
یعنی حاضر ہے تو اس کی جھوٹی تعریف، چاپلوسی اور منافقت نہ کرے غلط مشورہ نہ دے، نہ ہی دھوکا دے اگر غائب ہے تو اس کی غیبت نہ کرے، چغلی نہ کرے، بدخواہی نہ کرے غرض کہ ہر حال میں اس کی بھلائی کی فکر کرے۔ «إذا استنصحك فانصحة» سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی مسلمان بھائی مشورہ پوچھے تو اس وقت اسے درست مشورہ دینے اور اس کی خیرخواہی کرنے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
چھینک پر الحمد للہ کہنے کا جواب:
➊ چھینک کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو «الحمد لله» کہے اس کا بھائی یا ساتھی اسے
«يرحمك الله» کہے جب وہ «يرحمك الله» کہے تو یہ کہے «يهديكم الله ويصلح بالكم» الله تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست کرے۔ [بخاري عن ابي هريره رضی اللہ عنہ]
➋ چھینک آنے پر کم از کم الحمد للہ کہنا واجب ہے۔ اگر اس کے ساتھ «على كل حال» پڑھا جائے تو بہتر ہے ترمذی میں ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم م نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو یوں کہے «الحمد لله على كل حال» دیکھئیے [صحيح الترمذي۔ 2202]
➌ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ کہے۔ «الحمد لله رب العالمين» جواب دینے والا کہے «يرحمك الله» اور وہ خود کہے «يغفرالله لي ولكم»[صحيح الاسناد موقوف صحيح الأدب المفرد 715 - 934] یہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔
➍ على رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جو شخص چھینک سن کر کہے: «الحمد لله رب العالمين على كل حال ما كان» اسے کبھی ڈاڑھ اور کان کا درد نہیں ہو گا۔ [الادب المفرد للبخاري 949]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: اس کے رجال ثقات ہیں اور اس جیسی بات رائے سے نہیں کہی جا سکتی اس لئے یہ مرفوع کے حکم میں ہے۔ [فتح الباري] مگر شیخ البانی نے فرمایا کہ یہ ضعیف ہے۔ کیونکہ یہ ابواسحاق سبیعی کی روایت سے ہے اور انہیں اختلاط ہو گیا تھا۔ اس لئے حافظ نے بھی اسے صحیح نہیں کہا۔ [ضعيف الادب المفرد 926/148]
➎ رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی مجھے چھینک آئی تو میں نے کہا: «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» ”ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے تعریف بہت زیادہ پاکیزہ جس میں برکت کی گئی ہے جس پر برکت نازل کی گئی ہے۔ جس طرح ہمارا رب محبت کرتا ہے اور پسند کرتا ہے۔“ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: نماز میں یہ الفاظ کس نے کہے ہیں- تین دفعہ پوچھا - میں نے عرض کیا۔ میں نے کہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تیس سے زیادہ فرشتے اس کی طرف جلدی سے بڑھے کہ ان میں سے کون اسے لے کر اوپر چڑھے۔ [حسن، صحيح ابي داود 700 و صحيح ترمذي 331]
اس سے معلوم ہوا چھینک آنے پر یہ الفاظ کہے تو اور زیادہ ثواب ہے۔
➏ نماز میں چھینک آنے پر بھی «الحمد لله» ضرور کہنا چاہئیے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہے۔ البتہ نماز کے دوران کسی دوسرے کو جواب دینا جائز نہیں کیونکہ یہ دوسرے آدمی سے خطاب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلم نے فرمایا نماز میں لوگوں کے کلام میں سے کوئی چیز درست نہیں وہ تو صرف تسبیح، تکبیر اور قرآن کی قرأت ہے۔ [مسلم]
➐ جو شخص چھینک آنے پر الحمد للہ نہ کہے اسے «يرحمك الله» نہیں کرنا چاہئے۔ [بخاري باب لا يشمت العاطس اذا لم يحمد الله]
➑ غیر مسلم اگر چھینک آنے پر الحمد للہ کہے تو اسے «يرحمك الله» نہیں کرنا چاہئیے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چھینکتے اور امید کرتے کہ آپ انہیں «يرحمك الله» کہیں گے مگر آپ انہیں یہی کہتے: «يهديكم الله ويصلح بالكم»[صحيح ابي داود 4213 و صحيح الترمذي]
➒ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کا قول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ اپنے بھائی کو تین دفعہ «يرحمك الله» کہو۔ اگر اس سے زیادہ ہو تو زکام ہے۔ [صحيح ابي داود۔ 4210]
➓ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھینک آتی تو اپنے منہ پر اپنا ہاتھ یا کوئی کپڑا رکھ لیتے اور چھینکتے وقت اپنی آواز کو پست رکھتے۔ [صحيح ابوداود 4207 و صحيح الترمذي]
⓫ چھینک آنے پر الحمد للہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ چھینک سے دماغ میں رکے ہوئے فضلات و بخارات خارج ہو جاتے ہیں اور دماغ کی رگوں اور اس کے پٹھوں کی رکا وٹیں دور ہو جاتی ہیں۔ جس سے انسان بہت سی خوفناک بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے۔ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ «الحمد لله» کہے تو ہر اس مسلمان پر جو اسے سنے حق ہے کہ اسے «يرحمك الله» کہے اور جمائی شیطان سے ہے جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جس قدر ہو سکے اسے روکے کیونکہ جب وہ ”ھا“ کہتا ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے۔ [بخاري كتاب الادب] صحیح مسلم میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے وہ اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے۔
بیمار پرسی:
➊ مسلمان کی بیمار پرسی واجب ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے «باب وجوب عيادة المريض» اور اس پر کئی احادیث سے استدلال فرمایا ہے۔
➋ کفار کی تعلیم سے متاثر ڈاکٹروں کی زیادہ سے زیادہ کوشش یہی ہوتی ہے کہ مریض کو کسی سے ملنے نہ دیا جائے حالانکہ بیمار کو دوستوں کے ملنے سے دلی راحت حاصل ہوتی ہے جو دل کی تقویت کا باعث ہوتی ہے جس سے بیماری ختم ہونے میں مدد ملتی ہے . . . ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق . . . وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے . . .
کم از کم اتنی دیر بیمار کی توجہ اپنی بیماری سے کم ہو جاتی ہے جتنی دیر وہ ملنے کے لئے آنے والوں کے ساتھ مشغول رہتا ہے۔
➌ بیمار پرسی کرنے سے مریض کی ضروریات کا علم ہوتا ہے مثلاً اسے کسی طبیب کے پاس لے جانے کی ضرورت ہو۔ یا کسی دوا کی ضرورت ہو یا گھر میں اخراجات کی کمی کا مسئلہ ہو بیمار پرسی ہی سے ضرورت کا علم ہونے پر مسلم بھائی کی مدد کی جا سکتی ہے۔ بعض اوقات بیمار پرسی کرنے والا خود طبیب ہوتا ہے یا اس بیماری میں مبتلا رہ چکا ہوتا ہے وہ بہترین مشورہ بھی دے سکتا ہے۔
➍ بیمار پرسی کے لئے آنے والوں کی دعا اور کتاب و سنت کے الفاظ پر مشتمل دم سے مریض کو صحت ہو سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی مسلمان کسی مسلمان کی بیمار پرسی کرے اور سات مرتبہ یہ کلمات کہے تو اسے عافیت دی جاتی ہے۔ سوائے اس کے کہ اس کی موت کا وقت آ پہنچا ہو: «أسال الله العظيم رب العرش العظيم أن يشفيك»”میں اللہ سے سوال کرتا ہوں جو عظمت والا ہے عرش عظیم کا رب ہے کہ تجھے شفا دے۔“[صحيح][عن ابن عباس - ترمذي ابواب الطب اور ديكهئے صحيح الترمذي۔ 1698]
➎ بیمار پرسی کرنے والے کو چاہئیے کہ مریض کو حوصلہ دلائے اور بیماری کا ثواب ذکر کر کے اس کی ہمت بندھائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بیمار کی عیادت کے لئے جاتے تو فرماتے: «لا بأس طهور ان شاء الله»”کوئی حرج نہیں اگر اللہ نے چاہا تو یہ بیماری پاک کرنے والی ہے۔“[بخاري كتاب المرضىٰ عن ابن عباس]
➏ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بیار کے پاس جاتے یا اسے آپ کے پاس لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے۔ «أذهب الباس رب الناس واشف وأنت الشافى لا شفاء إلا شفاء شفاءك شفاء لا يغادر سقما»[البخاري كتاب۔ المرضي] ”لے جا بیماری کو اے لوگوں کے پروردگار اور شفا دے اور تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں، ایسی شفا دے جو کوئی بیماری نہ چھوڑے۔“ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ اس پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے [كتاب السلام ميں: 1722]
➐ زیر بحث حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیمار پرسی صرف مسلمان کا حق ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلم کی بیمار پرسی بھی کر لیتے تھے۔ جیسا کہ آپ نے ایک یہودی نوجوان کی بیمار پرسی کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا۔ اور اسے اسلام قبول کرنے کے لئے کہا تو وہ مسلمان ہو گیا۔ اسی طرح آپ نے اپنے چچا ابوطالب کی وفات کے وقت اس سے ملاقات کی اور اسلام قبول کرنے کی تلقین فرمائی۔ [صحيح بخاري كتاب المرضی]
➑ ابن ماجہ میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پرسی نہیں کرتے تھے مگر تین راتوں کے بعد“ مگر یہ روایت موضوع ہے اس میں ایک راوی مسلمہ بن علی متروک ہے۔ [سلسلة الضعيفه 45] اس لئے جتنی جلدی ہو سکے بیمار پرسی کرنی چاہیے۔
فرمان الہٰی ہے: «فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ»[5-المائدة:48]”نیکیوں میں سبقت کرو۔“
➒ ترمذی میں علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی بیمار پرسی صبح کے وقت کرے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس پر صلاۃ بھیجتے رہتے ہیں اور اگر پچھلے پہر کرے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس پر صلاۃ بھیجتے رہتے ہیں۔ اور جنت میں اس کے لئے ایک باغ لگ جاتا ہے۔ [ترمذي۔ الجنائز اور ديكهئے صحیح الترمذي 775]
➓ بیمار پرسی کا مقصد بیمارکو راحت پہنچانا ہے اور ظاہر ہے دیر تک بیٹھنے سے اور ہجوم کرنے سے اسے تکلیف ہو گی اس لئے بیمار پرسی کا ایک ادب یہ ہے کہ اس کے پاس زیادہ دیر نہ بیٹھے۔
جنازے کے ساتھ جانا:
➊ «اذا مات فاتبعه» سے معلوم ہوا کہ مسلمان واقف ہو یا ناواقف اس کے جنازے کے ساتھ جانا اس کا حق ہے۔ حدیث میں اس کا بہت اجر آیا ہے۔ [ديكهئے بلوغ المرام كتاب الجنائز حديث- 534]
➋ جنازے کے ساتھ جاتے ہوئے کلمہ شہادت یا کوئی اور ذکر بلند آواز سے پڑھنا جس طرح لوگوں میں آج کل رائج ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 18
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1940
´مردوں کو برا بھلا کہنا منع ہے۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کے مومن پر چھ حقوق ہیں: جب بیمار ہو تو وہ اس کی عیادت کرے، جب مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک رہے، جب دعوت کرے تو اسے قبول کرے، جب وہ اس سے ملے تو اسے سلام کرے، جب چھینکے اور «الحمد للہ» کہے تو جواب میں «یرحمک اللہ» کہے، اور اس کی خیر خواہی کرے خواہ اس کے پیٹھ پیچھے ہو یا سامنے۔“[سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1940]
1940۔ اردو حاشیہ: ➊ یاد رہے کہ بعض حقوق تعلقات اور ضرورت کی حد تک ہیں، مثلاً: بیمار کی بیمارپرسی دنیا کے ہر مسلمان کا نہیں بلکہ اس کے تعلق داروں کا فرض ہے۔ اسی طرح کفن، دفن اور جنازے میں شرکت کرنا بھی اس کے تعلق داروں اور محلے کے افراد وغیرہ کا فرض ہے، ایسے فرائض کو فرض کفایہ کہتے ہیں، یعنی کوئی بیمار، بیمار پرسی کے بغیر نہ رہے اور کوئی میت تکفین و تجہیز اور جنازے سے محروم نہ رہے ورنہ مسلمان گناہ گار ہوں گے۔ ہر ایک کی شرکت فرض نہیں۔ ➋ سلام کا جواب اور چھینک پر دعا (بشرطیکہ وہ الحمدللہ کہے) صرف متعلقہ شخص پر ضروری ہے۔ دعوت کی قبولیت ہر شخص پر ضروری ہے۔ جماعت کی صورت میں چند (خواہ ایک ہی ہو) کی طرف سے ادائیگی کافی ہو گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1940
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1236
´ادب کا بیان` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔ جب ملاقات ہو تو، تو اسے سلام کہ اور جب وہ تجھے دعوت پر مدعو کرے تو دعوت قبول کر اور جب جب وہ تجھ سے نصیحت طلب کرے تو اسے نصیحت کر اور جب وہ چھینک مار کر «الحمد الله» کہے تو اس کے جواب میں تو «يرحمك الله» کہ اور جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کر اور جب وہ وفات پا جائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کر۔“(مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1236»
تخریج: «أخرجه مسلم، السلام، باب من حق المسلم رد السلام، حديث:2162.»
تشریح: 1. اس حدیث میں مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق بیان ہوئے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں پانچ کا ذکر بھی ہے‘ اس میں خیر خواہی کا ذکر نہیں۔ (صحیح مسلم‘ السلام‘ حدیث:۱۲۶۲) 2.ان چھ حقوق کا ادا کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے‘ ظاہر حدیث کے الفاظ سے ان حقوق کی ادائیگی واجب ہی معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1236
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5651
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں“ پوچھا گیا، وہ کون سے ہیں اے اللہ کے رسولﷺ! آپﷺ نے فرمایا: ”جب تم اسے ملو تو سلام کہو اور جب وہ تمہیں دعوت دے تو اسے قبول کرو اور جب وہ تم سے نصیحت کا طالب ہو تو اسے نصیحت کرو اور جب وہ چھینک کر الحمدللہ کہے تو اس کو یرحمک اللہ کہو اور جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ فوت ہو جائے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5651]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: موقع اور محل کی مناسبت سےآپ نے یہ حقوق کہیں کم اور کہیں زیادہ بیان فرمائے ہیں اور ایک روایت میں ان پر اور حقوق کا اضافہ ہے، کمزور کی مدد کرنا، مظلوم کی فریاد رس ی کرنا، سلام کو عام کرنا اور قسم دلانے والے کی قسم کو پورا کرنا اور یہ باہمی حقوق ایسے ہیں، جو مسلمان میں الفت و محبت و ہمدردی اور خیرخواہی کے جذبات کو جلا بخشتے ہیں، باہمی ربط و تعلق کو مضبوط کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے احترام کا جذبہ ابھارتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5651
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1240
1240. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئےسنا:”مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں:سلام کاجواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازے میں شریک ہونا، دعوت کا قبول کرنا اور چھینکنے والے کو دعا دینا۔“ عبدالرزاق نے عمرو بن ابی سلمہ کی متابعت کی اور کہا کہ ہمیں معمر نے خبر دی ہے۔ نیز اس حدیث کو سلامہ بن روح نےعقیل سےبیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1240]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے جنازہ میں شرکت کرنا بھی حقوق مسلمین میں داخل ہے۔ حافظ نے کہا کہ عبدا لرزاق کی روایت کو امام مسلم نے نکالا ہے اور سلامہ کی روایت کو ذہلی نے زہریات میں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1240
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1240
1240. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئےسنا:”مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں:سلام کاجواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازے میں شریک ہونا، دعوت کا قبول کرنا اور چھینکنے والے کو دعا دینا۔“ عبدالرزاق نے عمرو بن ابی سلمہ کی متابعت کی اور کہا کہ ہمیں معمر نے خبر دی ہے۔ نیز اس حدیث کو سلامہ بن روح نےعقیل سےبیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1240]
حدیث حاشیہ: (1) صحیح مسلم کی ایک روایت میں چھ حقوق بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی دوسرے سے مشورہ طلب کرے تو اسے اچھا مشورہ دے۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5851 (2162) جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ ابن بطال نے یہاں حق سے مراد حقِ احترام اور حقِ صحبت لیا۔ (فتح الباري: 146/3) حق بمعنی واجب ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کی صراحت ہے۔ اسے وجوب کفایہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ان حقوق میں تمام مسلمان برابر کے شریک ہیں، خواہ وہ نیک ہوں یا بد، البتہ نیک مسلمانوں سے خوشی کا اظہار کرنا چاہیے اور ان سے مصافحہ وغیرہ بھی مستحسن اقدام ہے، جبکہ فاسق اور فاجر سے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ رد السلام کے متعلق کتاب الاستئذان، عیادۃ المریض کے متعلق کتاب المرضیٰ، إجابة الداعي کے متعلق کتاب الولیمة اور تشمیت العاطس کے متعلق کتاب الأدب میں تفصیل بیان ہو گی۔ اس مقام پر صرف اتباع الجنائز کی مشروعیت کو بیان کرنا مقصود ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان معروف ہو یا غیر معروف اس کے جنازے میں شریک ہونا ضروری ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ جس نے جنازے کے چاروں اطراف کو کندھا دیا اس نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ (المصنف لعبدالرزاق: 512/3) ہمارے علم کے مطابق کسی صحیح حدیث سے جنازے کو کندھا دینے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا، لہذا یہ بھی ضروری نہیں کہ چاروں اطراف کو کندھا دیا جائے، البتہ اختلافی صورت میں اسے غیر ضروری قرار دینے میں چنداں حرج نہیں۔ عبدالرزاق کی متابعت کو امام مسلم ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے، نیز سلامہ کی روایت کو زہریات میں بیان کیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5650 (2160) ، وفتح الباري: 146/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1240