حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا كهمس ، عن ابن بريدة ، قال: راى عبد الله بن المغفل رجلا من اصحابه يخذف، فقال له: " لا تخذف، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يكره، او قال: ينهى عن الخذف، فإنه لا يصطاد به الصيد ولا ينكا به العدو ولكنه يكسر السن ويفقا العين، ثم رآه بعد ذلك يخذف، فقال له: اخبرك ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يكره او ينهى عن الخذف ثم اراك تخذف، لا اكلمك كلمة كذا وكذا "،حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، قَالَ: رَأَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُغَفَّلِ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ يَخْذِفُ، فَقَالَ لَهُ: " لَا تَخْذِفْ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ، أَوَ قَالَ: يَنْهَى عَنِ الْخَذْفِ، فَإِنَّهُ لَا يُصْطَادُ بِهِ الصَّيْدُ وَلَا يُنْكَأُ بِهِ الْعَدُوُّ وَلَكِنَّهُ يَكْسِرُ السِّنَّ وَيَفْقَأُ الْعَيْنَ، ثُمَّ رَآهُ بَعْدَ ذَلِكَ يَخْذِفُ، فَقَالَ لَهُ: أُخْبِرُكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ أَوْ يَنْهَى عَنِ الْخَذْفِ ثُمَّ أَرَاكَ تَخْذِفُ، لَا أُكَلِّمُكَ كَلِمَةً كَذَا وَكَذَا "،
معاذ عنبری نے کہا: ہمیں کہمس نے ابن بریدہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو کنکر سے (کسی چیز کو) نشانہ بناتے ہوئے دیکھا تو کہا: کنکر سے نشانہ مت بناؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ناپسند فرماتے تھے۔یا کہا۔کنکر مارنے سے منع فرماتے تھے، کیونکہ اس کے ذریعے سے نہ کوئی شکار مارا جاسکتا ہے۔نہ دشمن کو (پیچھے) دھکیلا جاسکتاہےیہ (صرف) دانت توڑتاہے یا آنکھ پھوڑتا ہے۔اس کے بعد انھوں نے اس شخص کو پھر کنکر مارتے دیکھا تو اس سے کہا: میں تمھیں بتاتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ناپسند فرماتے تھے یا (کہا:) آپ اس سے منع فرماتے تھے، پھر میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تم کنکر مار رہے ہو!میں اتنا اتنا (عرصہ) تم سے ایک جملہ تک نہ کہوں گا (بات تک نہ کروں گا)
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ساتھیوں سے ایک آدمی کو انگلیوں میں رکھ کر کنکر پھینکتے ہوئے دیکھا، تو اسے کہا، کنکر نہ پھینکو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ناپسند کرتے تھے، یا کہا، خذف سے منع کرتے تھے، کیونکہ اس سے نہ شکار کیا جا سکتا ہے اور نہ دشمن ہی کو تکلیف پہنچائی جا سکتی ہے، لیکن یہ دانت توڑتا ہے اور آنکھ پھوڑتا ہے، پھر اس کے بعد پھر اسے کنکر پھینکتے دیکھا، تو اسے کہا، میں نے تمہیں آگاہ کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنکر پھینکنے کو ناپسند کرتے تھے یا اس سے منع کرتے تھے، پھر میں تمہیں کنکر پھینکتے دیکھ رہا ہوں، میں تم سے اتنا اتناعرصہ گفتگو نہیں کروں گا۔
الخذف أو كان يكره الخذف وقال إنه لا يصاد به صيد ولا ينكى به عدو ولكنها قد تكسر السن وتفقأ العينن ثم رآه بعد ذلك يخذف فقال له أحدثك عن رسول الله أنه نهى عن الخذف أو كره الخذف وأنت تخذف لا أكلمك كذا وكذا
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5050
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) يَخْذِفُ: دو انگلیوں میں رکھ کر کنکر پھینکنا، یہ بچوں کا ایک مشغلہ ہے۔ (2) لَا يُنْكَأُ بِهِ: زخمی کرنا، تکلیف پہنچانا، یعنی اس کے ذریعہ دشمن جو دور ہوتا ہے، اس کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا، ہاں قریبی آدمی کے لیے۔ (3) يَكْسِرُ السِّنَّ: دانت توڑتا ہے۔ (4) يَفْقَأُ الْعَيْنَ: اس کی آنکھ پھوڑتا ہے، اس لیے اس سے کسی فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔ فوائد ومسائل: علامہ نووی کے بقول حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالی عنہ کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بدعت، اہل فسق اور تارکین سنت سے قطع تعلق کر لینا جائز ہے اور تین دن سے زائد قطع تعلق کی حرمت ان لوگوں کے لیے ہے، جو اپنے نفس یا کسی دنیاوی وجہ کی بنا پر قطع تعلق کریں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5050
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4819
´عورت کے پیٹ کے بچے کی دیت کا بیان۔` عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو پتھر پھینکتے دیکھا تو کہا: مت پھینکو، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پتھر پھینکنے سے منع فرماتے تھے، یا پتھر پھینکنا آپ کو پسند نہ تھا، یہ کہمس کا شک ہے۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4819]
اردو حاشہ: مطلب یہ ہے کَھْمَس راوی کو شک ہے کہ ”نهى عنِ الخَذْفِ“ کے الفاظ ہیں یا ”يَكْرَهُ الْخَذْفَ“ کے، تاہم یہ شک صحت روایت پر اثر انداز نہیں ہوگا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4819
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5270
´کنکریاں پھینکنے کی ممانعت۔` عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کھیل کود اور ہنسی مذاق میں) ایک دوسرے کو کنکریاں مارنے سے منع فرمایا ہے، آپ نے فرمایا: ”نہ تو یہ کسی شکار کا شکار کرتی ہے، نہ کسی دشمن کو گھائل کرتی ہے۔ یہ تو صرف آنکھ پھوڑ سکتی ہے اور دانت توڑ سکتی ہے۔“[سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5270]
فوائد ومسائل: 1۔ بے مقصد کام سے ہر مسلمان کو ہمیشہ رہنا چاہیے بالخصوص بچوں کو دیکھا جاتا ہے کہ بلا مقصد بیٹھےکنکر، پتھر مارتے رہتے ہیں تو یہ ایک لغو اور مضر کام ہے نو خیزبچوں کو عمدہ طریقے سے سمجھاتے رہنا چاہیے تاکہ ا ن کی اٹھان خیر کے اعمال پر ہو۔
2: شکار ایک عمدہ مقصد ہے اور اسی طرح میدان جہاد میں کفار کو نشانہ بنانا بھی ایک فضیلت کا عمل ہے۔
3: نشانہ بازی کی مشق کے لئے اگر یہ کام کرنا ہو تو کسی ایسی جگہ ہونا چاہیے جہاں کسی کے لئے کو ئی ضررنہ ہو۔
4: اگر اس کارستانی میں کسی عاقل بالغ سے کسی کی آنکھ پھوٹ گئی یادانت ٹوٹ گیا، تو دیت لازم آئے گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5270
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث17
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔` عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا ایک بھتیجا ان کے بغل میں بیٹھا ہوا تھا، اس نے دو انگلیوں کے درمیان کنکری رکھ کر پھینکی، تو انہوں نے اسے منع کیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام سے روکا ہے اور فرمایا ہے کہ: ”یہ کنکری نہ تو کوئی شکار کرتی ہے، اور نہ ہی دشمن کو زخمی کرتی ہے، البتہ یہ دانت توڑ دیتی ہے اور آنکھ پھوڑ دیتی ہے۔“ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ان کا بھتیجا دوبارہ کنکریاں پھینکنے لگا تو انہوں نے کہا: میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 17]
اردو حاشہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر غلط اور نقصان دہ کام سے منع فرمایا ہے، اگرچہ بظاہر وہ معمولی ہو، کیونکہ بعض اوقات ایک کام بظاہر معمولی نظر آتا ہے، لیکن اس کا انجام معمولی نہیں ہوتا۔
(2) کسی گناہ کے عام ہو جانے کی وجہ سے بھی ہم اسے معمولی سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ اللہ کے ہاں وہ بڑا گناہ ہوتا ہے، اس لیے صغیرہ گناہوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔
(3) ہر وہ کام جس میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو اور نقصان کا اندیشہ ہو، اس سے بچنا ہی چاہیے۔
(4) گناہ کا ارتکاب کرنے والے کو تنبیہ کرنے کے لیے اور اس کے گناہ سے نفرت کے اظہار کے لیے ملاقات ترک کر دینا جائز ہے، تاکہ وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لے۔
(5) ہر اس کام سے اجتناب ضروری ہے جس سے کسی مسلمان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 17
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3226
´ «خذف» یعنی چھوٹی کنکریاں مارنے کی ممانعت۔` سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے ایک رشتہ دار نے کنکری ماری، تو انہوں نے اسے منع کیا اور کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری مارنے سے منع فرمایا ہے، اور فرمایا ہے: ”نہ اس (کنکری مارنے) سے شکار ہوتا ہے، اور نہ یہ دشمن کو زخمی کرتی ہے، ہاں البتہ اس سے دانت ٹوٹ جاتا ہے، اور آنکھ پھوٹ جاتی ہے“، اس شخص نے پھر کنکری ماری تو عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم سے حدیث بیان کر رہا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، اور تم پھر وہی کام کر رہے ہو، اب میں تم سے کبھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3226]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) خذف کا مطلب غلیل وغیرہ سے کنکر پھینکنا یا انگلیوں میں پکڑ کر کنکر دور پھینکنا ہے۔
(2) ایسی تفریح سےاجتناب کرنا چاہیے جس سے کسی کو غیر ارادی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہو۔
(3) ایسی چیزوں کے استعمال کی مشق کرنا بہتر ہے جن سے جہاد میں کام لیا جا سکے تاہم اس مشق میں بھی یہ احتیاط ضروری ہے کہ کسی کو نقصان نہ پہنچے۔
(4) ۔ مسئلہ بتاتے وقت ساتھ دلیل ذکر کرنا بہتر ہے اس سے سائل کو اطمینان حاصل ہوتا ہے اور عمل کرنے والے کو عمل کی ترغیب ہوتی ہے۔
(5) کسی کو برائی سے منع کرنے کے لیے اس سے بات چیت بند کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس سے منفی اثرات ظاہر ہونے کا خطرہ نہ ہو۔
(6) اس سے حدیث نبوی کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ صحابی نے حدیث پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اپنے عزیز کو زجر و توبیخ کی اور اس سے بات چیت بند کر دی۔
(7) امر ونہی بیان کرتے وقت اس کی حکمت بھی ذکر کرنا مفید ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3226
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:911
911-سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے کسی قریبی عزیز نے کسی جانور کو کنکری ماری ان کی موجودگی میں ایسا ہوا تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایسا کرنے سے منع کیا اور یہ بات بیان کی: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”یہ (کنکری) شکار نہیں کرتی ہے، دشمن کو قتل نہیں کرتی ہے، یہ صرف آنکھ پھوڑتی ہے اور دانت توڑتی ہے۔“ اس شخص نے دوبارہ یہ حرکت کی اور کنکری ماری تو سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: میں نے تمہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے کہ نبی اکرم صلی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:911]
فائدہ: مطلب یہ ہے کہ کھیل کوئی با مقصد ہونا چاہیے، بلا وجہ کنکریاں پھینکنا فضول حرکت ہے جس سے کسی کی آنکھ یا دانت ضائع ہو سکتا ہے۔ اس حدیث میں آج کل محلے کے راستوں میں کرکٹ کھیلنے والوں کے لیے راہنمائی ہے کہ انھیں اس ایذا رسانی سے باز آجانا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 910
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5479
5479. سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو کنکری پھیکتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اس طرح کنکری مت پھینکو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کنکری پھیکنے سے منع فرمایا ہے یا اسے ناپسند فرمایا ہے، نیز فرمایا: ”اس سے نہ تو شکار کیا جاسکتا ہے اور نہ دشمن کو زخمی کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کبھی کسی کا دانت توڑ دیتی ہے اور آنکھ پھوڑ دیتی ہے۔“ اس کے بعد پھر اس شخص کو دیکھا کہ وہ کنکریاں پھینک رہا ہے تو اسے کہا: میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں کہ آپ نے کنکری پھیکنےسے منع کیا یا کنکری پھینکنے کو ناپسند فرمایا لیکن تو پھر کنکریاں پھینک رہا ہے، میں تیرے ساتھ اتنے دن تک بات نہیں کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5479]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے ظاہر ہو گیا کہ حدیث پر چلنا اور حدیث کے سامنے اپنی رائے قیاس کو چھوڑنا ایمان کا تقاضا ہے اور یہی صراط مستقیم ہے اللہ اسی پر قائم و دائم رکھے اور اسی راہ حدیث پر موت نصیب کرے۔ آمین۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ و في الحدیث جواز ھجر أن من خالف السنة و ترك کلامه ولا یدخل ذالك في النھي عن الھجر فوق ثلاث فإنه یتعلق بمن ھجر بحظ نفسه۔ یعنی اس سے ان لوگوں سے ترک سلام و کلام جائز ثابت ہوا جو سنت کی مخالفت کریں اور یہ عمل اس حدیث کے خلاف نہ ہوگا جس میں تین دن سے زیادہ ترک کلام کی مخالفت آئی ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے نفس کے لیے ہے اور یہ محبت سنت نبوی فداہ روحی کے لیے سچ ہے یہی وہ صراط مستقیم ہے جس سے خدا ملے گا جیسا کہ علامہ طحطاوی نے مفصل بیان فرمایا ہے۔ فان قلت: ماوقومک علی أنك علی صراط مستقیم و کل واحدمن ھٰذہ الفرق یدعي أنه علیه، قلت: لیس ذالك بالإدعاء بل بالنّقل عن جھابذة الصحابة و علماء أھل الحدیث الذین جمعوا صحاح الأحادیث في أمور رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیه وسلم وأحواله وأقواله و حرکاته و سکناته و أحوال أصحابه و الذین اتبعوھم بإحسان، مثل الإمام البخاري و مسلم وغیر ھما من الثّقات المشھور ین الذین اتفق أھل المشرق و المغرب علی صحة مارووہ في کتبھم من أمور النبي صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلم و أصحابه رضي اللہ تعالیٰ عنھم ثم بعد النقل ینظر إلی الذي تمسك بھدیھم و افتفٰی أثرھم واھتدی بسیرھم في الأصول و الفروع فیحکم بأنه من الذین ھم وھذا ھو الفارق بین الحق والباطل الممیز بین من ھو علیٰ الصراط المستقیم و بین من ھو علی السبیل الذي یمینه و شماله (طحطاوی حاشیہ در مختار مطبوعہ بولاق قاھرة، جلد: 4، کتاب الذبائح، ص: 135) اگر تو کہے کہ تجھے اپنا صراط مستقیم پر ہونا کیسے معلوم ہو حالانکہ ان تمام فرقوں میں ہر ایک یہی دعویٰ کرتا ہے تو میں جواب دوںگا کہ یہ صرف دعویٰ کر لینے اور اپنے وہم و گمان کو سند بنا لینے سے ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ اس پر وہ ہے جو علم منقول حاصل کرے اس فن کے ماہر علمائے اہلحدیث سے جن بزرگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث جمع کیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امور اور احوال اور حرکات و سکنات میں مروی ہیں اور جن بزرگوں نے صحابہ کرام انصار و مہاجرین کے حالات جمع کئے جنہوں نے ان کی احسان کے ساتھ پیروی کی جیسے حضرت امام بخاری و حضرت امام مسلم وغیرہ ہیں جو ثقہ لوگ تھے اور مشہور تھے، جن بزرگوں کی وارد کی ہوئی مرفوع و موقوف احادیث کی صحت پر کل علماء مشرق و مغرب متفق ہیں۔ اس نقل کے بعد دیکھا جائے گا کہ ان محدثین کرام کے طریقے کو مضبوط تھامنے والا اور ان کی پوری پوری اتباع کرنے والا اور تمام کلی و جزئی چھوٹے بڑے کاموں میں ان کی روش پر چلنے والا کون ہے۔ اب جو فرقہ اس طریقہ پر ہوگا (یعنی احادیث رسول پر بطریق صحابہ بلا قید مذہب عمل کرنے والا) اس کی نسبت حکم کیا جائے گا کہ یہی جماعت وہ ہے جو صراط مستقیم پر ہے بس یہی وہ اصول ہے جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے اوریہی وہ کسوٹی ہے جو صراط مستقیم پر ہیں ان میں اوران میں جو اس کے دائیں بائیں ہیں، تمیز کر دیتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5479
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5479
5479. سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو کنکری پھیکتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اس طرح کنکری مت پھینکو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کنکری پھیکنے سے منع فرمایا ہے یا اسے ناپسند فرمایا ہے، نیز فرمایا: ”اس سے نہ تو شکار کیا جاسکتا ہے اور نہ دشمن کو زخمی کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کبھی کسی کا دانت توڑ دیتی ہے اور آنکھ پھوڑ دیتی ہے۔“ اس کے بعد پھر اس شخص کو دیکھا کہ وہ کنکریاں پھینک رہا ہے تو اسے کہا: میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں کہ آپ نے کنکری پھیکنےسے منع کیا یا کنکری پھینکنے کو ناپسند فرمایا لیکن تو پھر کنکریاں پھینک رہا ہے، میں تیرے ساتھ اتنے دن تک بات نہیں کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5479]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے غلیل میں پتھر رکھ کر پھینکنے کا اثبات کیا ہے اور اس سے شکار کرنا ناجائز ٹھہرایا ہے کیونکہ غلیلہ اپنے بوجھ اور زور سے شکار کو مارتا ہے، وہ گوشت کو چیرتا نہیں ہے۔ (2) دور حاضر کی ایجاد بندوق کے ذریعے سے شکار حلال ہے یا حرام؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ اکثر علماء بندوق کے ذریعے سے کیے ہوئے شکار کو حرام کہتے ہیں لیکن ہمارے رجحان کے مطابق بندوق سے کیا ہوا شکار حلال ہے کیونکہ اس کی گولی، لاٹھی یا چھڑی کی طرح جسم سے نہیں ٹکراتی بلکہ تیر یا کسی بھی تیز دھار آلے کی طرح جسم کو پھاڑ کر نکل جاتی ہے، اور اس کارتوس میں چھوٹے چھوٹے لوہے کے ٹکڑے ہوتے ہیں جو جسم کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ جن روایات میں بندوق کے شکار کی ممانعت یا کراہت موجود ہے اس سے مراد موجودہ بندوق کی گولی نہیں بلکہ مٹی کی بنی ہوئی گولی ہے جسے غلیلہ کہا جاتا ہے۔ اس سے مارا ہوا شکار موقوذہ کے حکم میں ہے کیونکہ یہ جسم سے ٹکرا کر سخت چوٹ سے جانور کو مار دیتی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5479
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6220
6220. حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے کنکری پھینکنے سے منع کیا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کنکری شکار نہیں کرسکتی اور نہ دشمن ہی کو ہلاک کرسکتی ہے البتہ یہ آنکھ پھوڑ سکتی ہے اور دانت توڑ سکتی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6220]
حدیث حاشیہ: مسلمان ایک دوسرے کے لیے جسد واحد کی طرح ہیں۔ وہ باہمی مددگار تو ہو سکتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کو تکلیف نہیں پہنچا سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی تعریف یہ کی ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اس حدیث میں بھی ایک ادب کی تعلیم دی گئی ہے کہ مسلمانوں کو کسی طرح بھی تکلیف نہیں پہنچانی چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6220