صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
84. باب أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا:
84. باب: جنتوں میں سب سے کم تر درجہ والے کا بیان۔
Chapter: The Status of the Lowest people in paradise
حدیث نمبر: 479
Save to word اعراب
حدثنا حدثنا ابو الربيع العتكي ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا معبد بن هلال العنزي . ح وحدثناه سعيد بن منصور واللفظ له، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا معبد بن هلال العنزي ، قال: انطلقنا إلى انس بن مالك ، وتشفعنا بثابت، فانتهينا إليه وهو يصلي الضحى، فاستاذن لنا ثابت، فدخلنا عليه واجلس ثابتا معه على سريره، فقال له: يا ابا حمزة، إن إخوانك من اهل البصرة يسالونك، ان تحدثهم حديث الشفاعة، قال: حدثنا محمد صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا كان يوم القيامة ماج الناس بعضهم إلى بعض، فياتون آدم، فيقولون له: اشفع لذريتك، فيقول: لست لها، ولكن عليكم بإبراهيم عليه السلام، فإنه خليل الله، فياتون إبراهيم، فيقول: لست لها، ولكن عليكم بموسى عليه السلام، فإنه كليم الله، فيؤتى موسى، فيقول: لست لها، ولكن عليكم بعيسى عليه السلام، فإنه روح الله وكلمته، فيؤتى عيسى، فيقول: لست لها، ولكن عليكم بمحمد صلى الله عليه وسلم، فاوتى، فاقول: انا لها، فانطلق فاستاذن على ربي، فيؤذن لي، فاقوم بين يديه، فاحمده بمحامد لا اقدر عليه الآن يلهمنيه الله، ثم اخر له ساجدا، فيقال لي: يا محمد، ارفع راس، وقل: يسمع لك، وسل تعطه، واشفع تشفع، فاقول: رب امتي، امتي، فيقال: انطلق، فمن كان في قلبه مثقال حبة من برة او شعيرة من إيمان، فاخرجه منها، فانطلق، فافعل، ثم ارجع إلى ربي، فاحمده بتلك المحامد، ثم اخر له ساجدا، فيقال لي: يا محمد، ارفع راسك، وقل: يسمع لك، وسل تعطه، واشفع تشفع، فاقول: امتي، امتي، فيقال لي: انطلق، فمن كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان، فاخرجه منها، فانطلق، فافعل، ثم اعود إلى ربي، فاحمده بتلك المحامد، ثم اخر له ساجدا، فيقال لي: يا محمد، ارفع راسك، وقل: يسمع لك، وسل تعطه، واشفع تشفع، فاقول: يا رب، امتي، امتي، فيقال لي: انطلق، فمن كان في قلبه، ادنى، ادنى، ادنى من مثقال حبة من خردل من إيمان، فاخرجه من النار، فانطلق، فافعل "، هذا حديث انس الذي انبانا به، فخرجنا من عنده، فلما كنا بظهر الجبان، قلنا: لو ملنا إلى الحسن، فسلمنا عليه وهو مستخف في دار ابي خليفة، قال: فدخلنا عليه فسلمنا عليه، فقلنا: يا ابا سعيد، جئنا من عند اخيك ابي حمزة، فلم نسمع مثل حديث حدثناه في الشفاعة، قال: هيه فحدثناه الحديث، فقال: هيه، قلنا: ما زادنا؟ قال: قد حدثنا به منذ عشرين سنة، وهو يومئذ جميع، ولقد ترك شيئا ما ادري انسي الشيخ او كره، ان يحدثكم فتتكلوا، قلنا له حدثنا فضحك، وقال: خلق الإنسان من عجل سورة الانبياء آية 37 ما ذكرت لكم هذا، إلا وانا اريد ان احدثكموه، ثم ارجع إلى ربي في الرابعة، فاحمده بتلك المحامد، ثم اخر له ساجدا، فيقال لي: يا محمد، ارفع راسك، وقل: يسمع لك، وسل تعط، واشفع تشفع، فاقول: يا رب، ائذن لي فيمن، قال: لا إله إلا الله، قال: ليس ذاك لك، او قال: ليس ذاك إليك، ولكن، وعزتي، وكبريائي، وعظمتي، وجبريائي، لاخرجن من قال: لا إله إلا الله "، قال: فاشهد على الحسن ، انه حدثنا به، انه سمع انس بن مالك اراه، قال: قبل عشرين سنة، وهو يومئذ جميع.
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ . ح وحَدَّثَنَاه سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ ، قَالَ: انْطَلَقْنَا إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، وَتَشَفَّعْنَا بِثَابِتٍ، فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي الضُّحَى، فَاسْتَأْذَنَ لَنَا ثَابِتٌ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ وَأَجْلَسَ ثَابِتًا مَعَهُ عَلَى سَرِيرِهِ، فَقَالَ لَهُ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، إِنَّ إِخْوَانَكَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ يَسْأَلُونَكَ، أَنْ تُحَدِّثَهُمْ حَدِيثَ الشَّفَاعَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ لَهُ: اشْفَعْ لِذُرِّيَّتِكَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِنَّهُ خَلِيلُ اللَّهِ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللَّهِ، فَيُؤْتَى مُوسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِنَّهُ رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ، فَيُؤتَى عِيسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُوتَى، فَأَقُولُ: أَنَا لَهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي، فَيُؤْذَنُ لِي، فَأَقُومُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَأَحْمَدُهُ بِمَحَامِدَ لَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ الآنَ يُلْهِمُنِيهِ اللَّهُ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: رَبِّ أُمَّتِي، أُمَّتِي، فَيُقَالُ: انْطَلِقْ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ بُرَّةٍ أَوْ شَعِيرَةٍ مِنَ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: أُمَّتِي، أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِي: انْطَلِقْ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَعُودُ إِلَى رَبِّي، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي، أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِي: انْطَلِقْ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ، أَدْنَى، أَدْنَى، أَدْنَى مِنْ مِثْقَالِ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ "، هَذَا حَدِيثُ أَنَسٍ الَّذِي أَنْبَأَنَا بِهِ، فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ، فَلَمَّا كُنَّا بِظَهْرِ الْجَبَّانِ، قُلْنَا: لَوْ مِلْنَا إِلَى الْحَسَنِ، فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ وَهُوَ مُسْتَخْفٍ فِي دَارِ أَبِي خَلِيفَةَ، قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا أَبَا سَعِيدٍ، جِئْنَا مِنْ عِنْدِ أَخِيكَ أَبِي حَمْزَةَ، فَلَمْ نَسْمَعْ مِثْلَ حَدِيثٍ حَدَّثَنَاهُ فِي الشَّفَاعَةِ، قَالَ: هِيَهِ فَحَدَّثْنَاهُ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: هِيَهِ، قُلْنَا: مَا زَادَنَا؟ قَالَ: قَدْ حَدَّثَنَا بِهِ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ جَمِيعٌ، وَلَقَدْ تَرَكَ شَيْئًا مَا أَدْرِي أَنَسِيَ الشَّيْخُ أَوْ كَرِهَ، أَنْ يُحَدِّثَكُمْ فَتَتَّكِلُوا، قُلْنَا لَهُ حَدِّثْنَا فَضَحِكَ، وَقَالَ: خُلِقَ الإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سورة الأنبياء آية 37 مَا ذَكَرْتُ لَكُمْ هَذَا، إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي فِي الرَّابِعَةِ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، ائْذَنْ لِي فِيمَنْ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ لَكَ، أَوَ قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ إِلَيْكَ، وَلَكِنْ، وَعِزَّتِي، وَكِبْرِيَائِي، وَعَظَمَتِي، وَجِبْرِيَائِي، لَأُخْرِجَنَّ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ "، قَالَ: فَأَشْهَدُ عَلَى الْحَسَنِ ، أَنَّهُ حَدَّثَنَا بِهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أُرَاهُ، قَالَ: قَبْلَ عِشْرِينَ سَنَةً، وَهُوَ يَوْمِئِذٍ جَمِيعٌ.
معبد بن ہلال عنزی نے کہا: ہم لوگ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ثابت (البنانی) کو اپنا سفارشی بنایا (ان کے ذریعے سے ملاقات کی اجازت حاصل کی۔) ہم ان کے ہاں پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ثابت نے ہمارے لیے (اندر آنے کی) اجازت لی۔ ہم اندر ان کے سامنے حاضر ہوئے۔ انہوں نے ثابت کو اپنے ساتھ اپنی چارپائی پر بٹھالیا۔ ثابت نے ان سے کہا: اے ابوحمزہ! بصرہ کےباشندوں میں سے آپ کو (یہ) بھائی آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ انہیں شفاعت کی حدیث سنائیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: جب قیامت کا دن ہو گا تولوگ موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے۔ وہ آدم رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے: اپنی اولاد کے حق میں سفارش کیجیے (کہ وہ میدان حشر کے مصائب اور جاں گسل انتظار سے نجات پائیں۔) وہ کہیں گے: میں اس کے لیے نہیں ہوں۔لیکن تم ابراہیم رضی اللہ عنہ کا دامن تھام لو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل (خالص دوست) ہیں۔ لوگ ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس جائیں گے۔ وہ جواب دیں گے: میں اس کے لیےنہیں۔ لیکن تم موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ جاؤ وہ کلیم اللہ ہیں (جن سے اللہ نے براہ راست کلام کیا) تو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضری ہو گی۔ وہ فرمائیں گے: میں اس کے لیے نہیں۔ لیکن تم عیسیٰ رضی اللہ عنہ کےساتھ لگ جاؤ کیونکہ وہ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں۔ تو عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آمد ہو گی، وہ فرمائیں گے: میں اس کے لیے نہیں۔ لیکن تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جاؤ، تو (ان کی) آمد میرے پاس ہو گی۔ میں جواب دوں گا: اس (کام) کے لیے میں ہوں۔ میں چل پڑوں گا اور اپنے رب کے سامنے حاضری کی اجازت چاہوں گا، مجھے اجازت عطا کی جائے گی، اس میں اس کے سامنے کھڑا ہوں گا اور تعریف کی ایسی باتوں کے ساتھ اس کی حمد کروں گا جس پر میں اب میں قادر نہیں ہوں، اللہ تعالیٰ ہی یہ (حمد) میرے دل میں ڈالے گا، پھر میں اس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سراٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیں، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت!، میری امت! تو مجھ سے کہاجائے گا: جائیں جس کےدل میں گندم یا جو کے دانے کے برابر ایمان ہے اسے نکال لیں، میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا، پھر میں اپنے رب تعالیٰ کے حضور لوٹ آؤں گا اور حمد کے انہی اسلوبوں سے اس کی تعریف بیان کروں گا، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا تو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں، آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت! مجھے کہا جائے گا: جائیں، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو، اسے نکال لیں۔ تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا، پھراپنے رب کے حضور لوٹ آؤں گا اور اس جیسی تعریف سے اس کی حمد کروں گا، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا۔ تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! ا پنا سر اٹھائیں، کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں، آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں کہوں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت!تو مجھ سے کہا جائے گا: جائیں، جس کے دل میں رائی کے دانے سے کم، اس سے (بھی) کم، اس سے (اور بھی) کم ایمان ہو اسے آگ سے نکال لیں تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا۔ یہ حضرت انس کی روایت ہے جو انہوں نے ہمیں بیان کی۔ (معبدی بن ہلال عنزی نے) کہا: چنانچہ ہم ان کے ہاں سے نکل آئے، جب ہم چٹیل میدان کے بالائی حصے پر پہنچے تو ہم نے کہا: (کیا ہی اچھاہو) اگر ہم حسن بصری کا رخ کریں اور انہیں سلام کرتے جائیں۔ وہ (حجاج بن یوسف کے ڈر سے) ابو خلیفہ کے گھر میں چھپے ہوئے تھے۔ انہوں نےکہا: جب ہم ان کے پاس پہنچے تو انہیں سلام کیا۔ ہم نے کہا: جناب ابوسعید! ہم آپ کے بھائی ابو حمزہ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) کے پاس سے آرہے ہیں۔ ہم نے کبھی اس جیسی حدیث نہیں سنی جو انہوں شفاعت کے بارے میں ہمیں سنائی۔ حسن بصری نے کہا: لائیں سنائیں۔ ہم نے انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کہا: آگے سنائیں۔ ہم نے کہا: انہوں نےہمیں اس سے زیادہ نہیں سنایا۔ انہوں (حسن بصری) نے کہا: ہمیں انہوں نے یہ حدیث بیس برس پہلے سنائی تھی، اس وقت وہ پوری قوتوں کے مالک تھے۔انہوں نے کچھ حصہ چھوڑ دیا ہے، معلوم نہیں، شیخ بھول گئے یا انہوں نے تمہیں پوری حدیث سنانا پسند نہیں کیا کہ کہیں تم (اس میں بیان کی ہوئی بات ہی پر) بھروسا نہ کر لو۔ ہم نےعرض کی: آپ ہمیں سنا دیں تو وہ ہنس پڑے اور کہا: انسان جلدباز پیدا کیاگیا ہے، میں نے تمہارے سامنے اس بات کا تذکرہ اس کے سوا (اور کسی وجہ سے) نہیں کیا تھا مگر اس لیے کہ میں تمہیں یہ حدیث سنانا چاہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں چوتھی بار اپنے رب کی طرف لوٹوں گا، پھر انہی تعریفوں سے اس کی حمد بیان کروں گا، پھر اس حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں، آپ کو دیاجائے گااور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں عرض کروں گا: اے میرے رب! مجھے ان کےبارے میں (بھی) اجازت دیجیے جنہوں نے (صرف) لا الہ الا اللہ کہا۔ اللہ فرمائے گا: یہ آپ کے لیے نہیں لیکن میری عزت کی قسم، میری کبریائی، میری عظمت اور میری بڑائی کی قسم! میں ان کو (بھی) جہنم سے نکال لوں گا جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا۔ معبد کا بیان ہے: میں حسن بصری کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ روایت سنی۔ میرا خیال ہے، انہوں نے کہا: بیس سال پہلے، اور اس وقت ان کی صلاحتیں بھر پور تھیں۔
معبد بن ہلال عنزی بیان کرتے ہیں، کہ ہم لوگ انس بن مالک ؓ کے پاس گئے اور سفارش کے لیے ثابت کو ساتھ لیا۔ تو ہم ان کے پاس اس وقت پہنچے، جب وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ثابت نے ہمیں اجازت لے کر دی، تو ہم اندر ان کے پاس گئے۔ انھوں نے ثابت کو اپنے ساتھ اپنی چارپائی پر بٹھا لیا، تو ثابت نے ان سے عرض کیا: اے ابو حمزہ! آپ کے بصری بھائی آپ سے درخواست کرتے ہیں، کہ آپ انھیں شفاعت کے بارے میں حدیث سنائیں! حضرت انس ؓ نے کہا: ہمیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: جب قیامت کا دن ہوگا (گھبراہٹ کی بنا پر) لوگ ایک دوسرے میں گھسیں گے، تو (سوچ بچار کے بعد) پہلے آدمؑ کے پاس آئیں گے، اور ان سے عرض کریں گے: اپنی اولاد کے حق میں سفارش کیجیے(کہ وہ میدانِ محشر کے مصائب سے نجات پائیں حساب کتاب شروع ہو) تو وہ جواب دیں گے: میں اس کا حق دار نہیں، لیکن تم ابراہیم ؑکے پاس جاؤ! کیونکہ وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ تو لوگ ابراہیم ؑ کے پاس جائیں گے، تو وہ جواب دیں گے: یہ میرا حق نہیں ہے۔ لیکن تم موسیٰؑ کے پاس جاؤ! کیونکہ انھیں اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہے۔ تو موسیٰؑ کے پاس جایا جائے گا، تو وہ فرمائیں گے: یہ میرا منصب نہیں ہے، لیکن تم عیسیٰ ؑ کے پاس جاؤ! کیونکہ وہ روح اللہ اور اس کا کلمہ ہیں۔ تو عیسیؑ کے پاس جایا جائے گا، تو وہ فرمائیں گے: یہ میرا مقام نہیں ہے، لیکن تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ! تو میرے پاس آیا جائے گا۔ تو میں جواب دوں گا: یہ میرا منصب ہے (میں اس کا اہل ہوں) میں چلوں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا، تو مجھے اجازت مل جائے گی۔ تو میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں گا اور اس کی ایسی خوبیوں سے تعریف کروں گا جن کے بیان کی اب مجھ میں قدرت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا مجھے الہام کرے گا، پھر میں اس کےحضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا، تو مجھے کہا جائے گا: اے محمدؐ! اپنا سر اٹھاؤ، کہو! تیری بات سنی جائے گی۔ مانگو! دیے جاؤ گے، سفارش کرو! تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ تو میں عرض کروں گا میرے رب! میری امت! میری امت! تو کہا جائے گا: جاؤ! جس کے دل میں گندم یا جَو کے دانے کے برابر ایمان ہے، تم اسے نکال کر لاؤ۔ میں جاؤں گا اور یہ کام کروں گا، پھر اپنے رب کی طرف لوٹوں گا اور ان ہی تعریفات و خوبیوں سے اس کی حمد بیان کروں گا، پھر اس کے حضور سجدہ میں گر جاؤں گا، تو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ! کہو! تیری بات سنی جائے گی، مانگو! دیے جاو گے۔ سفارش کرو! تمھاری سفارش قبول ہو گی۔ تو میں عرض کروں گا: میری امت! میری امت! تو مجھے کہا جائے گا: جائیے! جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو، اسے نکال لائیے! تو میں جاؤں گا اور یہ کام کروں گا۔ پھر اپنے رب کی طرف لوٹ آؤں گا، تو ان ہی خوبیوں سے اس کی حمد بیان کروں گا، پھر اس کے حضور سجدہ میں گر جاؤں گا۔ تو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے! کہیے! تیری بات سنی جائے گی، مانگیے! تمھیں ملے گا، سفارش کیجیے! آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں کہوں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت! تو مجھے کہا جائے گا: چلیے جس کے دل میں رائی کے دانے سے کم، بہت ہی کم ایمان ہو اسے آگ سے نکال لائیے! تو میں جاؤں گا، اور یہ کام کروں گا۔ یہ حضرت انس ؓ کی روایت ہے، جو انھوں نے ہمیں سنائی، تو ہم ان کے ہاں سے نکل آئے۔ جب ہم صحراء میں آئے، تو ہم نے کہا اے کاش! ہم حسن بصری کا رخ کریں اور انھیں سلام کرتے جائیں۔ اور وہ (حجاج بن یوسف کے ڈر سے) ابو خلیفہ کے گھر چھپے ہوئے تھے۔ ہم ان کے پاس پہنچے، انھیں سلام عرض کیا، اور ہم نے عرض کیا: اے ابو سعید! (حسن بصری کی کنیت ہے) ہم آپ کے بھائی ابو حمزہ (حضرت انس ؓ کی کنیت ہے) کے پاس سے آ رہے ہیں، انھوں نے ہمیں شفاعت کے بارے میں جو حدیث سنائی ہے، اس جیسی حدیث ہم نے نہیں سنی۔ حسن بصری نے کہا: سنائیے! ہم نے اسے حدیث سنائی، تو اس نے کہا: آگے بیان کیجیے! ہم نے کہا: اس سے زیادہ انھوں نے ہمیں نہیں سنائی۔ حسن بصری نے کہا: انھوں نے یہ حدیث ہمیں بیس برس پہلے سنائی تھی، جب کہ وہ اس وقت بھر پور جوان تھے۔ (ان کے قویٰ مضبوط تھے) انھوں نے کچھ چھوڑ دیا ہے۔ میں نہیں جانتا استاد صاحب بھول گئے ہیں، یا انھوں نے تمھیں پوری حدیث سنانا پسند نہیں کیا، کہ کہیں تم اس پر بھروسہ نہ کر لو۔ (اور نیک اعمال کرنا ترک کر دو) ہم نے عرض کیا: آپ ہمیں سنا دیں! تو وہ ہنس پڑے اور کہا: انسان جلد باز پیدا ہوا ہے۔ میں نے تمھارے سامنے اس کا تذکرہ اس لیے کیا ہے، کہ میں تمھیں سنانا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں اپنے ربِ عز و جل کی خدمت میں چوتھی بار حاضر ہوں گا، ان ہی تعریفات سے اس کی تعریف کروں گا، پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا، تو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو! تمھاری بات سنی جائے گی، مانگو! تمھیں ملے گا، سفارش کرو! آپ کی سفارش قبول ہوگی۔ تو میں عرض کروں گا: اے میرے رب! مجھے ان کے بارے میں اجازت دیجیے، جنہوں نے صرف "لا إله إلا الله" کہا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ آپ کا مقام نہیں ہے، یا آپ اس کے حق دار نہیں، لیکن میری عزت، کبریائی، میری عظمت اور میری قوت و جبروت کی قسم! میں ان کو نکال کر رہوں گا، جنھوں نے "لا إله إلا الله" کہا ہے۔ راوی کا بیان ہے: میں حسن بصری کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ اس نے ہمیں بتایا، کہ اس نے حضرت انس بن مالک ؓ سے یہ روایت سنی ہے، میرا خیال ہے، اس نے کہا، بیس سال پہلے جب کہ ان کے قویٰ مجتمع تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 193

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التوحيد، باب: كلام الرب عزوجل يوم القيامة مع الانبياء، وغيرهم برقم (7510) انظر ((التحفة)) برقم (523 و 1599)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح البخاري7410أنس بن مالكلو استشفعنا إلى ربنا حتى يريحنا من مكاننا هذا يأتون آدم فيقولون يا آدم أما ترى الناس خلقك الله بيده أسجد لك ملائكته علمك أسماء كل شيء اشفع لنا إلى ربنا حتى يريحنا من مكاننا هذا فيقول لست هناك ويذكر لهم خطي
   صحيح البخاري7516أنس بن مالكلو استشفعنا إلى ربنا فيريحنا من مكاننا هذا يأتون آدم فيقولون له أنت آدم أبو البشر خلقك الله بيده أسجد لك الملائكة علمك أسماء كل شيء فاشفع لنا إلى ربنا حتى يريحنا فيقول لهم لست هناكم فيذكر لهم خطيئته التي أصاب
   صحيح البخاري7510أنس بن مالكإذا كان يوم القيامة ماج الناس بعضهم في بعض فيأتون آدم فيقولون اشفع لنا إلى ربك فيقول لست لها ولكن عليكم بإبراهيم فإنه خليل الرحمن فيأتون إبراهيم فيقول لست لها ولكن عليكم بموسى فإنه كليم الله فيأتون موسى فيقول لست لها ولكن عليكم بعيسى فإنه روح الله
   صحيح البخاري6565أنس بن مالكلو استشفعنا على ربنا حتى يريحنا من مكاننا يأتون آدم فيقولون أنت الذي خلقك الله بيده نفخ فيك من روحه أمر الملائكة فسجدوا لك اشفع لنا عند ربنا فيقول لست هناكم يذكر خطيئته يقول ائتوا نوحا أول رسول بعثه الله فيأتو
   صحيح البخاري7509أنس بن مالكإذا كان يوم القيامة شفعت فقلت يا رب أدخل الجنة من كان في قلبه خردلة فيدخلون أدخل الجنة من كان في قلبه أدنى شيء
   صحيح البخاري4476أنس بن مالكلو استشفعنا إلى ربنا يأتون آدم فيقولون أنت أبو الناس خلقك الله بيده أسجد لك ملائكته علمك أسماء كل شيء اشفع لنا عند ربك حتى يريحنا من مكاننا هذا فيقول لست هناكم ويذكر ذنبه فيستحي ائتوا نوحا فإنه أول رسول بعثه الله
   صحيح مسلم475أنس بن مالكلو استشفعنا على ربنا حتى يريحنا من مكاننا هذا يأتون آدم فيقولون أنت آدم أبو الخلق خلقك الله بيده نفخ فيك من روحه أمر الملائكة فسجدوا لك اشفع لنا عند ربك حتى يريحنا من مكاننا هذا فيقول لست هناكم فيذكر خطيئته التي أصاب فيستحيي ربه منها ول
   صحيح مسلم479أنس بن مالكإذا كان يوم القيامة ماج الناس بعضهم إلى بعض فيأتون آدم فيقولون له اشفع لذريتك فيقول لست لها ولكن عليكم بإبراهيم فإنه خليل الله فيأتون إبراهيم فيقول لست لها ولكن عليكم بموسى فإنه كليم الله فيؤتى موسى فيقول لست لها ولكن عليكم
   صحيح مسلم486أنس بن مالكآتي باب الجنة يوم القيامة فأستفتح يقول الخازن من أنت فأقول محمد فيقول بك أمرت لا أفتح لأحد قبلك
   سنن ابن ماجه4312أنس بن مالكلو تشفعنا إلى ربنا فأراحنا من مكاننا يأتون آدم فيقولون أنت آدم أبو الناس خلقك الله بيده أسجد لك ملائكته اشفع لنا عند ربك يرحنا من مكاننا هذا فيقول لست هناكم يذكر ويشكو إليهم ذنبه الذي أصاب فيستحيي من ذلك ائتوا نوحا فإنه أول رسول بعثه الله إلى أهل

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 479 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 479  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
جَبَّان:
صحراء و جنگل یا قبرستان۔
(2)
ظَهْرِ الْجَبَّانِ:
جبان کے اوپر،
اس کی بلندی پر۔
(3)
هِيَهِ:
اپنی بات جاری رکھیے،
اور سنائیے۔
(4)
جَمِيعٌ:
قوت حفظ مجتمع تھے،
یعنی بڑھاپے کی بنا پر قویٰ کمزور نہیں ہوئے تھے۔
(5)
وَكِبْرِيَائِي:
میری بڑائی کی قسم۔
(6)
وَجِبْرِيَائِي:
میری قوت و غلبہ کی قسم۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 479   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4312  
´شفاعت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن قیامت کے دن جمع ہوں گے اور ان کے دلوں میں ڈال دیا جائے گا، یا وہ سوچنے لگیں گے، (یہ شک راوی حدیث سعید کو ہوا ہے)، تو وہ کہیں گے: اگر ہم کسی کی سفارش اپنے رب کے پاس لے جاتے تو وہ ہمیں اس حالت سے راحت دے دیتا، وہ سب آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے، اور کہیں گے: آپ آدم ہیں، سارے انسانوں کے والد ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اور اپنے فرشتوں سے آپ کا سجدہ کرایا، تو آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کر دیجئیے کہ وہ ہمیں اس جگہ سے نجات دیدے، آپ فرمائیں گے: میں اس قاب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4312]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
 
(1)
قیامت کے مراحل انتہائی شدید ہون گے لہٰذا ان مراحل میں آسانی کے لیے زیادہ سے زیادہ نیکییاں کرنےکی اور برائیوں سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

(2)
انبیاء کرام پر بھی قیامت کے دن خشیت الہی کی کیفیت کا غلبہ ہوگا اور انھیں اپنی معاف شدہ لغزشیں بھی بڑے گناہوں کی طرح۔
خطرناک محسوس ہوگی۔

(3)
لوگ انبیاء کرام کو انکا بلند مقام اور فضائل یاد دلا کر کوشش کریں گے کہ وہ اللہ سے انکی شفاعت کریں لیکن ہر نبی دوسرے نبی کے پاس جانے کا مشورہ دے کر خود شفاعت کرنے سے معذرت کرلے گا۔

(4)
شفاعت کبرٰی کا مقام نبیﷺ کے لیے مخصوص ہے۔
اس لیے جب نبیﷺ کو کہا جائیگا تو آپﷺ معذرت نہیں کریں گے۔

(5)
آپﷺ کے قلب مبارک میں بھی اللہ تعالی کی عظمت کا احساس پوری طرح موجود ہوگا اس لیے براہ راست اصل مقصود عرض کرنے کی بجائےپہلے سجدہ کرکے اللہ کی حمد و ثناء بیان کریں گے۔

(6)
سجدہ بندے کو اللہ کا قرب بخشنے والی عظیم عبادت ہےاور دعا کے آداب میں یہ شامل ہے۔
کہ پہلے حمد و ثناء بیان کی جائےاور درود پڑھا جائے پھر دعا کی جائے۔

(7)
رسولﷺ اللہ تعالی سے اجازت طلب کریں گے۔
پھر مقام شفاعت پہ تشریف لے جائیں گے۔
کیونکہ اللہ تعالی مالک الملک اور شہنشاہ ہے۔
اور نبیﷺ اس کے ایک مقرب بندے ہیں جو درخواست پیش کر سکتے ہیں۔
اور قبولیت کی امید رکھ سکتے ہیں لیکن اللہ کے حکم کے برعکس کچھ نہیں کر سکتے۔

(8)
رسولﷺ عالم الغیب نہیں تھے اس لیے اللہ کی اس وقت جو تعریفیں کریں گے وہ اسی وقت سکھائی جائیں گی۔
پہلے سے معلوم نہیں ہوگی۔

(9)
رسول اللہﷺ بھی اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں فرمائیں گے اور جو شفاعت ملے گی وہ بھی لامحدود نہیں ہوگی۔

(10)
سب لوگوں کے ایمان برابر نہیں ہوتے بلکہ کم و بیش ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک شخص کے ایمان میں بھی اس کے اعمال کی وجہ سے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔
جنھیں قرآن نے روک دیا وہ نبی پہ ایمان نہ لانے والے اور شرک اکبر کے مرتکب اعتقادی اور منافق ہے۔
جن پہ جنت حرام ہے۔
ان کے حق میں کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4312   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 475  
حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیا مت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا، اور وہ اس کے لیے فکر مند ہوں گے۔ (کہ اس پریشانی سے کیسے نجات پائی جائے) ابنِ عبید نے کہا: اس غرض کے لیے (فکر) ان کے دل میں ڈالا جائے گا، تو وہ کہیں گے: اے کاش!ہم اپنے رب کے حضور کسی سفارشی کو لائیں؛ تاکہ وہ ہمیں اس جگہ سے آرام دلوائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ آدم ؑ کےپاس آئیں گے، اور کہیں گے: آپ آدمؑ ہیں! تمام مخلوق کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:475]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
يَهْتَمُّونَ لِذَلِكَ:
اس کے لیے فکرمند ہوں گے (کہ ان کی پریشانی دور ہو) (2)
يُلْهَمُونَ لِذَلِكَ:
اس پریشانی سے بچنے کی فکر ان کے دلوں میں ڈالی جائے گی۔
(3)
لَسْتُ هُنَاكُمْ:
میں اس کا اہل نہیں،
یہ میرے مقام و مرتبہ سے بلند چیز ہے۔
(4)
خَلِيْلٌ:
جس کی محبت کامل اور آخری درجہ کی ہو،
جس میں کسی قسم کی کمی و نقص نہ ہو۔
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت آدمؑ جس غلطی کا تذکرہ فرمائیں گے،
اس سے مراد وہ درخت جس کےقریب جانے سے روکا گیا تھا،
اسےبھول کرکھاناہے۔
اورحضرت نوحؑ جس غلطی کا اظہار کریں گے،
اس سےمراد اپنے بیٹے کی سفارش کرنا ہے جس کی اجازت نہ تھی،
یا اس سے مراد وہ دعا ہے جو آپؑ نے اپنی قوم کی تباہی وبربادی کےلیے کی تھی،
اور ایک دعاتھی جس کی قبولیت یقینی تھی وہ آپ نےکرلی تھی۔
اورحضرت ابراہیمؑ ان تین کا تذکرہ کریں گے،
کہ میں نےتین دفعہ توریہ وتعریض سے کام لیاتھا۔
اورحضرت موسیٰؑ قبطی کےقتل کا تذکرہ کریں گے،
اورحضرت عیسیٰؑ یہ بیان کریں گے،
کہ دنیا میں مجھےمیرے ماننے والوں نےمعبود بنا لیاتھا،
یہ محض لوگوں کی توجہ ہٹانےکےلیے ہوں گی۔
اصل بات یہ ہے کہ سفارش کرنا،
آپ ﷺ کےلیے مخصوص ہے،
اس لیے آپ کی سواکوئی رسول یہ کام نہیں کرے گا۔
(2)
انبیاءؑ کا مقام ومرتبہ،
سب انسانوں سےبلند وبالا ہے؛ اس لیے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اورفرمانبرداری میں بھی وہ سب سےبلندمقام پرفائزہیں،
اور ان کاعمل سب سے بہتر انداز میں پایا جاتا ہے۔
بعض اوقات غیرشعوری اورغیر ارادی طور پر ان سے ایسے کام سرزد ہو جاتے ہیں،
جو ان کے مقامِ رفیع سے فروتر ہوتے ہیں،
وہ اپنے بلند مقام کی بنا پر ان کے ارتکاب میں بھی شرم وعارمحسوس کرتےہیں،
انہیں افعال واعمال کی ذنب یا خطیئہ سےتعبیرکیاگیاہے،
عام انسانوں کے اعتبارسے ان میں کوئی قابل اعتراض چیزنہیں ہوتی۔
(3)
نوحؑ کو اول الرسل قرار دیا گیا ہے؛کیونکہ نوحؑ سے پہلے انبیاءؑ کے دور میں لوگ فطرت اسلام پر قائم تھے،
اس لیے ان کی طرف وحی امورتکوینہ یا امورمعاش،
زراعت اورصنعت وحرفت کےبارےمیں ہوتی تھی،
نیز نوحؑ سے پہلے بہت کم افرادکفر وشرک کےمرتکب ہوئے تھے،
ان کی قوم میں شرک وکفرعام ہوگیا،
اس لیے ان کی طرف وحی رسالت شروع ہوئی،
اورالہام شرعیہ کانزول ہوا،
اورمخالفین کوعذاب کی دھمکی دی گئی۔
یا اس لیے آپؑ کو اول الرسل کہا گیا ہے،
کہ سب سے پہلے انہی کی قوم پر عذاب نازل ہوا،
اور آپؑ ہی سب سے پہلے رسول ہیں،
جن کو ان کی قوم نے اذیت اورتکلیف سےدوچارکیا۔
(4)
شفاعت کبریٰ،
جس کےسبب تمام لوگوں کا حساب وکتاب شروع ہوگا،
وہ آپ ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے،
اس لیے آپ سے پہلے کوئی نبی ورسول اس کےلیے تیارنہیں ہوگا،
اور جواب دے گا کہ یہ میرا منصب نہیں ہے یا میں اس کا اہل نہیں ہوں،
اور آخر کارتمام لوگ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوں گے،
اور آپ اس کےلیے تیار ہوجائیں گے،
اورآپ اس کےلیے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کریں گے،
اجازت ملنے کے بعد آپ کی سفارش سےتمام انسانوں کا حساب وکتاب وشروع ہوگا،
اورآپ ﷺ کی برتری وفضیلت کا تمام انسانوں کے سامنےظہورہوگا۔
(5)
شفاعت کبریٰ کے بعد آپ ﷺ اپنی امت کے گناہ گاروں کےبارےمیں سفارش فرمائیں گے،
اور اس سفارش کی مختلف صورتیں ہوں گی،
جہنم سےنکالنے کے لیے،
آپ چاربارسفارش فرمائیں گے،
اس کے بعدصرف وہ گناہ گا رہ جائیں گے،
جن کوصرف اللہ تعالیٰ کا رحم وکرم ہی نکال سکے گا،
یاوہ لوگ ہوں گےجنہوں نے اپنے کفر وشرک کی بنا پر ہمیشہ کےلیےجہنم میں رہناہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 475   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4476  
4476. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن سب لوگ جمع ہو کر مشورہ کریں گے کہ آج ہم اپنے پروردگار کے حضور کسی کو سفارش بنائیں، چنانچہ وہ حضرت آدم ؑ کے پاس آ کر عرض کریں گے: آپ لوگوں کے باپ ہیں اور اللہ تعالٰی نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور تمام فرشتوں سے سجدہ کروایا، نیز آپ کو تمام نام سکھائے، لہذا آپ اپنے پروردگار کے حضور ہماری سفارش کریں کہ وہ ہمیں اس (تکلیف دہ) جگہ سے (نکال کر) راحت و آرام دے۔ وہ کہیں گے: آج میں اس قابل نہیں ہوں اور وہ اپنا گناہ یاد کر کے اللہ سے شرمائیں گے اور کہیں گے: تم حضرت نوح ؑ کے پاس چلے جاؤ۔ انہیں اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے رسول بنا کر اہل زمین کی طرف بھیجا تھا۔ سب لوگ ان کے پاس آئیں گے تو وہ جواب دیں گے کہ آج میں اس قابل نہیں ہوں۔ وہ بھی اپنا گناہ یاد کر کے شرمائیں گے کہ انہوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4476]
حدیث حاشیہ:
باب کی حدیث میں مومنین کا آدم ؒ سے یہ کہنا مذکور ہے ''وَعَلَّمَكَ أَسْمَاءَ كُلِّ شَيْءٍ'' اسی مناسبت سے حضرت امام بخاریؒ نے اس حدیث کو یہاں ذکر فرمایا۔
آدم ؑ کو سب چیزوں کے نام سکھائے اور ان کی اولاد کے اندر ایسی قوت پیدا کردی کہ وہ دنیا میں ہر زبان کو دیکھ سکیں اورسارے اسماء کو جان سکیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4476   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7410  
7410. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن تمام اہل ایمان کو اکٹھا کیا جائے گا تو وہ کہیں گے: کاش! ہم کسی کی سفارش کے لیے اللہ کے حضور لے جائیں تاکہ ہمیں وہ اس حالت سے آرام دے دے، چنانچہ وہ سب مل کر سیدنا آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے: اے آدم! آپ لوگوں کی حالت کو نہیں دیکھتے کہ وہ کس بلا میں گرفتار ہیں؟ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، پھر فرشتوں سے سجدہ کرایا اور تمام اشیاء کے نام آپ کو سکھائے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کریں تاکہ وہ ہمیں اس حالت سے نکات دے۔ سیدنا آدم ؑ کہیں گے: میں اس منصب کے لائق نہیں ہوں۔ اور وہ ان کے سامنے اس غلطی کا ذکر کریں گے جو ان سے سرزد ہوئی تھی لیکن تم نوح ؑ کے پاس جاؤ۔ وہ اللہ کی طرف سے پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کی طرف بھیجا تھا۔ پھر سب لوگ سیدنا نوح ؑ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7410]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اس سے پہلے کتاب التفسیر میں گزر چکی ہے۔
یہاں اس کو اس لیے لائے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا بیان ہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین چیزیں خاص اپنے مبارک ہاتھوں سےبنائیں۔
توراۃ اپنےہاتھ سے لکھی۔
آدم کا پتلا اپنے ہاتھ سے بنایا۔
العدان کے درخت اپنے ہاتھ سے بنائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7410   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7509  
7509. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا: قیامت کے دن میری سفارش کروائی جائے گی۔ میں عرض کروں گا:اے میرے رب! ان لوگوں کو جنت میں داخل فرما جن کے دلوں میں رائی برابر ایمان ہے تب وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ میں پھر کہوں گا: اسے بھی جنت میں داخل کر دے جس کے دل میں معمولی سا بھی ایمان ہے۔ سیدنا انس نے فرمایا: گویا میں اس وقت بھی رسول اللہﷺ کی انگلیوں کی طرف دیکھ رہا ہوں، یعنی انگلیوں کے اشارے سے ادنیٰ شے کی وضاحت کر رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7509]
حدیث حاشیہ:
جن سے آپ اشارہ کر رہےتھے۔
روز محشر میں آنحضرت ﷺکا ایک مکالمہ نقل ہوا ہے۔
اس سے باب کا مطلب ثابت ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ روز قیامت آنحضرتﷺ اور دیگر بندوں سے کلام کرے گا۔
اس میں جہمیہ اورمعتزلہ کا رد ہے جواللہ کے کلام کرنے کا انکار کرتےہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7509   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7510  
7510. سیدنا معبد بن بلال عنزی سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم اہل بصرہ جمع ہوئے اور سیان ثابت بنانی کو ساتھ لے کر سیدنا انس ؓ کے پاس گئے تاکہ وہ ان سے ہمارے لیے حدیث شفاعت کے متتعلق پوچھیں۔ سیدنا انس ؓ اس وقت اپنے محل میں تشریف فرما تھے۔ جب ہم انس ؓ کے وہاں پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے ان سے اجازت طلب کی تو انہوں نے اجازت دے دی۔ اس وقت وہ اپنے بستر بیٹھے تھے۔ ہم نے سیدنا ثابت سے کہہ رکھا تھا کہ ان سے حدیث شفاعت سے پہلے کوئی بات نہ پوچھنا، چنانچہ سیدنا ثابت نے کہا: اے ابو حمزہ! یہ آپ کے (دینی) بھائی بصرہ سے آئے ہیں اور آپ سے یہ حدیث شفاعت کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں۔ سیدنا انس ؓ نے کہا: محمد رسول اللہﷺ نے ہمیں حدیث سنائی، آپ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ظاہر ہوں گے۔ پھر وہ سیدنا آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور (ان سے) عرض کریں گے: آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7510]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے دوسرے طرق میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جس کے دل میں ایک جو برابر بھی یا رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے اس کوتم دوزخ سےنکال لاؤ۔
اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوتا ہے۔
اسی سے شفاعت کا اذن ثابت ہوتا ہے جو رسول کریم ﷺ کوعرش پر سجدہ میں ایک نامعلوم مدت تک رہنے کے بعد حاصل ہوگا۔
آپ اپنی امت کا اس درجہ خیال فرمائیں گے کہ جب تک ایک گنہگار موحد مسلمان بھی دوزخ میں باقی رہےگا آپ برابرشفاعت کےلیے اذن مانگتے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ قیامت کےدن ہرمومن مسلمان کو اور ہم سب قارئین بخاری کو اپنے حبیب کی شفاعت نصیب فرمائے آمین یارب العالمین۔
نیز یہ بھی روشن طور پر ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے رسول کریم ﷺ سےاتنا اتنا خوش ہو کہ آپ کی ہر سفارش قبول کرے گا اور آپ کی سفارش سے دوزخ سے ہر اس موحد مسلمان کو بھی نجات دے دے گا جس کےدل میں ایک رائی کے دانہ یا اس سےبھی کم ترایمان ہوگا۔
یااللہ! ہم جملہ قارئین بخاری شریف کوروز محشر میں اپنے حبیب کی شفاعت نصیب فرمائیو جولوگ جہمیہ معتزلہ وغیرہ کلام الہی کےانکاری ہیں ان کا بھی اس حدیث سے خوب خوب رد ہوا۔
حضرت انس بن مالک خادم نبوی قبیلہ خزرج سے ہیں۔
رسول کریمﷺ کی دس سال خدمت کی۔
خلافت فاروقی میں بصرہ میں جا رہے تھے۔
سنہ 91ھ میں بعمر 103سال ایک سو اولاد ذکور و اناث چھوڑ کر بصرہ میں وفات پانے والے آخری صحابی ہیں۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7510   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7516  
7516. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اہل ایمان کو جمع کیا جائے گا تو وہ کہیں گے: اے کاش! کوئی ہمارے رب کے ہاں ہماری سفارش کرے تاکہ ہم اس تکلیف دہ مقام سے راحت حاصل کریں، چنانچہ وہ سیدنا آدم ؑ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دست مبارک سے پیدا کیا اور آپ کو فرشتوں سے سجدہ کرایا، پھر ہر چیز کے نام آپ کو سکھائے، لہذا آپ ہمارے لیے رب کے حضور سفارش کریں تاکہ وہ ہمیں اس مقام سے راحت نصیب کرے۔ وہ ان لوگوں سے کہیں گے: میں اس قابل نہیں ہوں اور وہ ان کے سامنے اپنی اس غلطی کا ذکر کریں گے جو ان سے سرزد ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7516]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث مختصر ہےاور اس میں دوسرے طریق کی طرف اشارہ ہےجس میں ذکر ہےکہ اس وقت حضرت آدم کہیں گے تم ایسا کرو کہ حضرت موسیٰ کے پاس جاؤ وہ ایسے بندے ہیں کہ اللہ نے ان سے کلام کیا، ان کو توراۃ عنایت فرمائی اور اوپر بھی گزرا ہے کہ یوں کہا کہ موسیٰ کے پاس جاؤ ان کو اللہ نے توراۃ عنایت فرمائی اور ان سے کلام کیا اس سے باب کا مطلب ثابت ہوتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7516   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6565  
6565. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ لوگوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالٰی قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا۔ اس وقت لوگ کہیں گے: اگر ہم اپنے رب کے حضور کسی کی سفارش لے جائیں تو ممکن ہے کہ ہم اس حالت سے نجات پا جائیں، چنانچہ وہ حضرت آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: آپ ہی وہ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے اپنے ہاتھ سے بنایا، آپ کے اندر اپنی طرف سے روح پھونکی پھر فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، لہذا رب کے حضور ہمارے لیے سفارش کر دیں۔ وہ کہیں گے: میں تو اس لائق نہیں پھر وہ اپنی لغزش کا ذکر کر کے کہیں گے: تم نوح ؑ کے پاس جاؤ، وہ پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے مبعوث فرمایا: چنانچہ لوگ حضرت نوح ؑ کے پاس آئیں گے تو وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں۔ وہ اپنی ایک لغزش ذکر کر کے کہیں گے: تم ابراہیم ؑ کے پاس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6565]
حدیث حاشیہ:
یہاں شفاعت سے وہ شفاعت مراد ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوزخ والوں کی خبر سن کر امتی امتی فرمائیں گے۔
پھر ان سب لوگوں کو جہنم سے نکالیں گے۔
جن میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا۔
لیکن وہ شفاعت جو میدان حشر سے بہشت میں لے جانے کے لیے ہوگی وہ پہلے ان لوگوں کو نصیب ہوگی جو بغیر حساب و کتاب کے بہشت میں جائیں گے۔
پھر ان کے بعد ان لوگوں کو جو حساب کے بعد بہشت میں جائیں گے۔
قاضی عیاض نے کہا کہ شفاعتیں پانچ ہوں گی۔
ایک تو حشر کی تکالیف سے نجات دینے کے لیے، یہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص ہے۔
اس کو شفاعت عظمیٰ کہتے ہیں اور مقام محمود بھی اسی مرتبہ کا نام ہے۔
دوسری شفاعت بعض لوگوں کو بے حساب جنت میں لے جانے کے لیے، تیسری حساب کے بعد ان لوگوں کو جو عذاب کے لائق ٹھہریں گے ان کو بے عذاب جنت میں لے جانے کے لیے۔
چوتھی شفاعت ان گنہگاروں کے لیے جو دوزخ میں ڈال دیے جائیں گے، ان کو نکالنے کے لیے۔
پانچویں شفاعت جنتیوں کی ترقی درجات کے لیے ہوگی۔
انبیاء کرام نے اپنی اپنی جن لغزشوں کا ذکر کیا وہ لغزشیں ایسی ہیں جو اللہ کی طرف سے معاف ہوچکی ہیں لیکن پھر بھی بڑوں کا مقام بڑا ہوتا ہے، اللہ پاک کو حق ہے وہ چاہے تو ان لغزشوں پر ان کو گرفت میں لے لے۔
اس خطرے کی بنا پر انبیاء کرام نے وہ جوابات دیے جو اس حدیث میں مذکور ہیں۔
آخری معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹھہرا لیا۔
وہ مقام محمود ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمایا ہے۔
﴿عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا﴾ (بني إسرائیل: 76)
قرآن نے جن کو جہنم کے لیے ہمیشہ کے واسطے روکا ان سے مراد مشرکین ہیں۔
﴿ان اللہ لا یغفران یشرک بہ﴾ (النساء: 47)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو شفاعت کا اہل سمجھا۔
حافظ ابن حجر اس موقع پر فرماتے ہیں۔
ثم احتج عیسیٰ بأنه صاحب الشفاعة لأنه قد غفرله ماتقدم من ذنبه وما تأخر بمعنی أن اللہ أخبر أنه لا یواخذہ بذنبه لو وقع منه و هذا من النفائس التي فتح اللہ بها في فتح الباري فلله الحمد۔
یعنی یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے ہیں۔
اس معنی سے بے شک اللہ تعالیٰ آپ کو یہ خبر دے چکا ہے کہ اگر آپ سے کوئی گناہ واقع ہو بھی جائے تو اللہ آپ سے اس کے بارے میں مواخذہ نہیں کرے گا۔
اس لیے شفاعت کا منصب درحقیقت آپ ہی کے لیے ہے۔
یہ ایک نہایت نفیس وضاحت ہے جو اللہ نے اپنے فضل سے فتح الباری میں کھولی ہے (فتح الباری)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6565   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4476  
4476. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن سب لوگ جمع ہو کر مشورہ کریں گے کہ آج ہم اپنے پروردگار کے حضور کسی کو سفارش بنائیں، چنانچہ وہ حضرت آدم ؑ کے پاس آ کر عرض کریں گے: آپ لوگوں کے باپ ہیں اور اللہ تعالٰی نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور تمام فرشتوں سے سجدہ کروایا، نیز آپ کو تمام نام سکھائے، لہذا آپ اپنے پروردگار کے حضور ہماری سفارش کریں کہ وہ ہمیں اس (تکلیف دہ) جگہ سے (نکال کر) راحت و آرام دے۔ وہ کہیں گے: آج میں اس قابل نہیں ہوں اور وہ اپنا گناہ یاد کر کے اللہ سے شرمائیں گے اور کہیں گے: تم حضرت نوح ؑ کے پاس چلے جاؤ۔ انہیں اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے رسول بنا کر اہل زمین کی طرف بھیجا تھا۔ سب لوگ ان کے پاس آئیں گے تو وہ جواب دیں گے کہ آج میں اس قابل نہیں ہوں۔ وہ بھی اپنا گناہ یاد کر کے شرمائیں گے کہ انہوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4476]
حدیث حاشیہ:

امام بخاریؒ کا تفسیر قرآن کے سلسلے میں ایک انداز ہے کہ اگرقرآن کے الفاظ کسی حدیث میں آئے ہوں تو اس حدیث کو تفسیر کے اسلوب میں بیان کردیتے ہیں۔
مذکورہ روایت کا تذکرہ بھی اسی پہلو سے ہے کیونکہ اس روایت میں اہل ایمان کا حضرت آدم ؒ سے یہ کہنا مذکور ہے:
"اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔
" اسی مناسبت سے اس حدیث کو ﴿وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا﴾ کی تفسیر میں بیان کیا ہے۔

واضح رہے کہ اس حدیث میں شفاعت کبریٰ کا بیان ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنت میں داخلے کی سفارش تو شفاعت صغریٰ ہے، حالانکہ ذکر شفاعت کبریٰ کا ہے، یعنی حساب وکتاب شروع ہوجائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث کےالفاظ:
"میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو اجازت مل جائے گی۔
" تک شفاعت کبریٰ کا بیان ہے، اس کے بعد شفاعت صغریٰ کا ذکر ہے۔
(شرح العقیدہ الطحاویة، ص: 163)

اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ جن لوگوں کے متعلق ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا قراردیاگیا ہے ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:
۔
جو اللہ کی ذات وصفات اور اختیارات میں کسی کوشریک کرے۔
(البینة: 6: 98)
۔
اور جو اللہ اور اسکے رسول (صلی اللہ علیه وسلم)
کی نافرمانی کرے۔
اور اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرے۔
(النسآء: 14: 4)
۔
جو کسی مسلمان کو ناحق قتل کرے۔
(النسآء: 93: 4)
۔
جو بدکاری اور زنا کرے۔
۔
جو بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان جنگ سے بھاگ جائے۔
(الفرقان: 68/25، 69)
۔
جواللہ کے قوانین کے خلاف زندگی بسر کرے۔
(الأنفال: 8: 16)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4476   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6565  
6565. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ لوگوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالٰی قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا۔ اس وقت لوگ کہیں گے: اگر ہم اپنے رب کے حضور کسی کی سفارش لے جائیں تو ممکن ہے کہ ہم اس حالت سے نجات پا جائیں، چنانچہ وہ حضرت آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: آپ ہی وہ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے اپنے ہاتھ سے بنایا، آپ کے اندر اپنی طرف سے روح پھونکی پھر فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، لہذا رب کے حضور ہمارے لیے سفارش کر دیں۔ وہ کہیں گے: میں تو اس لائق نہیں پھر وہ اپنی لغزش کا ذکر کر کے کہیں گے: تم نوح ؑ کے پاس جاؤ، وہ پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے مبعوث فرمایا: چنانچہ لوگ حضرت نوح ؑ کے پاس آئیں گے تو وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں۔ وہ اپنی ایک لغزش ذکر کر کے کہیں گے: تم ابراہیم ؑ کے پاس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6565]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے آغاز میں جس شفاعت کا ذکر ہے اس سے مراد شفاعت کبریٰ ہے جو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے اور کسی نبی کو وہاں بات کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔
حضرات انبیائے کرام علیہم السلام نے جن جن لغزشوں کا ذکر کیا ہے ان کی صراحت اس حدیث میں نہیں ہے دوسری احادیث میں ان کی تفصیل ذکر کی گئی ہے۔
یہ خطائیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیں لیکن پھر بھی بڑے لوگوں کا مقام بھی بڑا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو یہ حق ہے کہ وہ ان لغزشوں کی بنا پر ان سے باز پرس کرے، اس لیے حضرات انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی لغزشوں کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور بات کرنے کی ہمت نہیں پائیں گے، آخر کار معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آ کر ٹھہر جائے گا۔
یہی وہ مقام محمود ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آپ کو عطا فرمائے گا۔
(2)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہمارے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سفارش عظمیٰ کے اہل سمجھا اور فرمایا کہ ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیے گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو بتا چکا ہے کہ اگر آپ سے کوئی گناہ سرزد بھی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ آپ سے مؤاخذہ نہیں کرے گا۔
اس بنا پر سفارش کرنے کا منصب صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ ایک عمدہ اور نفیس وضاحت ہے جو اللہ تعالیٰ نے فتح الباری لکھتے وقت مجھے الہام کی ہے۔
(فتح الباري: 530/11) (3)
واضح رہے کہ سفارش کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ میدان حشر کی تکلیف سے نجات دینے کے لیے سفارش کرنا، اسے شفاعت کُبریٰ کہتے ہیں اور یہ ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے اور کوئی رسول یہ سفارش نہیں کرے گا۔
٭ بعض لوگوں کو حساب کے بغیر جنت میں داخلے کی سفارش کرنا۔
٭ جو لوگ حساب کے بعد عذاب کے حق دار ہوں گے، انہیں عذاب دیے بغیر جنت میں جانے کی سفارش کرنا۔
٭ جو لوگ دوزخ میں ڈال دیے جائیں گے، انہیں وہاں سے نکالنے کے لیے سفارش کرنا۔
اس حدیث کے آخر میں اسی قسم کی سفارش کا ذکر ہے۔
٭ اہل جنت کے درجات کو بلند کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور سفارش کرنا۔
پہلی قسم کے علاوہ باقی سفارش کی اقسام میں انبیاء علیہم السلام، صلحاء اور شہداء وغیرہ سب شریک ہوں گے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6565   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7410  
7410. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن تمام اہل ایمان کو اکٹھا کیا جائے گا تو وہ کہیں گے: کاش! ہم کسی کی سفارش کے لیے اللہ کے حضور لے جائیں تاکہ ہمیں وہ اس حالت سے آرام دے دے، چنانچہ وہ سب مل کر سیدنا آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے: اے آدم! آپ لوگوں کی حالت کو نہیں دیکھتے کہ وہ کس بلا میں گرفتار ہیں؟ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، پھر فرشتوں سے سجدہ کرایا اور تمام اشیاء کے نام آپ کو سکھائے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کریں تاکہ وہ ہمیں اس حالت سے نکات دے۔ سیدنا آدم ؑ کہیں گے: میں اس منصب کے لائق نہیں ہوں۔ اور وہ ان کے سامنے اس غلطی کا ذکر کریں گے جو ان سے سرزد ہوئی تھی لیکن تم نوح ؑ کے پاس جاؤ۔ وہ اللہ کی طرف سے پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کی طرف بھیجا تھا۔ پھر سب لوگ سیدنا نوح ؑ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7410]
حدیث حاشیہ:

یہ حدیث "حدیث سفارش" کے نام سے مشہور ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے متعدد مقامات پر تفصیل اور اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
اس سے پہلے یہ حدیث کتاب التفسیر رقم: 4476 میں گزرچکی ہے۔
اس مقام پر یہ حدیث اللہ تعالیٰ کی صفتِ ید ثابت کرنے کے لیے لائی گئی ہے، چنانچہ اس میں اللہ تعالیٰ کا حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے بنانے کا ذکر ہے اور اسے حضرت آدم علیہ السلام کا امتیاز شمار کیا گیا ہے۔

اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ید کا ظاہری مفہوم مبنی برحقیقت مراد ہے۔
اگریہاں قدرت کے مجازی معنی مراد لیے جائیں تو حضرت آدم علیہ السلام کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا کیونکہ دیگر تمام مخلوق کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے پیدا کیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے بعض اشعری ائمہ کے اقوال نقل کیے ہیں اور لغت سے اس لفظ کے تقریباً پچیس معانی ذکر کیے ہیں، لیکن اس سلسلے میں جو نصوص وارد ہیں ان کے پیش نظر اس کی تاویل کی ہے اور وہ صفت ید سے مراد نعمت اورقدرت لیتے ہیں، لیکن صفت ید کے یہ معنی ائمہ سلف سے ثابت نہیں۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 305/1)

واضح رہے کہ صفات باری تعالیٰ کے متعلق اہل تاویل کا مذہب باطل ہے اور صفات میں سب سے زیادہ تاویلیں اشاعرہ کی ہیں جو خود کو ابوالحسن اشعری کے پیروکار خیال کرتے ہیں لیکن افسوس کہ متاخرین اشاعرہ صحیح معنی میں اپنے امام کی پیروی کا حق ادا نہ کر سکے، چنانچہ عقیدے کے متعلق ابوالحسن اشعری کی زندگی تین مراحل پر مشتمل ہے۔
۔
پہلا مرحلہ اعتزال کا ہے۔
انھوں نے چالیس سال تک اعتزال (معتزلہ)
کا موقف اختیار کیے رکھا۔
اس کے اثبات کے لیے مناظرے کرتے اور اسے بڑی شدومد سے پیش کرتے تھے۔
۔
انھوں نے مذہب معتزلہ سے رجوع کرکے خالص اعتزال اورخالص سنت کے درمیان درمیان موقف اختیار کیا۔
یہ ابومحمد بن عبداللہ بن سعید بن کلاب کا منہج تھا اور وہ اس کے پیروکار بن گئے۔
۔
تیسرا اورآخری مرحلہ یہ ہے کہ انھوں نے ان تمام مذاہب سے رجوع کر کے خالص کتاب وسنت پر مبنی مسلک اختیار کیا اور اس سلسلے میں ایک معیاری کتاب (الإبانة عن أصول الديانة)
تالیف کرکے اپنا موقف پیش کیا۔
افسوس کہ متاخرین اشاعرہ نے ان کے اختیارکردہ دوسرے مرحلے کو اپنایا اور بیشتر صفات میں تاویل کی روش کو تھام لیا۔
اس سلسلے میں وہ سات صفات کو تاویل کے بغیر مانتے ہیں:
وہ صفت حیات، علم، قدرت، کلام، ارادہ، سمع اوربصر ہے۔
ان صفات کے اثبات میں بھی اہل سنت سے کچھ انحراف پایا جاتا ہے۔

شارحین صحیح بخاری کی اکثریت اشاعرہ سے متعلق ہے، اس لیے وہ صفات کے متعلق تاویل کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
صفت ید کے متعلق بھی تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد قدرت اور نعمت ہے جبکہ اس سے مراد حقیقی ہاتھ ہیں جن کی انگلیاں بھی ہیں، البتہ یہ ہاتھ مخلوق کے ہاتھوں جیسے نہیں ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7410   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7509  
7509. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا: قیامت کے دن میری سفارش کروائی جائے گی۔ میں عرض کروں گا:اے میرے رب! ان لوگوں کو جنت میں داخل فرما جن کے دلوں میں رائی برابر ایمان ہے تب وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ میں پھر کہوں گا: اسے بھی جنت میں داخل کر دے جس کے دل میں معمولی سا بھی ایمان ہے۔ سیدنا انس نے فرمایا: گویا میں اس وقت بھی رسول اللہﷺ کی انگلیوں کی طرف دیکھ رہا ہوں، یعنی انگلیوں کے اشارے سے ادنیٰ شے کی وضاحت کر رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7509]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث انتہائی مختصر ہے۔
مفصل حدیث اس کے بعد بیان ہوگی۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ رب العزت کا روز محشر ایک مکالمہ نقل ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ روزقیامت اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کلام ہوگا۔
اس میں معتزلہ اور جہمیہ کا رد ہے جو اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے کا انکار کرتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی مکالمے سے اپنے قائم کیے ہوئے عنوان کو ثابت کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7509   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7510  
7510. سیدنا معبد بن بلال عنزی سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم اہل بصرہ جمع ہوئے اور سیان ثابت بنانی کو ساتھ لے کر سیدنا انس ؓ کے پاس گئے تاکہ وہ ان سے ہمارے لیے حدیث شفاعت کے متتعلق پوچھیں۔ سیدنا انس ؓ اس وقت اپنے محل میں تشریف فرما تھے۔ جب ہم انس ؓ کے وہاں پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے ان سے اجازت طلب کی تو انہوں نے اجازت دے دی۔ اس وقت وہ اپنے بستر بیٹھے تھے۔ ہم نے سیدنا ثابت سے کہہ رکھا تھا کہ ان سے حدیث شفاعت سے پہلے کوئی بات نہ پوچھنا، چنانچہ سیدنا ثابت نے کہا: اے ابو حمزہ! یہ آپ کے (دینی) بھائی بصرہ سے آئے ہیں اور آپ سے یہ حدیث شفاعت کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں۔ سیدنا انس ؓ نے کہا: محمد رسول اللہﷺ نے ہمیں حدیث سنائی، آپ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ظاہر ہوں گے۔ پھر وہ سیدنا آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور (ان سے) عرض کریں گے: آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7510]
حدیث حاشیہ:

یہ حدیث پہلے(7410۔
7440)

بیان ہو چکی ہے۔
ہم نے وہاں اس اعتراض کا جواب دیا تھا کہ اس کی ابتدا اس کی انتہا سے ہم آہنگ نہیں کیونکہ اس کی ابتدا میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شفاعت طلب کرنے والے عام لوگ ہیں جبکہ سفارش خاص اس اُمت کے لیے کی جا رہی ہے؟ نیز اس سفارش کا مطالبہ میدان محشر کا خوف وہراس دور کرنے کے لیے تھا جبکہ اس میں لوگوں کو دوزخ سے نکالنے کا ذکر ہے؟ ہم نے وہاں جواب دیا تھا کہ اس حدیث میں اختصار ہے کہ اس میں صرف امت محمدیہ کی سفارش پر اکتفا کیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفارش کرنے کی اجازت دی جائے گی جس کا اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا ہے۔
وہ قیامت کے دن خوف وہراس کے ازالے کے لیے ہوگی۔
یہی وہ مقام محمود کی خصوصیت ہے جس میں کوئی اور نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا شریک نہیں ہے جہنم سے نکالنے کے متعلق دیگرانبیاء علیہم السلام بلکہ صلحائے امت بھی سفارش کریں گے۔
اس حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمائے گا کہ جس کے دل میں جو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے اسے دوزخ سے نکال لاؤ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء علیہم السلام سے ہم کلام ہوگا لیکن جہمیہ اور معتزلہ اسے تسلیم نہیں کرتے۔
ان کا کہنا ہے کہ آواز حروف سے کلام کرنا جسم کا خاصا ہے جس سے اللہ تعالیٰ پاک ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ان کی خوب تردید فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام مبنی برحقیقت ہے اور وہ مخلوق کے کلام سے مشابہت نہیں رکھتا اور اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن مجید کے علاوہ بھی ہے، نیز وہ غیر مخلوق ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے ہمکنار کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ہم سب کو جمع کرے۔
آمین یارب العالمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7510   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7516  
7516. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اہل ایمان کو جمع کیا جائے گا تو وہ کہیں گے: اے کاش! کوئی ہمارے رب کے ہاں ہماری سفارش کرے تاکہ ہم اس تکلیف دہ مقام سے راحت حاصل کریں، چنانچہ وہ سیدنا آدم ؑ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دست مبارک سے پیدا کیا اور آپ کو فرشتوں سے سجدہ کرایا، پھر ہر چیز کے نام آپ کو سکھائے، لہذا آپ ہمارے لیے رب کے حضور سفارش کریں تاکہ وہ ہمیں اس مقام سے راحت نصیب کرے۔ وہ ان لوگوں سے کہیں گے: میں اس قابل نہیں ہوں اور وہ ان کے سامنے اپنی اس غلطی کا ذکر کریں گے جو ان سے سرزد ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7516]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو انتہائی اختصار سے بیان کیا ہے۔
آپ نے ایک دوسری روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جو پہلے گزر چکی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں۔
لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو وہ انھیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جانے کے متعلق کہیں گےکیونکہ انھیں اللہ نے تورات دی ان سے ہم کلام ہوا اور سر گوشی کے لیے انھیں اپنے قریب کیا۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7440)

اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت کلام ثابت ہوتی ہے اس سے معتزلہ کی تردید مقصود ہے جو کلام الٰہی کی تاویل کرتے ہیں کیونکہ اس حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہم کلامی کا شرف بخشا اور یہ گفتگو کسی واسطے اور ترجمان کے بغیر تھی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7516   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.