صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
84. باب أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا:
84. باب: جنتوں میں سب سے کم تر درجہ والے کا بیان۔
Chapter: The Status of the Lowest people in paradise
حدیث نمبر: 482
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن طريف بن خليفة البجلي ، حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا ابو مالك الاشجعي ، عن ابي حازم ، عن ابي هريرة وابو مالك ، عن ربعي ، عن حذيفة ، قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يجمع الله تبارك وتعالى الناس، فيقوم المؤمنون، حتى تزلف لهم الجنة، فياتون آدم، فيقولون: يا ابانا، استفتح لنا الجنة، فيقول: وهل اخرجكم من الجنة، إلا خطيئة ابيكم آدم، لست بصاحب ذلك، اذهبوا إلى ابني إبراهيم خليل الله، قال: فيقول إبراهيم: لست بصاحب ذلك، إنما كنت خليلا من وراء، وراء، اعمدوا إلى موسى عليه السلام، الذي كلمه الله تكليما، فياتون موسى عليه السلام، فيقول: لست بصاحب ذلك، اذهبوا إلى عيسى، كلمة الله وروحه، فيقول عيسى عليه السلام: لست بصاحب ذلك، فياتون محمدا صلى الله عليه وسلم، فيقوم فيؤذن له، وترسل الامانة والرحم، فتقومان جنبتي الصراط يمينا وشمالا، فيمر اولكم كالبرق، قال: قلت: بابي انت وامي، اي شيء كمر البرق؟ قال: الم تروا إلى البرق كيف يمر ويرجع في طرفة عين، ثم كمر الريح، ثم كمر الطير وشد الرجال تجري بهم اعمالهم، ونبيكم قائم على الصراط؟ يقول: رب سلم، سلم، حتى تعجز اعمال العباد، حتى يجيء الرجل، فلا يستطيع السير إلا زحفا، قال: وفي حافتي الصراط كلاليب معلقة مامورة باخذ من امرت به، فمخدوش ناج، ومكدوس في النار "، والذي نفس ابي هريرة بيده، إن قعر جهنم لسبعون خريفا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفِ بْنِ خَلِيفَةَ الْبَجَلِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مَالِكٍ الأَشْجَعِيُّ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبُو مَالِكٍ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَجْمَعُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى النَّاسَ، فَيَقُومُ الْمُؤْمِنُونَ، حَتَّى تُزْلَفَ لَهُمُ الْجَنَّةُ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: يَا أَبَانَا، اسْتَفْتِحْ لَنَا الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: وَهَلْ أَخْرَجَكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ، إِلَّا خَطِيئَةُ أَبِيكُمْ آدَمَ، لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ، اذْهَبُوا إِلَى ابْنِي إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ اللَّهِ، قَالَ: فَيَقُولُ إِبْرَاهِيمُ: لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ، إِنَّمَا كُنْتُ خَلِيلًا مِنْ وَرَاءَ، وَرَاءَ، اعْمِدُوا إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، الَّذِي كَلَّمَهُ اللَّهُ تَكْلِيمًا، فَيَأْتُونَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى، كَلِمَةِ اللَّهِ وَرُوحِهِ، فَيَقُولُ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ: لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَلِكَ، فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُومُ فَيُؤْذَنُ لَهُ، وَتُرْسَلُ الأَمَانَةُ وَالرَّحِمُ، فَتَقُومَانِ جَنَبَتَيِ الصِّرَاطِ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَيَمُرُّ أَوَّلُكُمْ كَالْبَرْقِ، قَالَ: قُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَيُّ شَيْءٍ كَمَرِّ الْبَرْقِ؟ قَالَ: أَلَمْ تَرَوْا إِلَى الْبَرْقِ كَيْفَ يَمُرُّ وَيَرْجِعُ فِي طَرْفَةِ عَيْنٍ، ثُمَّ كَمَرِّ الرِّيحِ، ثُمَّ كَمَرِّ الطَّيْرِ وَشَدِّ الرِّجَالِ تَجْرِي بِهِمْ أَعْمَالُهُمْ، وَنَبِيُّكُمْ قَائِمٌ عَلَى الصِّرَاطِ؟ يَقُولُ: رَبِّ سَلِّمْ، سَلِّمْ، حَتَّى تَعْجِزَ أَعْمَالُ الْعِبَادِ، حَتَّى يَجِيءَ الرَّجُلُ، فَلَا يَسْتَطِيعُ السَّيْرَ إِلَّا زَحْفًا، قَالَ: وَفِي حَافَتَيِ الصِّرَاطِ كَلَالِيبُ مُعَلَّقَةٌ مَأْمُورَةٌ بِأَخْذِ مَنْ أُمِرَتْ بِهِ، فَمَخْدُوشٌ نَاجٍ، وَمَكْدُوسٌ فِي النَّارِ "، وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي هُرَيْرَةَ بِيَدِهِ، إِنَّ قَعْرَ جَهَنَّمَ لَسَبْعُونَ خَرِيفًا.
محمد بن فضیل نے کہا: ہمیں ابو مالک اشجعی نے حدیث سنائی، انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، نیز ابو مالک نے ربعی بن حراش سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، ان دونوں نے کہاکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا تو مومن کھڑے ہو جائیں گے یہاں تک کہ جنت ان کے قریب کر دی جائے گی اور وہ آدم رضی اللہ عنہ کے پاس آکر عرض کریں گے: اے والد بزرگ! ہمارے لیے جنت کا دروازہ کھلوائیے۔ وہ جواب دیں گے: کیا جنت سے تمہیں نکالنے کا سبب تمہارے باپ آدم کی خطاکے علاوہ کوئی اور چیز بنی تھی! میں اس کام کا اہل نہیں ہوں۔ میرے بیٹے، اللہ کے خلیل ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ۔ آپ نے فرمایا: ابراہیم رضی اللہ عنہ کہیں گے: اس کام (کو کرنے) والا میں نہیں ہوں، میں خلیل تھا (مگر اولین شفاعت کے اس منصب سے) پیچھے پیچھے۔ تم موسیٰ رضی اللہ عنہ کا رخ کرو، جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا۔لوگ موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے۔ وہ جواب دیں گے: اس کام (کو کرنے) والا میں نہیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی روح اور اس کے کلمے عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ۔ عیسیٰ رضی اللہ عنہ فرمائیں گے، میں اس کام (کو کرنے) والا نہیں ہوں۔ تو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے۔ آپ اللہ کے سامنے قیام فرمائیں گے اور آپ کو (شفاعت کی) اجازت دی جائے گی۔ امانت اور قرابت داری کو بھیجا جائے گا، وہ پل صراط کی دونوں جانب دائیں اوربائیں کھڑی ہو جائیں گی۔ تم میں سے اولین شخص بجلی کی طرح گزر جائے گا۔ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! بجلی گزرنے کی طرح کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم نے کبھی بجلی کی طرف نہیں دیکھا، کس طرح پلک جھپکنے میں گزرتی اور لوٹتی ہے؟ پھر ہوا کے گزرنے کی طرح (تیزی سے) پھر پرندہ گزرنے اورآدمی کے دوڑنے کی طرح، ان کے اعمال ان کو لے کر دوڑیں گے اور تمہارا نبی پل صراط پر کھڑا ہوا کہہ رہا ہو گا: اے میرے رب! بچا بچا (میری امت کے ہر گزرنے والے کو سلامتی سے گزار دے۔) حتی کہ بندوں کے اعمال ان کو لے کر گزر نہ سکیں گے یہاں تک کہ ایسا آدمی آئے گاجس میں گھسٹ گھسٹ کر چلنے سے زیادہ کی استطاعت نہ ہوگی۔ آپ نے فرمایا: (پل) صراط کے دونوں کناروں پر لوہے کے آنکڑے معلق ہو ں گے، وہ اس بات پر مامور ہوں گےکہ جن لوگوں کے بارے میں حکم ہو ان کو پکڑ لیں، اس طرح بعض زخمی ہو کر نجات پا جائیں گے اور بعض آگ میں دھکیل دیے جائیں گے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ستر سال (کی مسافت) کے برابر ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا، تو مومن کھڑے ہوں گے حتیٰ کہ جنت ان کے قریب کردی جائے گی اور وہ آدمؑ کے پاس آکر عرض کریں گے: اے ہمارے ابا جان! ہمارے لیے جنت کا دروازہ کھلوائیے! تو وہ جواب دیں گے: جنت سے تمھارے نکالنے کا سبب تمھارے باپ آدم کی خطا ہی نہیں ہے، یہ کام کرنے والا میں نہیں ہوں۔ میرے بیٹے ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابراہیم ؑبھی فرمائیں گے: یہ کام کرنے والا میں نہیں ہوں، میں تو خلیل پیچھے پیچھے تھا، موسیٰؑ کا رخ کرو! جن سے اللہ تعالیٰ نے حقیقتاً گفتگو فرمائی۔ تو لوگ موسیٰؑ کے پاس آئیں گے، تو وہ جواب دیں گے: یہ میرا منصب نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی روح اور اس کے کلمہ عیسیٰؑ کے پاس جاؤ! تو عیسیٰؑ فرمائیں گے: یہ میرا مقام نہیں ہے، تو لوگ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوں گے اور آپ کو (سفارش کی) اجازت مل جائے گی۔ امانت اور رشتہ داری کو بھیج دیا جائے گا۔ وہ پُل کے دائیں اور بائیں کھڑے ہو جائیں گے۔ تم میں سے پہلا شخص بجلی کی تیزی سے گزر جائے گا۔ تو میں نے پوچھا: آپ پر میرے ماں باپ قربان! بجلی کی تیزی سے گزر نے کی طرح کون سی شے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کبھی بجلی کی طرف نہیں دیکھا؟ کس طرح پلک جھپکنے کی طرح گزرتی اور لوٹتی ہے۔ پھر ہوا کے گزرنے کی طرح (تیزی سے)، پھر جس طرح پرندہ گزرتا ہے، اور آدمی دوڑتے ہیں۔ ان کے اعمال ان کو دوڑائیں گے (اپنے اپنے عملوں کے موافق تیزی سے گزریں گے) اور تمھارا نبی پُلِ صراط پر کھڑا ہو کر کہہ رہا ہو گا: اے میرے رب! بچا! بچا! حتیٰ کہ بندوں کے اعمال عاجز آجائیں گے، یہاں تک کہ ایک آدمی آئے گا، وہ گھسٹ کر ہی چل سکے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پُل صراط کے دونوں کناروں پر لوہے کے آنکڑے لٹک رہے ہوں گے، جن کے بارے میں حکم ہوگا: ان کو پکڑیں گے تو بعض زخمی ہو کر نجات پا جائیں گے اور بعض کو دھکے سے آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ اور اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں ابوہریرہ کی جان ہے، جہنم کی گہرائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 195

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3311 و 13400)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 482 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 482  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
جس طرح سفارش کبریٰ آپ ﷺ کا منصب ہے،
اسی طرح جنت کا دروازہ بھی آپ کی سفارش سے کھلے گا۔
(2)
ہر کام کاج اور بات چیت میں امانت ودیانت،
راست بازی اورصلہ رحمی،
یعنی رشتہ داروں کا خیال ولحاظ رکھنا دو ایسے اہم کام ہیں جن کا ہرمسلمان کو ہمیشہ اہتمام کرناچاہیے۔
(3)
جہنم کی گہرائی اتنی زیادہ ہے کہ اگر آدمی اوپرسےچھوڑ دیا جائے،
تو ستر برس گزرنے کے بعدنیچے پہنچے گا۔
(4)
آدمؑ نے جنت کا دروازہ کھلوانےسےمعذرت کےلیے ایک ایسی خطا کا تذکرہ کیا،
جس کی معافی انہیں جنت میں ہی مل گئی تھی،
اور جنت سے دنیا میں آدمؑ کی آمد خلافت ارضی کےلیے تھی،
جس کی خاطر ان کی تخلیق ہوئی تھی،
جیسا کہ قرآن مجیدمیں ارشاد ہے ﴿إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً﴾ (الْبَقَرَة: 30)
میں زمین میں ایک خلیفہ مقررکرنےوالاہوں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 482   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.