شعبہ نے ہمیں فرات قزاز سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوحازم سے روایت کی کہ میں پانچ سال حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہم مجلس رہا، میں نے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا: "بنو اسرائیل کے انبیاء ان کا اجتماعی نظام چلاتے تھے، جب ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کا جانشیں ہوتا اور (اب) بلاشبہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، اب خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔" صحابہ نے عرض کی: آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: پہلے اور اس کے بعد پھر پہلے کی بیعت کے ساتھ وفا کرو، انہیں ان کا حق دو اور (تمہارے حقوق کی) جو ذمہ داری انہیں دی ہے اس کے متعلق اللہ خود ان سے سوال کرے گا
ابو حازم بیان کرتے ہیں، میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں پانچ سال رہا، میں نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنو اسرائیل کے معاملات کی نگہداشت انبیاء کرتے تھے، جب ایک نبی فوت ہو جاتا تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ بنتا اور صورت حال یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور خلفاء ہوں گے اور بکثرت ہوں گے“ صحابہ کرام نے پوچھا، تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پہلے کی بیعت کو پورا کرو اور ان کو ان کا حق دو (ان کی معروف میں اطاعت کرو) اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جن لوگوں کا نگران بنایا ہے، ان کے متعلق وہ خود ان سے پوچھے گا۔“
بني إسرائيل كانت تسوسهم أنبياؤهم كلما ذهب نبي خلفه نبي ليس كائن بعدي نبي فيكم تكون خلفاء فيكثروا أوفوا ببيعة الأول فالأول أدوا الذي عليكم فسيسألهم الله عن الذي عليهم
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4773
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: تَسُوسُهُمُ الأَنبِيَاء: ان کے معاملات کی نگہداشت اور نگرانی انبیاء کرتے تھے اور ان کے مفادات کے محافظ بھی تھے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، انسانوں کے دینی معاملات کی طرح، ان کے دنیوی معاملات کے نگران اور محافظ بھی انبیاء ہوتے تھے، دین اور دنیا میں امتیاز نہ تھا، لیکن چونکہ آپ سے پہلے انبیاء کا سلسلہ جاری تھا، اس لیے ایک نبی کی وفات کے بعد لوگوں کے دینی اور دنیوی امور کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لیے اس کی جگہ دوسرا نبی آ جاتا تھا، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا، کیونکہ آپ پر نبوت ختم ہو گئی ہے، اس لیے آپ کے بعد خلفاء کا سلسلہ شروع ہوا، جب ایک خلیفہ کے بعد (کیونکہ وہ فوت ہو گیا ہے) دوسرے کی بیعت کر لی جائے، تو اس کے بعد کسی اور خلیفہ کی بیعت نہیں کی جا سکتی، جس سے معلوم ہوتا ہے، مسلمانوں کا ایک ہی خلیفہ ہونا چاہیے اور پھر معروف میں اس کی اطاعت کرنی چاہیے، اگر وہ کسی ایسی بات کا حکم دے، جو رعایا کی طبیعت کے خلاف ہے، یا کسی کی ذاتی رائے کے خلاف ہے، تو اپنی طبیعت اور رائے کو نظر انداز کرنا ضروری ہے، جبکہ حاکم کی بات شریعت کے خلاف نہ ہو اور اگر حاکم رعایا کے حقوق ادا نہیں کرتا، تو اللہ تعالیٰ خود اس سے باز پرس کرے گا، رعایا کو اس کے خلاف محاذ قائم نہیں کرنا چاہیے، لیکن آج ہماری بدقسمتی ہے کہ ہر ایک حقوق کا مطالبہ کرتا ہے، اپنے فرائض کی ادائیگی پر تیار نہیں ہے، اس لیے مختلف طبقات میں طبقاتی جنگ میں جاری رہتی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4773
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2871
´بیعت پوری کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کی حکومت ان کے انبیاء چلایا کرتے تھے، ایک نبی چلا جاتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا، لیکن میرے بعد تم میں کوئی نبی ہونے والا نہیں“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خلیفہ ہوں گے اور بہت ہوں گے“، لوگوں نے کہا: پھر کیسے کریں گے؟ فرمایا: ”پہلے کی بیعت پوری کرو، پھر اس کے بعد والے کی، اور اپنا حق ادا کرو، اللہ تعالیٰ ان سے ان کے حق کے بارے میں سوال کرے گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2871]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) سیاست کا مطلب ہے: کسی چیز یا (جانور وغیرہ) یا افراد سے متعلق وہ کام انجام دینا جس میں ان کے حالات کی اصلاح (اور ان کی ضروریات کی تکمیل) ہو۔ (نهاية ابن اثير)
(2) قوم کے اجتماعی معاملات کی اصلاح اور دیکھ بھال اسلامی سلطنت کا انتطام، رعیت کی رہنمائی بنیادی طور پر انبیاء ؑ کا فریضہ ہے۔
(3) رسول اللہ ﷺ چونکہ آخری نبی ہیں اس لیے اب یہ منصب علمائے کرام کا ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق ملک کا انتظام کریں اور عوام کی رہنمائی کریں۔
(4) علمائے کرام کا یہ کام نہیں کہ عوام کے جذبات واحساسات کے مطابق کام کریں بلکہ ان کا اصل فریضہ یہ ہے کہ ان کے جذبات کو صحیح رخ پر ڈال کر ان کے تعاون سے معاشرے کی اصلاح اور دین کی سر بلندی کا مقصد حاصل کریں۔
(5) ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرا خلیفہ بنانا درست نہیں۔ پہلے کی وفات کے بعد دوسرا شخص خلیفہ مقرر کیا جائے گا اور اس کی بیعت کی جائے گی۔
(6) شرعی امیر کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں۔
(7) اگر امیر سے اس کے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہو تو یہ اس بات کا جواز نہیں کہ رعیت بھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کرنے لگے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2871
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3455
3455. حضرت ابو حازم (سلمان اشجعی ؓ) بیان کرتے ہیں۔ میں پانچ سال حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں بیٹھا ہوں، میں نے انھیں نبی ﷺ کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا: کہ آپ نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کی حکومت حضرات انبیاء ؑ چلاتے اور ان کے امور کا انتظام کرتے تھے۔ جب ایک نبی کی وفات ہو جاتی تو اس کا جانشین دوسرا نبی ہو جا تا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی تو نہیں ہو گا، البتہ خلفاء ہوں گے اور وہ بھی بکثرت ہوں گے۔“ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”جب کوئی خلیفہ ہو جائے۔ (اور تم نے اس سے بیعت کر لی ہو)تو اس سے کی ہوئی بیعت پوری کرو۔ پھر اس کے بعد جو پہلے ہو اس کی بیعت پوری کرو۔ انھیں ان کا حق دو۔ اگر وہ ظلم کریں گے تو اللہ ان سے پوچھے گا کہ انھوں نے اپنی رعایا کا حق کیسے ادا کیا؟“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3455]
حدیث حاشیہ: خلفاء کی اطاعت کےساتھ خلفاء کوبھی ان کی ذمہ داریوں کےاداکرنے پرتوجہ دلائی گئی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں گے، ان کواللہ کی عدالت میں سخت ترین رسوائی کاسامنا کرناہوگا، ٖآج نام نہاد جمہوریت کےدورمیں کرسیوں پرآنے والے لوگوں کےلیے بھی یہی حکم ہےکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں مگر کتنے کرسی نشین ہیں جواپنی ذمہ داریوں کوسوچتےہیں، ان کوصرف ووٹ مانگنے کے وقت کچھ یاد آتاہے بعد میں سب بھول جاتےہیں۔ إلاما شاء اللہ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3455
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3455
3455. حضرت ابو حازم (سلمان اشجعی ؓ) بیان کرتے ہیں۔ میں پانچ سال حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں بیٹھا ہوں، میں نے انھیں نبی ﷺ کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا: کہ آپ نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کی حکومت حضرات انبیاء ؑ چلاتے اور ان کے امور کا انتظام کرتے تھے۔ جب ایک نبی کی وفات ہو جاتی تو اس کا جانشین دوسرا نبی ہو جا تا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی تو نہیں ہو گا، البتہ خلفاء ہوں گے اور وہ بھی بکثرت ہوں گے۔“ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”جب کوئی خلیفہ ہو جائے۔ (اور تم نے اس سے بیعت کر لی ہو)تو اس سے کی ہوئی بیعت پوری کرو۔ پھر اس کے بعد جو پہلے ہو اس کی بیعت پوری کرو۔ انھیں ان کا حق دو۔ اگر وہ ظلم کریں گے تو اللہ ان سے پوچھے گا کہ انھوں نے اپنی رعایا کا حق کیسے ادا کیا؟“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3455]
حدیث حاشیہ: 1۔ سیاست کے معنی کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں۔ بنی اسرائیل کی اصلاح حضرات انبیاء ؑ کرتے تھے۔ جب ان میں کوئی فتنہ وفساد رونما ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے دورکرنے کے لیے کسی نبی کابندوبست کردیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جو پہلے انبیاء علیہ السلام جیسا فریضہ ادا کرے،البتہ میرے خلفاء بکثرت ہوں گے۔ ان کی اطاعت کرانا امت پر واجب ہے۔ “ 2۔ اس عالم رنگ وبو میں مسلمانوں کے بیک وقت دو خلیفے نہیں ہوسکتے، جب ایک خلیفے کی خلافت شرعی طریقے سے منعقد ہوجائے تو وفاداری اور جاں نثاری اسی سے وابستہ کی جائے، اس کی موجودگی میں اگر کوئی دوسرا خلیفہ بن بیٹھے تو اس کی گردن اڑادینے کا حکم ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ جب دوخلیفوں کی بیعت کی جائے تو دوسرے کو قتل کردیاجائے۔ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4799(1853) افسوس کہ اقتدار کی بندر بانٹ نے مسلمانوں کو تقسیم کردیا ہے۔ مغربی جمہوریت نے مسلمانوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ہیں۔ مسلم ممالک اسی طوائف الملوکی کی پیداوار ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جمہوریت کے نتیجے میں اسمبلیاں قائم ہوتی ہیں وہ دراصل مچھلی بازار کا نمونہ ہیں۔ پھر ممبران اسمبلی کی قیمت لگتی ہے۔ اس کےبعد کاروائی کے دوران میں گالی گلوچ اور بازاری زبان استعمال کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف آوازے کسے جاتے ہیں۔ جوتے اور کرسیاں چلتی ہیں۔ بالآخر اسمبلی کی کاروائی سے غیر پارلیمانی جملے حذف کرنا پڑتے ہیں۔ اسلام اور تقسیم درتقسیم کی اجازت نہیں دیتا۔ واللہ المستعان۔ 3۔ اس حدیث میں خلفاء کی اطاعت کے ساتھ ساتھ ان کی ذمے داریوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ اگروہ اپنے ذمے داری ادا نہیں کریں گے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں سخت ترین رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ آج نام نہاد جمہوری دور میں کرسیوں پر براجمان ہونے والوں کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ اپنے ذمے داریوں کا احساس کریں مگر کتنے کرسی نشین ہیں جو اقتدار میں آنے کے بعد اپنی ذمے داریوں کے متعلق سوچتے ہیں؟ انھیں جب ووٹ لینے ہوتے ہیں تو اس وقت کچھ یاد آتا ہے، غریبوں سے ہمدردی کا درداٹھتا ہے، بعد میں سب بھول جاتے ہیں۔ إِناللہ وإنا إلیه راجعون۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3455