(مرفوع) حدثني محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن فرات القزاز، قال: سمعت ابا حازم، قال: قاعدت ابا هريرة خمس سنين فسمعته يحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" كانت بنو إسرائيل تسوسهم الانبياء كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي وسيكون خلفاء فيكثرون، قالوا: فما تامرنا، قال: فوا ببيعة الاول فالاول اعطوهم حقهم فإن الله سائلهم عما استرعاهم".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ، قَالَ: قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ خَمْسَ سِنِينَ فَسَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا، قَالَ: فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے فرات قزار نے بیان کیا، انہوں نے ابوحازم سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں پانچ سال تک بیٹھا ہوں۔ میں نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے، جب بھی ان کا کوئی نبی ہلاک ہو جاتا تو دوسرے ان کی جگہ آ موجود ہوتے، لیکن یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ہاں میرے نائب ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ان کے متعلق آپ کا ہمیں کیا حکم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے پہلے جس سے بیعت کر لو، بس اسی کی وفاداری پر قائم رہو اور ان کا جو حق ہے اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن ان کی رعایا کے بارے میں سوال کرے گا۔“
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "The Israelis used to be ruled and guided by prophets: Whenever a prophet died, another would take over his place. There will be no prophet after me, but there will be Caliphs who will increase in number." The people asked, "O Allah's Apostle! What do you order us (to do)?" He said, "Obey the one who will be given the pledge of allegiance first. Fulfil their (i.e. the Caliphs) rights, for Allah will ask them about (any shortcoming) in ruling those Allah has put under their guardianship."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 661
بني إسرائيل كانت تسوسهم أنبياؤهم كلما ذهب نبي خلفه نبي ليس كائن بعدي نبي فيكم تكون خلفاء فيكثروا أوفوا ببيعة الأول فالأول أدوا الذي عليكم فسيسألهم الله عن الذي عليهم
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3455
حدیث حاشیہ: خلفاء کی اطاعت کےساتھ خلفاء کوبھی ان کی ذمہ داریوں کےاداکرنے پرتوجہ دلائی گئی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں گے، ان کواللہ کی عدالت میں سخت ترین رسوائی کاسامنا کرناہوگا، ٖآج نام نہاد جمہوریت کےدورمیں کرسیوں پرآنے والے لوگوں کےلیے بھی یہی حکم ہےکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں مگر کتنے کرسی نشین ہیں جواپنی ذمہ داریوں کوسوچتےہیں، ان کوصرف ووٹ مانگنے کے وقت کچھ یاد آتاہے بعد میں سب بھول جاتےہیں۔ إلاما شاء اللہ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3455
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3455
حدیث حاشیہ: 1۔ سیاست کے معنی کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں۔ بنی اسرائیل کی اصلاح حضرات انبیاء ؑ کرتے تھے۔ جب ان میں کوئی فتنہ وفساد رونما ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے دورکرنے کے لیے کسی نبی کابندوبست کردیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جو پہلے انبیاء علیہ السلام جیسا فریضہ ادا کرے،البتہ میرے خلفاء بکثرت ہوں گے۔ ان کی اطاعت کرانا امت پر واجب ہے۔ “ 2۔ اس عالم رنگ وبو میں مسلمانوں کے بیک وقت دو خلیفے نہیں ہوسکتے، جب ایک خلیفے کی خلافت شرعی طریقے سے منعقد ہوجائے تو وفاداری اور جاں نثاری اسی سے وابستہ کی جائے، اس کی موجودگی میں اگر کوئی دوسرا خلیفہ بن بیٹھے تو اس کی گردن اڑادینے کا حکم ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ جب دوخلیفوں کی بیعت کی جائے تو دوسرے کو قتل کردیاجائے۔ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4799(1853) افسوس کہ اقتدار کی بندر بانٹ نے مسلمانوں کو تقسیم کردیا ہے۔ مغربی جمہوریت نے مسلمانوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ہیں۔ مسلم ممالک اسی طوائف الملوکی کی پیداوار ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جمہوریت کے نتیجے میں اسمبلیاں قائم ہوتی ہیں وہ دراصل مچھلی بازار کا نمونہ ہیں۔ پھر ممبران اسمبلی کی قیمت لگتی ہے۔ اس کےبعد کاروائی کے دوران میں گالی گلوچ اور بازاری زبان استعمال کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف آوازے کسے جاتے ہیں۔ جوتے اور کرسیاں چلتی ہیں۔ بالآخر اسمبلی کی کاروائی سے غیر پارلیمانی جملے حذف کرنا پڑتے ہیں۔ اسلام اور تقسیم درتقسیم کی اجازت نہیں دیتا۔ واللہ المستعان۔ 3۔ اس حدیث میں خلفاء کی اطاعت کے ساتھ ساتھ ان کی ذمے داریوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ اگروہ اپنے ذمے داری ادا نہیں کریں گے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں سخت ترین رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ آج نام نہاد جمہوری دور میں کرسیوں پر براجمان ہونے والوں کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ اپنے ذمے داریوں کا احساس کریں مگر کتنے کرسی نشین ہیں جو اقتدار میں آنے کے بعد اپنی ذمے داریوں کے متعلق سوچتے ہیں؟ انھیں جب ووٹ لینے ہوتے ہیں تو اس وقت کچھ یاد آتا ہے، غریبوں سے ہمدردی کا درداٹھتا ہے، بعد میں سب بھول جاتے ہیں۔ إِناللہ وإنا إلیه راجعون۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3455
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2871
´بیعت پوری کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کی حکومت ان کے انبیاء چلایا کرتے تھے، ایک نبی چلا جاتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا، لیکن میرے بعد تم میں کوئی نبی ہونے والا نہیں“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خلیفہ ہوں گے اور بہت ہوں گے“، لوگوں نے کہا: پھر کیسے کریں گے؟ فرمایا: ”پہلے کی بیعت پوری کرو، پھر اس کے بعد والے کی، اور اپنا حق ادا کرو، اللہ تعالیٰ ان سے ان کے حق کے بارے میں سوال کرے گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2871]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) سیاست کا مطلب ہے: کسی چیز یا (جانور وغیرہ) یا افراد سے متعلق وہ کام انجام دینا جس میں ان کے حالات کی اصلاح (اور ان کی ضروریات کی تکمیل) ہو۔ (نهاية ابن اثير)
(2) قوم کے اجتماعی معاملات کی اصلاح اور دیکھ بھال اسلامی سلطنت کا انتطام، رعیت کی رہنمائی بنیادی طور پر انبیاء ؑ کا فریضہ ہے۔
(3) رسول اللہ ﷺ چونکہ آخری نبی ہیں اس لیے اب یہ منصب علمائے کرام کا ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق ملک کا انتظام کریں اور عوام کی رہنمائی کریں۔
(4) علمائے کرام کا یہ کام نہیں کہ عوام کے جذبات واحساسات کے مطابق کام کریں بلکہ ان کا اصل فریضہ یہ ہے کہ ان کے جذبات کو صحیح رخ پر ڈال کر ان کے تعاون سے معاشرے کی اصلاح اور دین کی سر بلندی کا مقصد حاصل کریں۔
(5) ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرا خلیفہ بنانا درست نہیں۔ پہلے کی وفات کے بعد دوسرا شخص خلیفہ مقرر کیا جائے گا اور اس کی بیعت کی جائے گی۔
(6) شرعی امیر کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں۔
(7) اگر امیر سے اس کے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہو تو یہ اس بات کا جواز نہیں کہ رعیت بھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کرنے لگے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2871
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4773
ابو حازم بیان کرتے ہیں، میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں پانچ سال رہا، میں نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنی، آپﷺ نے فرمایا: ”بنو اسرائیل کے معاملات کی نگہداشت انبیاء کرتے تھے، جب ایک نبی فوت ہو جاتا تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ بنتا اور صورت حال یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور خلفاء ہوں گے اور بکثرت ہوں گے“ صحابہ کرام نے پوچھا، تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ”سب سے پہلے کی بیعت کو پورا کرو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4773]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: تَسُوسُهُمُ الأَنبِيَاء: ان کے معاملات کی نگہداشت اور نگرانی انبیاء کرتے تھے اور ان کے مفادات کے محافظ بھی تھے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، انسانوں کے دینی معاملات کی طرح، ان کے دنیوی معاملات کے نگران اور محافظ بھی انبیاء ہوتے تھے، دین اور دنیا میں امتیاز نہ تھا، لیکن چونکہ آپ سے پہلے انبیاء کا سلسلہ جاری تھا، اس لیے ایک نبی کی وفات کے بعد لوگوں کے دینی اور دنیوی امور کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لیے اس کی جگہ دوسرا نبی آ جاتا تھا، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا، کیونکہ آپ پر نبوت ختم ہو گئی ہے، اس لیے آپ کے بعد خلفاء کا سلسلہ شروع ہوا، جب ایک خلیفہ کے بعد (کیونکہ وہ فوت ہو گیا ہے) دوسرے کی بیعت کر لی جائے، تو اس کے بعد کسی اور خلیفہ کی بیعت نہیں کی جا سکتی، جس سے معلوم ہوتا ہے، مسلمانوں کا ایک ہی خلیفہ ہونا چاہیے اور پھر معروف میں اس کی اطاعت کرنی چاہیے، اگر وہ کسی ایسی بات کا حکم دے، جو رعایا کی طبیعت کے خلاف ہے، یا کسی کی ذاتی رائے کے خلاف ہے، تو اپنی طبیعت اور رائے کو نظر انداز کرنا ضروری ہے، جبکہ حاکم کی بات شریعت کے خلاف نہ ہو اور اگر حاکم رعایا کے حقوق ادا نہیں کرتا، تو اللہ تعالیٰ خود اس سے باز پرس کرے گا، رعایا کو اس کے خلاف محاذ قائم نہیں کرنا چاہیے، لیکن آج ہماری بدقسمتی ہے کہ ہر ایک حقوق کا مطالبہ کرتا ہے، اپنے فرائض کی ادائیگی پر تیار نہیں ہے، اس لیے مختلف طبقات میں طبقاتی جنگ میں جاری رہتی ہے۔